اس جسدِ خاکی میں کچھ تو ایسا ہے جو اسے ماہ و سال سے اٹھاتا اور تاریخ کا ان مٹ باب بنا دیتا ہے۔
بچپن میں ایک کتاب پڑھی تھی ''سو بڑے آدمی‘‘۔ بہت بعد میں معلوم ہوا کہ یہ ایک انگریزی کتاب کا ترجمہ ہے۔ پھر اس موضو ع پر اور کئی کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اب تو ہر سال، رسائل و جرائد ایسے افراد کی فہرست جاری کرتے ہیں جنہوں نے ان کے خیال میں انسانی معاشرے کو بڑی سطح پر متاثر کیا۔ یہ رجحان اتنا مقبول ہوا کہ جعل سازوں نے بھی اس طرف کا رخ کر لیا۔ آپ سو دو سو ڈالر دیں‘ اور دنیا کے کسی کونے میں چھپنے والے چیتھڑے کی سو سب سے با اثر شخصیات میں شامل ہو جائیں۔ پھر خود ہی اس جریدے کی فوٹو کاپی احباب میں بانٹتے پھریں۔
تاریخ میں زندہ رہنے کے لیے کسی رسالے کی ایسی فہرست میں شامل ہونا ضروری نہیں۔ تاریخ ساز لوگ ہوتے ہی وہ ہیں جو اس طرز کے مشاغل سے دور رہتے ہیں۔ ان کو اپنے کام کی دُھن ہوتی ہے۔ وہ کوئی ایسا کارنامہ کر جاتے ہیں کہ اکثر، ان کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد، لوگ ان کی عظمت کو پہچان پاتے ہیں۔ مولانا مودودی نے ایک بار لکھا کہ مہدویت دعوے کی چیز نہیں، کچھ کر کے دکھانے کا نام ہے‘ تو لوگ فتووں کا ہتھیار لیے ان پر چڑھ دوڑے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیا معلوم کوئی کارِ تجدید کر کے دنیا سے رخصت ہو جائے اور بعد والوں پر اس کے کام سے منکشف ہو کہ وہ تو مجدد تھا۔
'سو بڑے آدمی‘ جیسی کتابوں میں افراد کا انتخاب سو فیصد ذوقی معاملہ ہے؛ تاہم بعض لوگوں کا کام اتنا وقیع ہوتا ہے کہ کوئی بھی اس طرح کی فہرست بنائے تو ان کے ناموں سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔ اس کتاب کے مصنف نے مسلمان نہ ہوتے ہوئے بھی، سیدنا محمدﷺ کے نام کو تاریخ ساز شخصیات میں سرِ فہرست رکھا۔ سیدنا عمرؓ بھی سو بڑے افراد میں شامل ہیں۔ نیوٹن اور آئن سٹائن وغیرہ کا نام فہرست میں بعد میں آتا ہے۔
اس طرح کی فہارس میں فلسفی، سائنس دان، موجد، سب شامل ہوتے ہیں۔ معیار ایک ہی ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنے کام کی وجہ سے اپنے عہد سے بلند ہو جاتے ہیں۔ موت ان سے شکست کھا جاتی ہے۔ انسانیت عہد بہ عہد ان کے علم یا ایجاد سے استفادہ کرتی اور زبانِ حال سے ان کی شکر گزار رہتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ ان سے اختلاف کریں مگر ان کو نظر انداز کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ کوئی اسلام کو مانے نہ مانے، سیدنا محمدﷺ کی تاریخ ساز حیثیت سے کیسے صرفِ نظر کر سکتا ہے؟ کوئی سائنس کا جتنا بھی منکر ہو جائے، نیوٹن یا آئن سٹائن کا انکار نہیں کر سکتا۔
ہر آدمی صلاحیت اور افتادِ طبع کے اعتبار سے ایک حد میں رہنے پر مجبور ہے؛ تاہم میرا احساس ہے کہ ہر آدمی کی زندگی میں ایک وقت آتا ہے جب اس نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ ماہ و سال کے دائرے میں قید رہے یا اس سے آزاد ہو جائے۔ ایک عام مسلمان جب دنیا کے سود و زیاں سے بے نیاز ہو کر احکامِ الٰہی کی پابندی کرتا ہے تو یہ اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب وہ ماہ و سال کی تقویم سے بلند ہو جاتا ہے۔ اب اس کا زمانہ بعد از مرگ عہد کو محیط ہے۔ اس دنیا میں ممکن ہے کہ بھلا دیا جائے لیکن یہ ممکن نہیں کہ روزِ حشر جب اجر بانٹا جائے گا تو وہ اپنے رب کی نگاہوں سے اوجھل رہے۔
جن کا ذہنی کینوس وسیع ہوتا ہے یا جو کسی سبب سے بڑے فیصلے کر سکتے ہیں، وہ بڑے پیمانے پر معاشرے یا معاشروں کو متاثر کرتے ہیں۔ پیغمبر تو تاریخ سے اوپر اٹھ جاتے ہیں کہ اخروی زندگی میں، ان سے نسبت ہی نجات کی ضمانت ہو گی۔ جہاں تک اس دنیا کا معاملہ ہے تو کچھ لوگ وہ ہیں جو ایک ملک کو متاثر کرتے ہیں اور کچھ ایک دنیا کو۔ کچھ دو سال یا دس سال اور کچھ صدیوں تک زندہ رہتے ہیں۔ تاریخ پر ہر کوئی اپنی ہمت کے مطابق نقش چھوڑتا ہے۔
