پہلے بت گری، پھر بت شکنی۔ کبھی افراد کا بت، کبھی نظاموں کا بت۔ ستر برس سے ایک کاروبار جاری ہے۔ آج ہمارے سامنے پتھروں کا ایک ڈھیر ہے۔ سنا ہے اب نئے بت تراشے جائیں گے۔ خسارے کی یہ تجارت آخر کب تک؟
مذہب، اخلاق اور صدیوں کا تعامل۔ کوئی چاہے تو انہیں چیلنج کر سکتا ہے۔ دنیا میں ملحد ہیں اور اباحیت پرست بھی۔ نئے تجربات کا شوق بھی انسان کی سرشت میں ہے۔ ایک بات البتہ ثابت ہے۔ چراغ وہی جلے ہیں جو روایت کے روغن سے روشن ہوئے۔ روایت جوہڑ نہیں، انسانی تجربات کا بہتا دریا ہے۔ خوبی اس کی یہ ہے کہ روایت ماضی اور حال کو ایک لڑی میں پرو دیتی ہے۔ سائنس بالخصوص طبیعات تو نام ہی نئے افق دریافت کرنے کا ہے۔ اس سفر میں لیکن نیوٹن، آئن سٹائن کو نظر انداز کر کے کوئی پیش قدمی ممکن نہیں۔
اجتماعی امور میں مذہب کی راہنمائی کیا ہے؟ صدیوں کا انسانی تعامل کیا ہے؟ یہ انفرادی بصیرت سے اجتماعی بصیرت کی طرف سفر ہے۔ ختمِ نبوت نے مذہب کے مقصود کو بیان کر دیا۔ امتِ مسلمہ سے مخاطب ہوتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں اعلان کر دیا کہ اب تم پیغمبر اور بنی آدم کے مابین واسطہ ہو! ''رسول تم پر گواہ ہیں اور تم انسانوں پر گواہ ہو‘‘۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اس نے آمریت سے جمہوریت کی طرف سفر کیا ہے۔ اب فیصلے فرد نہیں، افراد کرتے ہیں۔ افراد نہیں، اجتماعی رائے اب وقیع شمار ہوتی ہے۔
کوئی ذی شعور اس مقدمے سے اختلاف نہیں کر سکتا۔ ختمِ نبوت کے بعد، کسی فردِ واحد کو حجت نہیں مانا جا سکتا۔ غیر مذہبی روایت میں بھی اجتماعی رائے کو شخصی رائے پر برتری حاصل ہے۔ مسلم سماج لیکن ابھی تک ماضی کی گرفت میں ہے۔ اس کے تاریخ نویسوں اور نصاب سازوں نے ہیرو کا ایک تصور مستحکم کیا ہے۔ اقبال جیسا آدمی بھی اپنی صفوں میں کسی غزنوی کو تلاش کرتا ہے۔ غیر مسلم معاشروں، بالخصوص یورپ کی تاریخ بھی یہی ہے۔ وہاں کا ادب بھی بادشاہوں ہی کی کہانیاں سناتا ہے؛ تاہم یورپ سماجی تبدیلی کے ایک عمل سے گزرا ہے۔ اس نے تاریخ اور تصورِ تاریخ میں فرق کو سمجھ لیا ہے۔ اب بادشاہوں کی داستانیں محض تاریخ ہیں، دورِ حاضر کے لیے کوئی قابلِ تقلید مثال نہیں۔ اس کی وجہ علمی ارتقا ہے۔
یہاں کا مسلم سماج کسی علمی ارتقا سے نہیں گزرا۔ ایسے معاشرے اپنی سلامتی اور تحفظ کے لیے ماضی کی داستانوں میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ یہ ایک عارضی حل تو ہو سکتا ہے، مستقل نہیں۔ انگریزوں کے دور میں اس کی ایک افادیت تھی۔ ایک شکست خوردہ قوم میں تابناک ماضی کی داستانیں زندگی کی حرارت پیدا کرتی ہیں۔ ہمارے علما نے یہ کام کیا اور سب سے زیادہ اقبال نے۔ علما اور اقبال نے امید کے چراغ کو بجھنے نہ دیا؛ تاہم اقبال نے یہ بھی واضح کر دیا کہ نئے دور کی تعمیر افکارِ تازہ سے ہوتی ہے۔ ماضی سے حال کی طرف سفر ناگزیر ہے اور اس کے لیے زادِ راہ اپنے دور کی تفہیم ہے۔ اقبال نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی واحد ریاست کے تصور کو رد کر دیا اور جدید قومی ریاستوں کو قبول کیا۔
مسلم دنیا مگر آج بھی کسی فردِ واحد کی تلاش میں ہے۔ ہم کہنے کو جمہوری ہیں لیکن بدستور اس خواب میں جیتے ہیں کہ کوئی مسیحا آئے گا اور سب کچھ بدل دے گا۔ اس کے ساتھ ہم جانتے ہیں کہ دورِ حاضر کی دانش اس خیال کو مسترد کر چکی۔ ہم بجائے اس کا اعتراف کرنے کے، جمہوریت میں آمریت تلاش کرتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ صدارتی نظام ہمارے اس مخمصے کا حل ہے۔
مقدمہ یہ ہے کہ عمران خان صاحب تو بہت اچھے ہیں، ان کے ساتھی اچھے نہیں۔ اگر کسی طریقے سے خان صاحب ان خواتین و حضرات کی گرفت سے نکل سکیں تو دورِ حاضرکے صلاح الدین ایوبی یا ٹیپو سلطان ہیں (اس جملے میں آپ 'حسبِ ذائقہ‘ ہیرو کا نام شامل کر سکتے ہیں)۔ یہ ساتھی اس پارلیمانی نظام کی د ین ہیں۔ ان سے نجات کی صورت پارلیمانی نظام سے نجات ہے۔ اگر عمران خان یا ان جیسا کوئی نیک اور دیانت دار ہو، جس کی ذات میں اختیارات کا ارتکاز ہو سکے تو ہم اپنی عظمتِ رفتہ کو آواز دے سکتے ہیں۔
