مفتی منیب الرحمن صاحب کے قضیے میں حکومت نے جو طرزِ عمل اختیار کیا، واقعہ یہ ہے کہ میکیاولی ہوتا تو اِن خواتین و حضرات کے دستِ مبارک پر بیعت کر لیتا۔ 'دی پرنس‘ کا نیا ایڈیشن ترتیب دیتا اور اس کا انتساب حکمرانوں کے نام کرتا۔
تاریخ میں پہلی بار، ایک معاملے میں اربابِ اقتدار کے تین موقف سامنے آئے۔ ایک موقف فواد چوہدری صاحب کا تھا۔ انہوں نے سائنس کی رو سے کئی روز پہلے عید کا اعلان کر دیا۔ ایک وفاقی وزیر جب کوئی پالیسی بیان جاری کرتا ہے اور اس کی تردید نہیں ہوتی تو یہ مسلمہ ضابطہ ہے کہ اسے سرکاری موقف سمجھا جاتا ہے۔ فواد صاحب کی جو بات حکومتی نقطہ نظر کے خلاف تھی، اس کا رد کیا گیا، سوائے اس بیان کے جو رویتِ ہلال کے باب میں تھا۔
دوسرا موقف وہ تھا جو کے پی کی حکومت نے اپنایا۔ صوبے کے وزیر اطلاعات نے اعلانیہ یہ کہا کہ انہوں نے عمران خان صاحب سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔ تیسرا حکومتی موقف وہ تھا جو رویتِ ہلال کمیٹی کے توسط سے سامنے آیا۔ اس کمیٹی کے اجلاس کا اہتمام وزارتِ مذہبی امور نے کیا تھا اور یہ تمام تر کارروائی حکومتی نظم کے تحت ہوئی۔
اس دوران میں مفتی منیب صاحب کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ دانستہ ایسی فضا پیدا کی گئی کہ وہ مستعفی ہو جائیں۔ کبھی کہا گیا کہ یہ تو سال میں ایک بار رونمائی کراتے ہیں۔ کبھی کہا گیا کہ بہت خدمت کر لی، اب کمیٹی سے الگ ہو جائیں۔ فواد چوہدری صاحب تو خیر اس فن کے امامِ وقت ہیں۔ انہوں نے مفتی صاحب کے بارے میں جو لب و لہجہ اختیار کیے رکھا، وہ اس سے مختلف نہیں تھا جو وہ سیاسی مخالفین کے لیے اپناتے ہیں۔ اس تمام تر سرگرمی میں ایک ربط ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ سب ایک مرکزِ ہدایت سے وابستہ تھے اور وہیں سے روشنی پا رہے تھے۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو کسی ایک ہی کو روک دیا جاتا۔ اس لیے میں یہ رائے قائم کرنے پر مجبور ہوں کہ یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں، ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی تھی۔ مقصود یہ تھا کہ وہ خود مستعفی ہو جائیں اورحکومت انہیں ہٹانے کی ذمہ داری سے بچ جائے۔ حکومت یہ ذمہ داری اس لیے نہیں اٹھانا چاہتی کہ اس معاملے کا ایک پہلو مسلکی بھی ہے۔ مفتی صاحب کو ہٹانے کا مطلب ایک خاص مسلک کی مخالفت مول لینا ہو سکتا ہے۔
مفتی منیب الرحمن صاحب کی اِس وقت دو حیثیتیں ہیں۔ ایک انفرادی اور ایک سرکاری۔ انفرادی حیثیت میں ان کا ایک موقف ہے جس میں وہ منفرد نہیں۔ اس پر بحث کی جا سکتی ہے اور اختلاف کی جسارت بھی۔ بہت سے اہلِ علم ان کی رائے کے بر خلاف رائے دے رہے ہیں‘ اور اپنا مقدمہ شائستگی کے ساتھ سامنے لا رہے ہیں۔ مفتی صاحب بھی اپنا موقف شرح و وضاحت کے بیان کر چکے۔ یہ ایک علمی اختلاف اور سرگرمی ہے جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ اختلاف کی اس روایت نے ہمارے علمی ذخیرے کو وسعت دی ہے۔
مفتی صاحب کی دوسری حیثیت سرکاری ہے۔ حکومت نے ایک خاص مقصد، رویتِ ہلال کے لیے ایک کمیٹی بنائی۔ اس کی سربراہی انہیںسونپی گئی۔ اس کے فورم سے وہ اپنی ذاتی رائے کا نہیں، کمیٹی کے موقف کا اعلان کرتے ہیں۔ ہر اعلان کے وقت کمیٹی کے ارکان ان کے ساتھ ہوتے ہیں اور وہ ان کی ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں۔ مفتی پوپلزئی صاحب کے موقف کو مفتی صاحب نے اپنی انفرادی حیثیت میں رد نہیں کیا۔ دراصل یہ کمیٹی ہے جو ان کے موقف کو قبول نہیں کرتی۔ میں نہیں جان سکا کہ اس پر مفتی صاحب کو منفرد مان کر ان پر تنقید کا کیا جواز ہے؟ کے پی کے وزیر اطلاعات نے مفتی صاحب کے بارے میں جو کچھ کہا، اس کا مخاطب مفتی صاحب نہیں کمیٹی کو ہونا چاہیے۔
