کیا عمران خان صاحب کو اندازہ ہو چلا ہے کہ پارلیمانی نظام میں ان کا سیاسی مستقبل محفوظ نہیں؟ کیا پارلیمان کو کامیاب بنانے سے عدم دلچسپی، تحریکِ انصاف کی سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے؟ کیا یہ صدارتی نظام کے لیے فضا ہموار کرنے کی ایک کوشش ہے؟ اگر ان سوالات کے جواب اثبات میں ہیں تو حزبِ اختلاف کی ذمہ داری کیا ہے؟ کیا پارلیمان کو کامیاب بنانا خود اپوزیشن جماعتوں کی بقا کے لیے ضروری نہیں؟ کیا حزب اختلاف کو اس بات کا احساس ہے؟
عمران خان صاحب کی پارلیمان آمد پرحزبِ اختلاف کا رویہ مایوس کن تھا۔ یہ ایک روایتی اپوزیشن تھی جو سمجھتی ہے کہ گھر کی رونق ایک ہنگامے پر موقوف ہے۔ ملک کے وزیر اعظم کو گفتگو نہیں کرنے دی گئی۔ اس سے بہتر یہ تھا کہ وہ اپنی بات کہتے اور اپوزیشن اپنی بات کہتی۔ عوام کو موقع ملتا کہ وہ تقابل کرتے اور دونوں کے موقف کو ان کے دلائل کی روشنی میں سمجھتے۔ بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ کیا حزبِ اختلاف اس رائے کو تقویت پہنچانا چاہتی ہے جو سیاست دانوں کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں بٹھائی جا رہی ہے؟
پاکستان کی تاریخ میں ایک دلچسپ تقسیم دکھائی دیتی ہے۔ ایک طرف اقتدار ہے اور ایک طرف وقار۔ مارشل لا کے دنوں میں یہ تقسیم زیادہ نمایاں ہوئی۔ ایک طرف جنرل ایوب خان تھے اور دوسری طرف محترمہ فاطمہ جناح اور سید ابوالاعلیٰ مودودی جیسی شخصیات۔ ایک طرف جنرل ضیاالحق تھے اور دوسری طرف نواب زادہ نصراللہ خان اور اصغر خان۔ آج میں حسرت سے ماضی کی طرف دیکھتا اور خواہش کرتا ہوں کہ کاش اس اپوزیشن کے حصے میں اقتدار بھی آتا جسے اس قوم نے عزت سے نوازا تھا۔
ان لوگوں کو اقتدار تو نہیں ملا‘ لیکن انہوں نے سیاسی کلچر کو توانا کیا۔ شائستگی کو فروغ دیا اور سیاست کو اختلاف کے آداب سکھائے۔ 1970ء کی دہائی میں اقتدار ایک سیاسی جماعت کو منتقل ہوا تو چند حکومتی بے اعتدالیوں کے باوجود، پارلیمان نے اپنے وقار کا دفاع کیا۔ قوم کو 1973ء جیسی دستاویز دی۔ ذاتی شکایات کو نظر انداز کرتے ہوئے، اپوزیشن نے قومی اتفاقِ رائے کی سیاست کی‘ اور وفاق کو مضبوط کیا۔ پارلیمان کی عزت کو اپوزیشن نے اپنی عزت سمجھا۔
ان دنوں، ایک بار پھر پارلیمانی اور صدارتی نظام کی بحث شروع ہے۔ یہ مقدمہ قائم کیا جا رہا ہے کہ پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا۔ اب ہمیں صدارتی نظام کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ لگتا ہے تحریکِ انصاف کو پارلیمانی نظام سے زیادہ دلچسپی نہیں۔ عمران خان صاحب کا اپنا رجحان صدارتی نظام کی طرف ہے۔ اس لیے آج پارلیمانی نظام کا دفاع اپوزیشن کی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری اسی وقت پوری ہو گی جب پارلیمان اپنی افادیت ثابت کرے گی۔
