چھ ہفتوں کے بعد کیا ہو گا؟اس سوال کے ساتھ لوگوں کی دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ قیاس آرائیاں ہیں اور ان میں ممکن ہے کہ کوئی خبر بھی چھپی ہوئی ہو۔ میں خبر کا نہیں ، تجربے کا آدمی ہوں۔ میں اس سوال کو اسی سیاق و سباق میں دیکھ رہا ہوں۔
ڈھیل ، ڈیل، انصاف، مفاہمت، ان گنت الفاظ ہیں جو جاری سیاسی عمل کی تفہیم کے لیے زیرِ استعمال ہیں۔یہ الفاظ تنہا نہیں۔ ان کے ساتھ بھی الفاظ کا ایک ہجوم ہے۔ انہیں کھولے بغیر ان کا مفہوم متعین نہیں کیا جا سکتا۔مثال کے طور پر ڈیل کے لیے ضروری ہے کہ ایک سے زیادہ فریق ہوں۔دو تو کم از کم ہوں گے۔ اگر ایک معاملے میں ڈیل ہوئی ہے تو دوسرا فریق کون ہے؟ اگر ڈھیل ہے تو کون ہے جو جب چاہتا ہے زنجیر کھینچ لیتا ہے اور جب چاہتا ہے ، قیدی کو آسودہ کر دیتا ہے۔ یہی نہیں، ان الفاظ کے ساتھ ریاستی اداروں کی حرمت وابستہ ہے۔ جب ہم ان کا انتساب ان اداروں کی طرف کرتے ہیں تو کتنے ہیںجن کی ساکھ داؤ پر لگ جاتی ہے۔
ایک بات طے ہے۔اس وقت اگر ملک میںکسی کا کوئی سیاسی بیانیہ ہے تو وہ نواز شریف کا ہے۔ لوگ ان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ اس بیانیے کو کس طرح آگے بڑھاتے ہیں۔ ان کے سوا کسی کے پاس کوئی بیانیہ نہیں، حتیٰ کہ ن لیگ کے پاس بھی نہیں ۔ شہباز شریف صاحب پاور پالیٹکس کے ایک کھلاڑی ہیں، جیسے دوسرے ہوتے ہیں۔ ان کھلاڑیوں کے لیے سیاسی حرکیات کا مفہوم محض اتنا ہے کہ اقتدار تک رسائی کے کون کون سے دروازے ہیں اور انہیں کیسے کھولا جا سکتا ہے۔
میرے نزدیک عمران خان صاحب کو اندازہ ہے کہ وہی بیانیہ سیاست کا حقیقی بیانیہ ہے جسے نواز شریف پیش کرتے رہے ہیں یا جو اب ان سے منسوب ہو چکا۔ وزیراعظم اگر امور مملکت کا بالقوہ نگران نہیں ہے تو وہ مسئول بھی نہیں ہے۔ اس کی مسئولیت کے لیے ضروری ہے کہ فیصلے کا اختیار بھی اس کے پاس ہو۔ اس اندازِ حکمرانی کو بدل جانا چاہیے کہ فیصلے کہیں اور ہوں اور جواب کسی اور سے مانگا جائے۔ عمران خان لیکن جانتے ہیں کہ اس بیانیے کو قبول کرنے کے نتائج کیا ہیں۔ وہ فی الحال ایوانِ وزیر اعظم میں رہنا چاہتے ہیں ،کوٹ لکھپت میںنہیں۔ اس لیے نباہ کی کوشش میں ہیں۔سوال یہ ہے کہ آخر کب تک؟
نواز شریف صاحب کی سیاسی بقا بھی اب اسی بیانیے سے وابستہ ہے۔ نہ صرف ان کی بلکہ مریم نواز صاحبہ کی سیاست بھی اسی امتیاز کے ساتھ زندہ رہ سکتی ہے۔ ان کی خاموشی کا جواز ہے اگر یہ بیانیے کے ساتھ وابستگی کی علامت ہے۔ اگرانہیں کسی بہتر صورت حال کا انتظار ہے تو اسے گوارا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس دوران میں اہم سوال یہ ہو گا کہ ن لیگ کس بیانیے کے ساتھ کھڑی ہے؟
جب نواز شریف جیل میں تھے تو شہباز شریف صاحب کا کہنا تھا:اگر نواز شریف صاحب کی صحت کو کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار عمران خان ہیں۔ میں نہیں جان سکا کہ وہ کیسے ذمہ دار ہیں؟ آدمی اپنے فعل کا ذمہ دار تو ہو سکتا ہے، دوسروں کے افعال کا نہیں۔ اگر آج نواز شریف ایک محدود وقت ہی کے لیے سہی آزاد ہیں تو کیا اس کے '' ذمہ دار‘‘ عمران خان ہیں؟ اگر نہیں تو پھر ان کے جیل میں رہنے کے ذمہ دار کیسے ہو سکتے ہیں۔ شہباز شریف صاحب کا یہ جملہ دراصل ان کی سیاسی حکمت عملی کو بیان کر رہا ہے۔یہ نواز شریف صاحب کے بیانیے سے مختلف ایک بیانیہ ہے۔
بلاول بھٹو بھی متحرک ہیں۔ سیاسی واقعات ایک دوسرے سے جدا ہونے کے باوجود، ایک دوسرے سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ان کی تحریک سندھ تک محدود ہے اورصاف دکھائی دیتا ہے کہ وہ اپنی موجود قوت کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں۔ بظاہر اس کا ن لیگ یا نواز شریف کی سیاست سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے تاہم اس کا اثر یقیناً ن لیگ کی سیاست پر بھی پڑے گا۔ لوگ ان امکانات کو بھی بین السطور دیکھ رہے ہیں جو آنے والے دنوں میں سیاسی جماعتوں کے اتحاد پر منتج ہو سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے چھ ہفتوں بعد کے منظر نامے پر، اس کے اثرات بھی یقیناً مرتب ہوں گے۔