اس قضیے میں حکومت کے پاس دو راستے تھے۔ وہ حسبِ روایت کمیٹی کے فیصلے کی توثیق کرتی اور تمام صوبائی حکومتیں بھی اسے قبول کرتیں۔ اگر کوئی اس سے مختلف رائے رکھتا تو ایسے فرد یا گروہ کو اس کے حال پر چھوڑ دیتی۔ نظمِ اجتماعی کے فیصلوں کو قبول کرنا ایک شہری کے لیے لازمی ہے؛ تاہم یہ فیصلہ کرنا حکومت کا کام ہے کہ ایسے فرد یا گروہ کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے‘ جو کسی اجتماعی فیصلے سے انحراف کرتا ہے۔ حکومت سخت قدم اٹھا سکتی ہے اور نظر انداز بھی کر سکتی ہے۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ کمیٹی کو ختم کر کے، چاند کی رویت کے معاملے کو وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے کر دیا جاتا۔ اب لگتا ہے کہ حکومت نے مفتی صاحب یا فواد چوہدری کے بجائے میکیاولی کو اپنا امام بنا لیا۔
سیاست کی بد قسمتی یہ ہے کہ اس میں ہر معاملے کو سیاسی سود و زیاں کے پیمانے سے ناپا جاتا ہے۔ اخلاقیات کا پیمانہ یہاں موثر نہیں۔ اگر اخلاقیات کے باب میں تساہل کے ساتھ نا اہلی بھی ہو تو پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو آج ہو رہا ہے۔ حکومت کی تہمت باقی رہتی ہے، اختیار سلب ہو جاتا ہے۔ میں تو یہ نہیں جان سکا کہ حکومت کو اس طرزِ عمل سے کیا ملا؟ کیا کے پی حکومت نے مفتی پوپلزئی کا ساتھ دے کر صوبے میں مولانا فضل الرحمن کا توڑ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ ساری مشق گناہِ بے لذت کے سوا کچھ نہیں تھی۔
کچھ لوگ کہتے ہیں‘ یہ ملک کے حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش تھی۔ سیاست حکومت کی گرفت میں آ رہی ہے نہ معیشت۔ اگر یہ بات درست ہے تو عید کے بعد یہ مہلت بھی تمام ہوئی۔ اب مہنگائی ہے اور عوام۔ پارٹی کے اختلافات ہیں اور سیاسی چیلنج۔ بجٹ آنے والا ہے اور عوام کا غصہ پہلے ہی حدوں کو چھو رہا ہے۔ ان مسائل سے فرار میں رویتِ ہلال کا معاملہ تو اب کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ تو کیا اب کوئی نیا چاند چڑھایا جا ئے گا؟
مفتی منیب الرحمن صاحب بھی ردِ عمل کا شکار ہوئے۔ اگر وہ اپنی بات رویتِ ہلال کے معاملے تک محدود رکھتے تو یہ رویہ علمی وقار سے قریب تر ہوتا۔ علما کے بارے میں عام آدمی یہ خیال کرتا ہے کہ وہ سیاست دانوں سے مختلف ہیں۔ بہتر تو یہی تھا کہ وہ اس منصب سے استعفیٰ دے دیتے۔ مفتی صاحب کے پاس ممکن ہے مستعفی نہ ہونے کے دلائل ہوں‘ لیکن ان کے استعفیٰ دینے سے علما کے عمومی وقار میں اضافہ ہوتا۔
یہ معاملہ سرِ دست تو قصہ پارینہ ہوا لیکن اگلے سال، شعبان میں پھر منصۂ شہود پر آ جائے گا۔ حکومت کے پاس دس گیارہ ماہ ہیں۔ اسے چاہیے کہ اس معاملے کو اب ہمیشہ کے لیے حل کرنے کی کوشش کرے۔ وہ اسے سیاسی نظر کے بجائے، انتظامی آنکھ سے دیکھے۔ جن معاملات میں مذہب کا عمل دخل ہو ان پر سیاست کرنے سے گریز کیا جانا چاہیے۔ میں اس مشورے کو دھراؤں گا کہ اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت کے بعد، اس معاملے کو پارلیمان کے سامنے رکھا جائے اور اس کے فیصلے کو سب قبول کر لیں۔
مذہبی طبقات اور علما کو بھی سنجیدگی سے سمجھنا ہو گا کہ دنیا کا ہر معاملہ مذہبی نہیں ہوتا۔ جب مذہب کو ان معاملات میں بھی فرق بنا دیا جاتا ہے‘ جو غیر مذہبی ہیں تو اس سے مذہب غیر ضروری طور پر متنازعہ بن جاتا ہے۔ یہ سائنس کا حریف ہے نہ سیاست کا۔ اسے سائنس کا مخالف بنا کر پیش کرنا مذہب کی کوئی خدمت نہیں۔ یہ مذہب کا کوئی تقاضا نہیں کہ سائنس کو جوتے کی نوک پر رکھا جائے۔ اس طرح کے اسالیبِ کلام مذہب کے مقدمے کو کمزور کرتے ہیں۔
مذہب انسان کے اخلاقی وجود کا تزکیہ کرتا ہے۔ اس لیے اگر اس کا کوئی حریف ہو سکتا ہے تو وہ بد اخلاقی ہے۔ اباحیت پسندی کے علاوہ دنیا کا کوئی علمی و فکری ڈھانچہ ایسا نہیں جو جوہری طور پر مذہب کا حریف ہو۔ نہ فلسفہ نہ سائنس۔ مغرب میں اہلِ کلیسا اگر مذہب کو زمین کی حرکت سے متعلق نہ کرتے تو وہاں مذہب کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ ہمارے علما کو کوئی رائے قائم کرتے وقت، اس پہلو سے صرفِ نظر نہیں کرنا چاہیے۔