نواز شریف فرد سے علامت بن سکتے ہیں، اگر وہ عزیمت کی راہ پر یوں ہی ثابت قدم رہے۔
بے حس لوگوں کی بات نہ کیجیے کہ سوئے اتفاق سے انسانی بستیوں کی طرف آ نکلے ہیں۔ ایسا ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے آخری الہام کی گواہی یہی ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو انسان دکھائی دیتے ہیں مگر ہوتے مویشیوں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی بد تر۔ ایسوں کا ذکر ایک طرف، ورنہ ہر کوئی جانتا ہے کہ نواز شریف کے جسم سے لپٹے عوارض سنگین ہیں۔ صرف دل کا عارضہ ہی ایسا ہے کہ جان کو آوے ہے۔ پھر روح پر لگے چرکے اس کے سوا۔ شریکہ حیات سے دائمی فراق اور انتقام کی نہ ٹھنڈی ہونے والی آگ۔ کوئی انسانی زخموں سے لطف اٹھائے تو اس کے بارے میں کفِ لسان ہی بہتر ہے۔
قانون سب کے لیے ایک ہے۔ ایک ہی ہونا چاہیے۔ یہ محض واہمہ ہے کہ امیر کے لیے الگ ہے اور غریب کے لیے الگ۔ توقیر فرد کی نہیں، منصب کی ہوتی ہے۔ شہباز شریف کا معاملہ مختلف ہے، اس لیے نہیں کہ امیر ہیں۔ اس لیے کہ قائد حزب اختلاف ہیں۔ ٹریفک عمران خان صاحب یا عثمان بزدار صاحب کے لیے نہیں، ایک وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے لیے تھم جاتی ہے۔
علاج ہر قیدی کا استحقاق ہے، نواز شریف کا زیادہ۔ وہ پاکستان کے مقبول ترین راہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ سیاسی عصبیت رکھتے ہیں۔ عوام کی غیر معمولی تعداد انہیں سیاسی اسیر سمجھتی ہے۔ ان کی زندگی سے ملکی سیاست کی سانسیں جڑی ہیں۔ بلوچستان کا ایک گمنام پروفیسر ارمان، زندگی سے گیا تو اضطراب پورے پاکستان میں پھیل گیا۔ نواز شریف پاکستان کے اور ملک کے سب سے بڑے صوبے کے بلا شرکتِ غیرے لیڈر ہیں۔ کوئی سمجھنا چاہے تو سمجھ سکتا ہے کہ ان کی جان کا وفاق سے کیا رشتہ ہے۔ معاملات غیر سیاسی ہاتھوں میں چلے جائیں تو وہ ایسی نزاکتوں کو ادراک نہیں کر سکتے۔
نظامِ قانون سے ان گنت شکایات کے باوجود، نواز شریف نے ہمیشہ قانون سے رجوع کیا ہے۔ وزیر اعظم ہوتے ہوئے، ایک کم تر منصب کے آدمی کے سامنے پیش ہوئے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا حکم تھا۔ عدالت کے فیصلوں سے اختلاف ہوا تو عدالت ہی سے رجوع کیا۔ گویا نظام کے خلاف اتمامِ حجت کر دیا۔ مہذب معاشروں میں یہی ہوتا ہے کہ منصب کی توقیر ہوتی ہے۔ یہ الگ بات کہ کبھی عقابوں کے نشیمن زاغوں کے تصرف میں چلے جاتے ہیں۔ نظام کے خلاف نواز شریف کے احتجاج کا آہنگ بڑھا تو نظام کی اپنی جان خطرے میں پڑھ سکتی ہے۔
ملک میں سیاست تھم چکی۔ جو ہو رہا ہے، وہ سیاست نہیں کچھ اور ہے۔ بے حسی، انتقام، نرگسیت، سیاسی ناخواندگی، اور نااہلی کا ایک ملغوبہ ہے جس کے مظاہر چاروں طرف بکھرے ہوئے ہیں۔ ریاست کیا ہوتی ہے، سیاسی عصبیت کیا شے ہے، جمہوری اقدار کیسے پنپتی ہیں، سیاسی اختلاف کے آداب کیا ہیں، احتساب اور سیاسی عمل کا باہمی تعلق کیا ہے، علاقائی سیاست کیا کروٹیں لے رہی ہے، ترجیحات کیسے طے ہوتی ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوالات کہیں زیرِ بحث نہیں۔
کہیں کہیں کوئی دیا ٹمٹماتا ہے جو سیاست کی راہوں میں اجالا کر دیتا ہے مگر کچھ ہی دیرکے لیے، جیسے ساون کی راتوں میں بجلی چمکتی ہے۔ ایک لمحے کی روشنی اور پھر اندھیرا۔ سعد رفیق نے پارلیمان میں ایسا ہی ایک چراغ روشن کیا۔ پیپلز پارٹی کے حلقے سے کبھی کبھار ڈھنگ کی کوئی آواز سنائی دے جاتی ہے کہ اس کی صفوں میں ایسے بھی ہیں جو سیاسی حرکیات کا شعور رکھتے ہیں۔ رہے بڑے لیڈر تو نواز شریف کے علاوہ کون ہے جس کی طرف نگاہ اٹھے؟
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے
نواز شریف صاحب نے سیاست میں جوہری تبدیلی کی بات کی۔ ملکی سیاست کی اُس رگ پر ہاتھ رکھا‘ جہاں سے درد کی ٹیسیں برسوں سے اٹھ رہی ہیں۔ 2014ء میں سیاست کے پرت ان لوگوں پر بھی کھلنے لگے جو کبھی اِس کی گہرائیوں میں نہیں اترے تھے۔ سوشل میڈیا نے کوئی پردہ باقی نہ رہنے دیا۔ اب سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں انگلی رکھ کر بتا دیا کہ ریاست کی گاڑی کہاں کہاں اور کیسے پٹڑی سے اتری۔ فیض آباد دھرنے پر عدالتِ عظمیٰ کے تاریخ ساز فیصلے نے عوامی شعور اور عدالتی شعور کو ہم آہنگ کر دیا۔