چھ ہفتوں کے بعد کا منظر حکومت کی کارکردگی سے بھی جڑا ہوا ہے۔ آنے والے دنوں میں حکومت کے بارے میں رائے زیادہ واضح ہو جائے گی۔ عوام ان سے کوئی امید رکھتے ہیں یا ان کی ناامیدی بڑھتی ہے۔ ان کی مایوسی حکومت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو توانا کرے گی۔ اس وقت نظام کی مزاحمت کی علامت چونکہ نواز شریف ہیں، اس لیے یقیناً لوگ ان کی طرف دیکھیں گے۔ عوامی دباؤ اگر حکومت پر پڑے گا تو ساتھ نواز شریف صاحب بھی اس کا ہدف ہوں گے۔ یہ دباؤ عوامی توقعات کی صورت میں ہو گا۔
یہ سارے عوامل دراصل یہ طے کریں گے کہ چھ ہفتے کے بعد کیا ہونے والا ہے۔ نواز شریف صاحب ظاہر ہے کہ عدالتی فیصلے کے پابند ہیں۔ اگر کوئی قانونی یا عدالتی پیش رفت نہیں ہوتی تو انہیں واپس جیل جانا ہو گا ۔ میرا احساس ہے کہ یہ چھ ہفتے ان سیاسی معاملات کو آگے بڑھنے کا باعث بن سکتے ہیں، اگر نواز شریف اس کا استعمال اچھے طریقے سے کر سکیں ۔
وہ چاہیں تو اس خاموشی کو بھی زبان دے سکتے ہیں۔ 1977ء کی تحریک جاری تھی تو ایک مرحلے پر بیگم نسیم ولی خان کی زبان بندی کر دی گئی۔ وہ عوامی اجتماعات سے خطاب نہیں کر سکتی تھیں۔ قومی اتحاد کی مرکزی قیادت گرفتار ہو چکی تھی۔ بیگم صاحبہ کو شاید خاتون ہونے کی وجہ سے گرفتار نہیں کیا گیا لیکن ان پر پابندی عائد کر دی گئی کہ وہ تقریر نہیں کر سکتیں۔ یہ پابندی مولانا عبداللہ درخواستی پر بھی عائد ہوئی تھی۔ لوگوں نے دیکھا کہ ان کی خاموشی ، اس وقت تقریروں سے زیادہ اثر انداز ہوتی جب وہ عوامی اجتماعات میں شریک ہوتے۔ مولانا تو خیر دعا کے نام پر اپنی تقریر کر لیتے، لیکن اسی تحریک میں بیگم صاحبہ کی خاموشی کی آواز رفیق باجوہ صاحب کی خطابت پر غالب رہی۔
نواز شریف صاحب کی خاموشی اگر خود ساختہ ہے تو اسے اب ٹوٹ جانا چاہیے۔ اگر یہ بالجبر ہے تو وہ اسے تقریر کا متبادل بنا سکتے ہیں۔ ان چھ ہفتوں میں اپنے علاج کے علاوہ وہ یہ تو کر سکتے ہیں کہ ن لیگ کی سیاست کو ایک واضح سمیت دے دیں۔ وہ مسلم لیگ کے لوگوں کو بتا دیں کہ ان کی سیاست اب کیا ہے؟ اگر مسلم لیگ نے شہباز شریف صاحب کو قائد مان کر چلنا ہے تو یہ اس پر واضح ہو۔ اب ظاہر ہے کہ جو قائد ہو، بیانیہ بھی اسی کا ہو۔اگر بیانیہ نوازشریف صاحب کا چلنا ہے تو پھر مسلم لیگ کو ایک نئی قیادت کے ساتھ ایک نئی حکمت عملی کی بھی ضرورت ہو گی۔
مجھے اندازہ ہے کہ سیاست میں معاملات دو اور دو چار کی طرح طے نہیں ہوتے۔حکمتِ عملی کے باب میں ایک سے زیادہ آرا ہو سکتی ہیں ۔تاہم منزل ایک ہونی چاہیے۔اگر منزل محض اقتدار ہے تو شہبازشریف صاحب کی قیادت کو مان لینا چاہیے۔اگر ملک کے سیاسی نظام میں کوئی جوہری تبدیلی مطلوب ہے تو پھر نوازشریف صاحب کا بیانیہ ہی واحد راستہ ہے۔اس راستے پر تصادم کے بغیر چلا جا سکتا ہے اگرعزیمت کو اختیار کیا جا ئے۔نوازشریف صاحب کے پاس چھ ہفتے ہیں۔اس میں ان کی صحت کے ساتھ سیاست کے معاملات بھی واضح ہو جا نے چاہئیں۔
نواز شریف صاحب کی سیاسی بقا بھی اب اسی بیانیے سے وابستہ ہے۔ نہ صرف ان کی بلکہ مریم نواز صاحبہ کی سیاست بھی اسی امتیاز کے ساتھ زندہ رہ سکتی ہے۔ ان کی خاموشی کا جواز ہے اگر یہ بیانیے کے ساتھ وابستگی کی علامت ہے۔ اگرانہیں کسی بہتر صورت حال کا انتظار ہے تو اسے گوارا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس دوران میں اہم سوال یہ ہو گا کہ ن لیگ کس بیانیے کے ساتھ کھڑی ہے؟