گزشتہ سیشن میں منی بجٹ زیرِ بحث تھا۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اپوزیشن اس پر اپنا مؤقف دیتی۔ وہ بتاتی کہ اس میں کیا خامیاں ہیں اور انہیں کیسے دور کیا جا سکتا ہے۔ قوم کے سامنے اپنا متبادل وژن رکھتی۔ اس سے پارلیمان کے بارے میں ایک مثبت رائے بنتی کہ یہاں کوئی تو ہے جو معاملات کو سنجیدگی سے دیکھتا ہے۔ عوام اگر حکومت سے ناراض ہوتے تو متبادل کے طور پر اس کی نگاہیں پارلیمان ہی میں کسی کو تلاش کرتیں۔ جب عوام دیکھتے ہیں کہ دونوں اطراف غیر سنجیدگی کا یکساں غلبہ ہے‘ تو پھر وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے پارلیمان سے باہر ادھر ادھر نظر دوڑانے لگتے ہیں۔
غیر سیاسی مزاج رکھنے والوں کو سنجیدگی سے لینا سیاست کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس سے یقیناً سیاست کا معیار پست ہو گا۔ انہیں نظر انداز کرنا سب سے بہتر حکمتِ عملی ہے۔ یہ سیاست کی مجبوریاں ہیں کہ کسی شیخ رشید کے لیے کسی رانا ثنااللہ کی ضرورت رہتی ہے۔ اسے لیکن سیاست کا عمومی کلچر نہیں بنانا چاہیے۔ کم از کم پارلیمان کے ماحول کو تو غیر سنجیدہ نہیں ہونا چاہیے۔ میڈیا نے غیر سنجیدہ لوگوں کو نمایاں کیا۔ اہلِ سیاست نے اسے عوامی مقبولیت کا معیار سمجھ لیا اور شیخ رشید صاحب کی راہ پر چل نکلے۔ اس کا نتیجہ سیاسی گراوٹ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
تحریکِ انصاف کو اندازہ ہو چکا کہ پارلیمانی سیاست اس کے لیے سازگار نہیں۔ اس کا کل اثاثہ عمران خان کی عامی مقبولیت ہے۔ مخالفین کے ہاتھ پاؤں باندھنے کے باوجود، تحریکِ انصاف کو بمشکل برتری دلائی جا سکی‘ اور وہ بھی ناقابلِ ذکر۔ انہیں معلوم ہے کہ آئندہ نہ اس سے زیادہ سازگار حالات انہیں میسر آ سکتے ہیں‘ اور نہ وہ اس سے بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ گیلپ سروے بتاتا ہے کہ عمران خان کے ساتھ نئی نسل کے ایک بڑے حصے کا رومان ابھی ختم نہیں ہوا۔ یہ رومان مستقبل میں اسی وقت مفید ثابت ہو سکتا ہے کہ جب ووٹ تحریکِ انصاف کے بجائے عمران خان کو ملیں۔ یہ صدارتی نظام ہی میں ممکن ہے۔ نعیم الحق جیسوں کا بوجھ تحریکِ انصاف کی کمر توڑ دے گا۔
آج تحریکِ انصاف کو پارلیمان کے وقار سے زیادہ دلچسپی نہیں۔ اب یہ ذمہ داری نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے کندھوں پر ہے‘ جو پارلیمان میں اکثریت رکھتی ہیں کہ وہ پارلیمانی نظام کا دفاع کریں۔ یہ دفاع اسی وقت ممکن ہو گا جب پارلیمان اپنی افادیت ثابت کرے گا۔ یہ حکومت کو زچ کرنے سے نہیں ہو گا۔ اس کے لیے اپوزیشن کو اپنی کارکردگی دکھانا ہو گی۔
یہ کام دو طرح سے ہو سکتا ہے۔ ایک یہ کہ اپوزیشن بحث کے معیار کو بہتر بنائے۔ قائمہ کمیٹیوں میں بہتر کارکردگی دکھائے۔ قوم کو معلوم ہو کہ اپوزیشن حقیقی عوامی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہے۔ میڈیا پر اپوزیشن راہنماؤں کی باتیں اہم سمجھی جائیں‘ اور یہ معاشرے میں بحث کا موضوع بنیں۔ دوسرا یہ کہ حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ پالیسی معاملات کو پارلیمنٹ میں لائے۔ خارجہ پالیسی اس میں اہم تر ہے۔ افغانستان کے بارے میں ہونے والی پیش رفت کی خبر آئی ایس پی آر سے مل رہی ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی معاملات سے معاشی تعاون کی شرائط کی قوم کو کوئی خبر نہیں۔ اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے حکومت کی کارکردگی کو پارلیمان کا موضوع بنائے۔
آج اہلِ سیاست کے خلاف، حکمران سیاسی جماعت کے تعاون سے جو مقدمہ قائم کیا گیا ہے، اس کو غلط ثابت کرنا سیاست دانوں کی ذمہ داری ہے۔ یہ صرف حسنِ کارکردگی سے ممکن ہے۔ اہلِ سیاست کے خلاف اس کے باوجود مہم جاری رہے گی لیکن اس کی تائید میں کمی آ جائے گی۔ ''سب چور ہیں‘‘ جیسے نعرے اس وقت بے اثر ہو جائیں گے جب سیاست دان اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔
'پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز‘ (PIPS) نے قومی سطح پر ایک مکالمے کا آغاز کیا تو پارلیمان کی بالا دستی کو بھی موضو ع بنایا۔ اہلِ سیاست کے ناقدین کا ایک بڑا اعتراض یہ تھا کہ وہ فلاں فلاں اچھے کام کر سکتے تھے‘ کس نے ان کا ہاتھ پکڑا تھا کہ وہ یہ نہ کریں۔ اس مکالمے میں عوام کی بھرپور شرکت دیکھ کر یہ احساس ہوا کہ لوگ اب بھی سیاست دانوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ اگر وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کر سکیں تو کوئی وجہ نہیں کہ جمہوریت جڑ نہ پکڑے۔
سیاست دانوں کے ہاتھ میں بندوق نہیں ہوتی۔ ان کی طاقت اخلاقی برتری ہے یا پھر عوام کی تائید۔ اس طاقت کے اظہار کا ایک فورم پارلیمان ہے۔ اگر پارلیمان اپنا وقار ثابت کرتا ہے تو پھر سیاست دانوں کے خلاف ہر مقدمہ عوامی تائید سے محروم رہے گا۔ یہ طے ہے کہ پارلیمان کا وقار تحریکِ انصاف کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس کے اسباب ایک سے زیادہ ہیں۔ دکھائی یہ دیتا ہے کہ پارلیمانی نظام کی ناکامی ہی سے عمران خان صاحب کا سیاسی مستقبل وابستہ ہے۔ نرگسیت اور پارلیمانی نظام ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ بھٹو صاحب کی نرگسیت نے بھی پارلیمانی نظام کو نقصان پہنچایا تھا۔ دوسری طرف سیاسی جماعتوں کی کامیابی اس میں ہے کہ یہ نظام قائم رہے۔
اجتماعی دانش کی طرف رجوع کے لیے پارلیمانی نظام کا تحفظ ضروری ہے۔ پارلیمان کی تشکیل کے باب میں ایک سے زیادہ آرا ہو سکتی ہیں‘ جن پر بحث ہونی چاہیے؛ تاہم کسی ایسے نظام کی طرف قدم اٹھانے سے گریز کرنا چاہیے جس کا نتیجہ شخصی آمریت ہو۔ پارلیمانی نظام کا مستقبل، میرا خیال ہے کہ اپوزیشن کی کارکردگی سے مشروط ہو گیا ہے۔