پاکستان کی سیاست کو آج ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ماہ و سال سے بلند ہو کر سوچ سکیں۔ جو اقتدار کو اپنی منزل نہ سمجھیں۔ جو اپنے عہد کے بجائے، تاریخ میں زندہ رہنے کا فیصلہ کریں۔ وہ پاکستان کی ریاست کو درپیش جوہری مسائل کو اپنا مخاطب بنائیں اور ان کے حل کی جدوجہد کریں۔ جو اس پر آمادہ ہوں کہ اس راہ میں آنے والی مشکلات کو برداشت کریں گے لیکن کسی اصول پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔
تاریخ یہ ہے کہ سیاست کا دامن ایسے لوگوں سے خالی رہتا ہے۔ اکثریت کی منزلِ مراد اقتدار ہی ہوتی ہے، جیسے بھی مل جا ئے۔ مدتوں بعد کوئی آبلہ پا اس وادیٔ پُر خار میں قدم رکھتا ہے۔ ایسے لوگوں کا مقدر سجن کی تنہائیاں ہوتی ہیں یا دار کی سربلندیاں۔ چند صاحبانِ عزیمت ہی اس راہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ وہ بظاہر خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں لیکن ان کی رخصتی ایک نئے عہد کی نوید ہوتی ہے۔
جو ہم پہ گزری، سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
کیا نواز شریف یہ بھاری پتھر اٹھا سکتے ہیں؟ کیا ڈیل کی باتیں جھوٹی ہیں؟ کیا انہوں نے راہِ عزیمت کا انتخاب کر لیا ہے؟ کیا وہ تاریخ میں زندہ رہنے کا فیصلہ کر چکے؟ آج ہماری سیاست کا سب سے بڑا اور اہم سوال یہی ہے؟ اس کے جواب میں ایک نئے دور کی نوید پوشیدہ ہے۔ امید کا کوئی چراغ، اگر کہیں روشن ہے تو وہ نواز شریف کے فیصلے میں ہے۔ اگر یہاں نہیں ہے تو پھر یہ طے ہے کہ کہیں نہیں ہے۔
میں جب یہ بات کہتا ہوں تو کچھ لوگ جھنجھلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں کہ کیسی غیر حقیقی امید ہے۔ نواز شریف اور عزیمت؟ حسبِ تربیت، لوگ ردِ عمل کا اظہار کرتے ہیں۔ کوئی گالی دیتا ہے اور کوئی میری بصیرت کا ماتم کرتا ہے۔ دونوں کی دلیل ماضی کی سیاست ہے۔ ایک سرمایہ دار گھرانے کے فرد میں یہ جذبہ اور حوصلہ کہاں کہ روپے پیسے کے علاوہ کچھ سوچ سکے۔ ایک تن آسان آدمی جو اقتدار کی سیاست کرتا رہا ہے اور بعض کے خیال میں کرپشن میں لتھڑا ہے، عزیمت کا راستہ اختیار نہیں کر سکتا۔
نواز شریف صاحب کا ماضی میری نظروں سے اوجھل نہیں لیکن معترضین کی نظروں سے اُن کا حال ضرور اوجھل ہے اور شاید ماضی کا ایک حصہ بھی۔ پھر کچھ مفروضے ہیں اور کچھ پوسٹ ٹروتھ۔ اس کے ساتھ انسان میں چھپے امکانات سے لا علمی۔ کیا معلوم کون کس وقت بدل جائے؟ کوئی واقعہ اس کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دے؟ میری پُرامیدی ان عوامل کے تجزیے میں چھپی ہے۔
اگست کے 'قومی ڈائجسٹ‘ میں جاوید ہاشمی صاحب کا ایک انٹر ویو شائع ہوا۔ ہاشمی صاحب کی بہادری ضرب المثل ہے۔ وہ اگر اپنے علاوہ کسی کی بہادری کا ذکر کرتے ہیں تو وہ نواز شریف ہیں۔ ان کا تجربہ یہ ہے کہ خوف نواز شریف سے دور رہتا ہے۔ ان کے بقول یہی بات انہوں نے عمران خان کو بھی بتائی تھی جب وہ دھرنے کے دنوں میں نواز شریف کے بھاگنے کی امید کیے بیٹھے تھے۔ ہاشمی صاحب کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ان پر گولی چلی ''گولی چلنے کے بعد، میاں صاحب کہنے لگے: یار! مچھلی تالاب والی بہتر ہوتی ہے یا دریا والی؟‘‘
ممکن ہے کہ میرا اندازہ غلط ہو کہ انسانوں کے دلوں کا حال خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ انسان کمزور بھی بہت ہے۔ بالخصوص اولاد تو اس کے لیے بہت بڑی آزمائش ہے۔ دولت، اقتدار، اولاد، کم ہی ہیں جو ان جالوں سے سلامت نکل پاتے ہیں؛ تاہم اس باب میں مجھے شرحِ صدر ہے کہ اگر نواز شریف صاحب نے عزیمت کے راستے کا انتخاب نہ کیا تو پھر مروجہ سیاسی بندوبست میں کسی تبدیلی کا خواب آنکھوں سے نوچ پھینکنا چاہیے۔
پاکستان کو بدلنا ہے تو ہماری سیاست میں کوئی ایک ایسا فرد ضرور ہونا چاہیے جو ماہ و سال سے بلند ہو سکے۔ اس جسدِ خاکی میں خالق نے یہ صلاحیت تو رکھی ہے کہ وہ اس تقویم سے اٹھ جائے۔ کیا نواز شریف...؟