صدارتی نظام اس خیال سے قریب تر دکھائی دیتا ہے۔ اس کا ایک لوکل ایڈیشن بھی تیار کیا جا سکتا ہے۔ اس میں آمریت کو شامل کرنے کے لیے ان لوگوں کے فہمِ دین سے استفادہ کیا جا سکتا ہے جو جمہوریت کو کفر کہتے اور خلافت کے احیا کی بات کرتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں خلافت اور جمہوریت کا ایک ملغوبہ۔ بعض لوگوں نے ابھی سے اس 'اسلامی صدارتی نظام‘ کے لیے فضا ہموار کرنا شروع کر دی ہے۔ صدارتی نظام کے ساتھ 'اسلامی‘ کا سابقہ بتا رہا ہے کہ اس کام کے لیے اسلام سے بھی استفادہ کیا جائے گا۔
یہ کیسے ممکن ہو گا؟ اس سوال کا کوئی جواب میرے پاس نہیں۔ اس خواب کی تعبیر کے راستے میں آئین اور پارلیمان دونوں حائل ہیں۔ یہ رکاوٹیں کیسے دور ہوں گی؟ اس سوال کا کوئی منطقی جواب ممکن نہیں لیکن تاریخی ہے۔ اگر پاکستان میں کوئی آئین اور پارلیمان مارشل لا کے راستے میں حائل نہ ہو سکے تو صدارتی نظام کے راستے کی رکاوٹ کیسے بن سکیں گے؟ اب اس دلیل کا جواب کسی کے پاس ہے تو وہ ہاتھ کھڑا کرے؟
کیا آج ہم سب کو ہاتھ کھڑے دینا چاہئیں یا جمہوریت پر اصرار کرنا چاہیے؟ یہ کہا جا سکتا ہے کہ صدارتی نظام بھی تو جمہوری ہے۔ اس سے اتفاق یا عدم اتفاق اسی وقت ممکن ہو گا جب اس کے خد و خال سامنے آئیں گے۔ کہتے ہیں کہ اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی اس کام کے لیے ٹیکسال کا کردار ادا کر رہی ہے۔ آخر 'پیغامِ پاکستان‘ بھی بظاہر ایسے ہی ایک ٹیکسال میں ڈھلا تھا۔
سوال یہ ہے کہ یہ ٹیکسال پارلیمنٹ کیوں نہیں؟ یہ عوامی فورمز کیوں نہیں؟ یہ موقع ہم اجتماعی دانش کو کیوں نہیں دینا چاہتے ہیں کہ وہ سیاسی نظام کے باب میں قومی امنگوں کو متشکل کرے؟ ہم کیوں خیال کرتے ہیں کہ ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کا دفاع، قومی مفاد کی تعریف اور قومی بیانیے کی تشکیل کے ساتھ اب 'اسلامی صدارتی نظام‘ کی بحث عوامی فورمز پر نہیں ہونی چاہیے؟ ہم سارا بوجھ ایک ہی کندھے پر کیوں ڈالنا چاہتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام اپنی روح کے ساتھ کبھی نافذ ہی نہیں ہو سکا۔ اگر پارلیمنٹ خود مختار اور بالا دست نہیں تو نظام کی ناکامی کا ذمہ دار پارلیمنٹ کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ گزشتہ دس سالوں میں ہم نے جن غلط فیصلوں کے نتائج بھگتے، ان میں سے کتنے ہیں جو پارلیمنٹ میں ہوئے؟ آج جن اسباب سے ہمیں عالمی دباؤ کا سامنا ہے، ان کا کتنا تعلق پارلیمنٹ کے ساتھ ہے؟
اگر آج ایک بت سے کسی کی توقعات پوری نہیں ہوئیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی نیا بت تراش لیا جائے۔ کیا بہتر نہیں کہ بت گری کے اس کارِ عبث ہی سے رجوع کر لیا جائے؟ افراد اور نظاموں کے نئے بت تراشنے کے بجائے مذہب، اخلاق اور صدیوں کے تعامل سے فائدہ اٹھایا جائے؟ میرا احساس ہے کہ بتوں سے امیدیں وابستہ کرنے کے بجائے، اس نظام کو کام کرنے دیا جائے اور اسے اپنی غلطیوں کی اصلاح کا موقع دیا جائے۔
عمران خان صاحب کو بھی متبادل تلاش کرنے کے بجائے، اس نظام میں جان ڈالنی چاہیے۔ انہیں اپنی ذات پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ یہاں بھی وہ کرکٹ کے تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ سفارش سے آپ کپتان تو بن سکتے ہیں مگر رہ نہیں سکتے۔ اس کے لیے اپنی قوتِ بازو پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ انہیں پارلیمانی جمہوریت کے تقاضے سمجھنا ہوں گے۔ یہ اختلافِ رائے کے احترام اور دوسروں کے وجود کو قبول کرنے کا نام ہے۔ اگر وہ بت گری کے اس کاروبار کا مزید حصہ رہیں گے تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ بتوں کی تعداد کبھی متعین نہیں ہوتی۔ یہ کمال صرف توحید کا ہے کہ گنتی کبھی ایک سے آگے نہیں بڑھتی۔