چند کالعدم تنظیموں کو ایک بار پھر کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ ایک قانونی تقاضا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ حکومت کا نہیں، ریاست کا ہے۔
کابینہ کا فیصلہ حکومتی فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ قومی سلامتی کمیٹی کا فیصلہ ہے، جس میں افواج پاکستان کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ یوں یہ ریاست کا فیصلہ ہے۔ ان تنظیموں کے بارے میں سابقہ حکومت کا فیصلہ بھی یہی تھا۔ گویا اب قومی اتفاقِ رائے پیدا ہو چکا کہ وہ دینی تعبیر جو ان تنظیموں نے اپنائی اور وہ حکمتِ عملی جو انہوں نے اختیار کی، پاکستان کی ریاست اور قومی سیاسی جماعتیں ان سے اعلانِ برأت کر رہی ہیں۔ اس فیصلے کے کچھ مضمرات ہیں جن پر غور ضروری ہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کا فیصلہ شعوری ہے یا کسی خارجی دباؤ کا نتیجہ؟ اگر یہ شعوری فیصلہ نہیں اور مقصود چند پابندیوں سے خود کو محفوظ رکھنا ہے جو ان تنظیموں کی وجہ سے پاکستان پر عائد ہو سکتی ہیں تو پھر اس ملمع کاری کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ یہ لوگ نئے ناموں اور تنظیمی پردوں میں پھر نمودار ہو جائیں گے اور دائرے کا سفر جاری رہے گا۔ پاکستانی معاشرہ بدستور اُن خدشات کی گرفت میں رہے گا جو چالیس سال سے ہمارے قومی وجود سے لپٹے ہوئے ہیں۔
اگر یہ فیصلہ شعوری ہے تو پھر یہ حکومت، ریاست اور معاشرے سے کچھ تقاضے کرتا ہے۔ میرا گمان ہے کہ اب یہ ایک شعوری فیصلہ ہے۔ ''پیغامِ پاکستان‘‘ دراصل وہ دستاویز ہے جو اس بات کا اظہار ہے کہ ریاست کو حقیقی مسئلے کا ادراک ہو چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر ممبئی حملے کے تناظر میں بعض اہم ترین شخصیات کے انٹرویوز اور تقاریر موجود ہیں۔ ان میں جنرل پرویز مشرف، جنرل حمید گل، قومی سلامتی کے سابقہ مشیر جنرل محمود درانی اور عمران خان شامل ہیں۔ یہ سب برسوں سے اس بات کی اہمیت کو بیان کر رہے ہیں کہ اگر پاکستان سے باہر کوئی ایسی واردات ہوتی ہے جس کے ذمہ داران پاکستان کی سر زمین پر پائے جاتے ہیں تو یہ قومی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔ ہمیں اس باب میں یک زبان ہونا ہو گا کہ پاکستان کی سرزمین کو کوئی اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کرے۔
آج پاکستانی قوم کے ایک بڑے حصے کا اتفاق ہے کہ مقصد کیسا ہی نیک ہو، ریاست کے سوا کسی کو یہ حق نہیں دیا جائے گا کہ وہ طاقت کا استعمال کرے۔ جہاد بھی ریاست ہی کی ذمہ داری ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو اس بات کو نہیں مانتا، ریاست اس کے ساتھ کیا معاملہ کرے گی؟ کیا وہ پہلے کی طرح سماج میں متحرک رہیں گے اور اپنے بیانیے کا اعلانیہ ابلاغ کریں گے؟ کیا جدید تعلیمی اداروں میں حالیہ موقف کو تعلیم و تربیت کے نظام کا حصہ بنایا جائے گا؟ کیا دینی مدارس کے نصاب اور ماحول پر اس کا اطلاق ہو گا؟ وہ مذہبی جماعتیں جو آج بھی مسئلہ کشمیر کا غیر ریاستی عسکری حل تجویز کرتی ہیں، اسی طرح متحرک رہیں گی؟ کیا ریاست کے پاس وہ علمی سرمایہ ہے جو کالعدم تنظیموں کے بیانیے کا توڑ کر سکے؟
ریاست کی سطح پر ہونے والا کوئی فیصلہ، شعوری ہونے کے باوجود نتیجہ خیز نہیں ہوتا اگر عوام اس کے پیچھے کھڑے نہ ہوں۔ عوام کی تائید اسی وقت شاملِ حال ہوتی ہے جب وہ شعوری طور پر کسی بات کے قائل ہو جائیں۔ جبر یا خارجہ دباؤ کے نتیجے میں کیا گیا فیصلہ اسی لیے دور رس نتائج نہیں دے سکتا کہ وہ شعوری نہیں ہوتا۔ اب عوام کی رائے اسی وقت بدلے گی جب عوامی فورمز اور ابلاغی مراکز سے نیا بیانیہ پیش کیا جائے گا۔
میری تجویز ہے کہ اس معاملے پر تجدیدِ عہد کے لیے، ایک کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا جائے۔ 2014ء میں اے پی ایس پشاور پر حملے کے بعد، وزیر اعظم نواز شریف نے ایک قومی کانفرنس بلائی تھی جس کے نتیجے میں نیشنل ایکشن پلان سامنے آیا تھا۔ موجودہ حکومت نے بھی اسی کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے‘ جو ریاست کی سطح پر تسلسل کا اظہار ہے۔ لازم ہے کہ سب جماعتوں کو ایک بار پھر جمع کیا جائے اور نئی صورتِ حال میں دنیا کو پیغام دیا جائے کہ پاکستانی قوم تین سال پہلے اختیار کیے گئے موقف پر قائم ہے۔
شعوری فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے عقلی سطح پر یہ جان لیا ہے کہ ہمارے قومی مفاد کا تقاضا کیا ہے۔ 1979ء میں جب ریاست نے ایک بیانیے کو اختیار کیا تو اس کے حق میں ایک ہمہ جہتی تحریک بھی اٹھائی۔ اس کے نتیجے میں دین کی تعبیر سے لے کر سماجی رویے تک، بہت کچھ بدل گیا۔ آج بھی صرف ریاستی پالیسی کا بدلنا کافی نہیں ہے، سماج کا بدلنا بھی ضروری ہے۔ اس کا پہلا مرحلہ سیاسی سطح پر اتفاق رائے کا عملی اظہار ہے۔ کل جماعتی کانفرنس اس کی علامات بن سکتی ہے۔
دوسرا مرحلہ اس کا ابلاغ ہے۔ ضروری ہے کہ اس موضوع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندہ اداروں کی بھی قومی کانفرنس بلائی جائے۔ وزراتِ اطلاعات سہولت کار کا کردار ادا کرے‘ اور وہ فورم فراہم کرے جہاں سے یہ ادارے ابلاغ کے باب میں ایک حکمتِ عملی پر اتفاق کریں۔ ابلاغ کے حکومتی اداروں سے اس ضمن میں کوئی کام نہیں لیا جا سکا۔ 2014ء میں ایک موقع پیدا ہوا تھا جسے سابقہ حکومت نے ضائع کر دیا۔ اس وقت قوم کو باور کرانا آسان تھا کہ یہ تنظیمیں کس طرح سماجی امن کے لیے خطرہ ہیں۔ اب حکومت چاہے تو پی ٹی وی اور دوسرے اداروں سے کام لے سکتی ہے۔
ابلاغ کا دوسرا اہم فورم مسجد ہے۔ محراب و منبر سے اگر شعوری تبدیلی کے لیے کوئی آواز اٹھے تو مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔ اسلامی یونیورسٹی کا ادارہ دعوۃ اکیڈمی آئمہ اور خطبا کی تربیت کا اہتمام کرتا ہے۔ حال ہی میں یونیورسٹی کے ایک دوسرے ادارے اقبال انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ نے بھی جمعہ کے ماڈل خطبے تیار کیے ہیں۔ ان اداروں کی مدد سے خطیبوں اور آئمہ کی تربیت کی جا سکتی ہے۔ بعض این جی اوز بھی یہ خدمت سرانجام دے رہی ہیں۔ انہیں بھی اس میں شامل کیا جانا چاہیے۔
پاکستان کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ ان شبہات کا تدارک کرے جو عالمی سطح پر ہمارے بارے میں پائے جاتے ہیں۔ بھارت کی مہم کو غیر موثر بنانے کا یہی سب سے بہتر طریقہ ہے۔ اگر ہم خود ان تنظیموں کے وجود کو درست نہیں سمجھتے اور عالمی مطالبہ بھی یہی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا کو قائل نہ کیا جا سکے۔ ہمیں زبانِ حال سے بتانا ہو گا کہ ہم اس باب میں سنجیدہ ہیں۔ عمران خان صاحب کو اپنے اس قول کی عملی شہادت دینا ہو گی کہ پاکستان 'تشدد پر ریاست کے اجارہ داری‘ (Monopoly of violence) کا علم برادر ہے۔
ہمیں بھارت کی اس چال کو ناکام بنانا ہے کہ پاکستان کسی طرح پر تشدد تحریکوں کا حامی ہے یا اس کی سرزمین پر ان کے وجود کو گورا کیا جاتا ہے۔ بھارت کے عوام کو بد قسمتی سے تشدد کی راہ پر ڈالا جا رہا ہے۔ یہ وہ آگ ہے جس کا ایندھن، سب سے پہلے بھارت کا اپنا وجود بن سکتا ہے۔ اسے ہمارے تجربات سے سبق سیکھنا چاہیے۔ میں تو اس خطے کی سلامتی کی دعا کرتا ہوں اور چاہتا ہو کہ بھارت کو بھی کوئی ذی عقل قیادت میسر آئے۔
اگر کالعدم تنظیموں کے باب میں پاکستان کی ریاست یک سو ہو چکی تو اگلا مرحلہ سماج کو یک سو کرنا ہے۔ اس کے لیے پہلا قدم بھی حکومت ہی کو اُٹھانا ہے اور اس کا آغاز سیاسی اتفاق رائے کی تجدید ہے۔ حکومت قومی اتفاق رائے کی اہمیت کو جتنا جلدی سمجھ لے گی، اتنا ہی پاکستان کے حق میں بہتر ہو گا۔