یہ نوازشریف کے بیانیے کی اخلاقی اور نظری فتح ہے کہ اس کی تائید میں، آج وہاں وہاں سے صدائیں بلند ہو رہی ہیں جہاں جہاں سے اس کی تردید ہوتی رہی۔ 2018ء کے انتخابی نتائج کیسے مرتب ہوئے، اب کوئی راز یا متنازعہ بات نہیں رہی۔ جب انتخابی نتائج مشتبہ ہوتے ہیں تو ایک نیا سیاسی بحران جنم لیتا ہے۔ اس کا حل وہی ہے جو نواز شریف نے بتایا تھا: ووٹ کو عزت دو۔
وہی دیرینہ بیماری، وہی نامحکمی دل کی
علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی
عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ صلائے عام ہے غور و فکر کرنے والوں کے لیے۔ ایک تذکیر ہے ان کے لیے جو سوچتے ہیں۔ ایک منادی ہے عوام کے لیے۔ لازم ہے کہ یہ اہلِ سیاست کے بیانیے میں ڈھل جائے۔ ایک میثاق کی بنیاد بن جائے جس پر سیاسی جماعتیں اتفاق کر لیں۔ بد قسمتی سے ان جماعتوں کو بقا کا ایسا معرکہ درپیش ہے کہ اس سے آگے بڑھ کر دیکھنے کی ان میں ہمت نہیں رہی۔ ایسے میں صرف نواز شریف کا بیانیہ ہے جو سیاسی استحکام کی طرف متوجہ کر رہا ہے۔
نواز شریف اس وقت ملک کے واحد تجربہ کار سیاست دان ہیں۔ پیپلز پارٹی بحیثیت جماعت سیاست کے رموز سے واقف ہے۔ آج سیاست کا المیہ یہ ہے کہ نواز شریف کے پاس وہ جماعت نہیں جو ان کی سیاسی وژن کا ساتھ دے سکے اور پیپلز پارٹی کے پاس وہ قیادت نہیں جو اس کی آدرشوں کی ترجمان ہو۔ زمامِ کار بد قسمتی سے ان ہاتھوں میں ہے جو حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے فرق ہی سے واقف نہیں۔
یہ ہے وہ پسِ منظر جس میں احتساب سیاسی جمود کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ علیم خان صاحب کی گرفتاری سے احتساب آگے نہیں بڑھ رہا، سیاست بند گلی میں جا رہی ہے۔ سیاسی جمود کا مطلب سیاسی نظم کا بانجھ پن ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سیاسی حل کا امکان ختم ہو گیا ہے۔ یہ کسی طرح قومی سلامتی کے لیے نیک شگون نہیں۔
اس سیاق میں اگر نواز شریف کی صحت کو مزید خطرات لاحق ہوتے ہیں تو یہ اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہو سکتا ہے۔ میں اپنی بات کو دھراتا ہوں کہ وہ ایک لیڈر ہیں۔ انہیں سیاسی عصبیت حاصل ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کے صبر کو اتنا نہ آزمایا جائے کہ وہ چھلک اٹھے۔ معاملات اگر سیاسی ہاتھوں میں ہوتے تو انہیں یقیناً اس بات کا ادراک ہوتا۔ حکومت کو اندازہ ہونا چاہیے کہ آج اگر پارلیمان کا کوئی وجود ہے تو اسی وجہ سے کہ حکومت نے ایک دو سیاسی فیصلے کیے جن میں ایک فیصلہ شہباز شریف صاحب کا بطور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تقرر ہے۔
اگر یہ سیاسی ذہن نواز شریف کے معاملے میں بروئے کار آئے تو ان کے معاملے کو قانون، اخلاق اور سیاسی حرکیات کے حوالے سے دیکھے۔ پھر ان کی صحت سے کھلواڑ نہ کرے۔ مریم کی سیاست کے راستے میں غیر فطری رکاوٹیں نہ کھڑی کرے۔ نواز شریف کا حتمی فیصلہ عوام پر چھوڑ دے۔ نواز شریف کا سیاسی فہم اور تجربہ بھی یقیناً انہیں تصادم کی طرف جانے سے روکے گا۔
غیر سیاسی ذہن کی کوشش مگر یہ ہے کہ ساری توانائیاں نواز شریف کے قد کو گھٹانے کے لیے استعمال کی جائیں۔ ڈھیل کی افواہوں کا بازار اسی لیے گرم ہے۔ میرا احساس ہے کہ نواز شریف کے بارے میں فیصلے کا اختیار اربابِ حل و عقد کے ہاتھوں سے نکل چکا۔ اپنے بارے میں فیصلے کا اختیار نواز شریف کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ اگر انہوں نے عزیمت کا راستہ اختیار کیے رکھا اور اپنی اخلاقی برتری کو قائم رکھا تو پھر فرد سے علامت بن جائیں گے۔ بیماری، موت، یہ باتیں فرد کے لیے ہیں، علامت کے لیے نہیں۔
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے