مولانا فضل الرحمن کے موقف سے پوری طرح متفق ہونے کے باوجود‘ میرے لیے ان کی حکمتِ عملی سے پوری طرح اتفاق کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
مولانا کا موقف دو اہم نکات پر مشتمل ہے۔ایک یہ کہ 2018 ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔ان کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی کوئی اخلاقی بنیادنہیں ہے۔ وہ اسے قبول نہیں کرتے۔اس لیے وزیراعظم استعفیٰ دیں۔دوسرایہ کہ ریاستی اداروں کو حکومت سازی اور سیاسی عمل سے دور رہنا چاہیے کہ وہ قوم کا مشترکہ اثاثہ اور سیاسی تقسیم سے ماورا احترام کے مستحق ہیں۔ جب یہ ادارے کسی ایک سیاسی جماعت یا شخصیت کی سرپرستی کرتے ہیں تو پھر وہ متنازعہ ہو جاتے ہیں اور یہ بات کسی ملک کے استحکام کے لیے زہرِ قاتل ہے۔
ان کی سیاسی حکمتِ عملی کے بھی دو نکات ہیں۔ایک یہ کہ وہ اس سیاسی بندوبست کے خلاف احتجاج اور اس کے لیے ملک گیر مارچ کا حق رکھتے ہیں تاکہ عوام کو اپنے موقف کے حق میں متحرک کر سکیں۔دوسرا یہ کہ وہ حق رکھتے ہیں کہ وزیراعظم کو استعفے کے لیے دو دن کا نوٹس دیں۔اگر وہ استعفیٰ نہیں دیتے تو پھر عوام کا ہجوم انہیں گھر سے گرفتار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مجھے مولانا کے موقف سے پورا اتفاق ہے۔کوئی محب ِ وطن آدمی نہیں چاہے گا کہ ریاستی ادارے متنازعہ بنیں۔عوام میں سیاسی و مسلکی بنیادوں پر اختلاف ہو تا ہے جو فطری ہے۔اسی کے نتیجے میں مذہبی مسالک اور سیاسی جماعتیں وجود میں آتی ہیں۔فوج یا عدلیہ جیسے ریاستی ادارے ایک شعوری کوشش کرتے ہیں کہ اس تقسیم سے بلند رہیں۔کسی کو شائبہ تک نہ ہو کہ وہ کسی مسلک یا سیاسی جماعت کے خلاف ہیں۔مولانا اگر یہی بات کہتے ہیں تویہ پوری قوم کی آواز ہے۔
2018ء کے انتخابات کے باب میں بھی مولانا قوم کے ایک بڑے حصے بلکہ اکثریت کی ترجمانی کر رہے ہیں۔تما م بڑی سیاسی جماعتیں یہی موقف رکھتی ہیں اور مولاناکے کنٹینر پر کھڑاہوکر‘ان کی قیادت نے اس رائے کا ایک بار پھر دو ٹوک انداز میں اظہار کر دیا ہے۔خان صاحب کا استعفیٰ‘ تنہا مو لانا کا نہیں‘ان سب جماعتوں کا مطالبہ ہے۔
رہی حکمت ِ عملی تو اس کے پہلے نکتے سے حکومت سمیت پوری قوم کو اتفاق ہے۔ا حتجاج ہر جماعت کا حق ہے اور وہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر اس حق کا اظہار کر سکتی ہے۔جب حکومت نے ا س کی اجازت دی اور عدالتِ عالیہ نے اس حق ِ احتجاج پر قانون کی مہر لگا دی تو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔جہاں تک اس حکمتِ عملی کے دوسرے نکتے کا تعلق ہے تواس پر اختلاف کااعلانیہ اظہار ہو رہاہے۔
یہ نکتہ تادمِ ِتحریر‘ابہام کے پردوں میں لپٹا ہوا ہے۔اس پرمولانا کو ابھی اپنے مو قف کا اعلان کرناہے۔اس لیے اسے موضوع بنانا قبل از وقت ہو گا۔مولانا جب واضح طور پر کوئی موقف پیش کریں گے تو اس کے بعد ہی اس پر کوئی رائے ظاہر کی جا سکتی ہے‘تاہم جتنا اور جو کچھ کہا گیا‘اس سے جو کچھ اخذہو تا ہے‘ اس سے اتفاق مشکل ہے۔
مولانا کا یہ کہنا ہے کہ عوام اس کی قدرت رکھتے ہیں کہ وزیراعظم کو ا ن کے گھر سے گرفتار کر لیں‘ایک ایسی بات ہے جس کی تائید نہیں کی جا سکتی ‘اگر کوئی اسے امرِ واقعہ بنانے کی کوشش کرے گا۔عوام کے حقوق بھی قانون اور ضابطے کے تابع ہیں۔کوئی حق مطلق اورغیر مشروط نہیں ہو تا۔اگر کہیں ایک یا دو لاکھ افراد جمع ہو جا ئیں تو انہیں یہ حق حاصل نہیں ہو جا تا کہ وہ جس گھر میں چاہیں ‘گھس جا ئیں۔مولانا جیسی ذمہ دار شخصیت سے میں تو یہی توقع کروں گا کہ اگر عوام ایسا چاہیں بھی تو وہ اس کی مزاحمت کریں۔
مولانا فضل الرحمن نے اپنے موقف کے حق میں جو دینی استدلال پیش کیا ہے‘وہ بھی محلِ نظر ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جب وہ حکومت کے خاتمے کی بات کرتے ہیں تو اسے خروج نہیں کہا جا سکتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اس کی بیعت ہی نہیں کی۔جب بیعت نہیں توپھر خروج کیسا؟مولانا کی یہ بات محض ایک مغالطہ ہے۔بیعت نہ کرنے سے خروج کا حق ثابت نہیں ہو تا۔
مو جودہ حکومت کی ا خلاقی بنیادوں کو چیلنج کر نے کے باوجود‘ اکثریت نے اس کو بالفعل(defecto) حکومت کے طور پرقبول کر لیا ہے۔بادلِ نخواستہ ہی سہی‘نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے اس سیاسی بندوبست کوتسلیم کیا ہے۔انہوں نے پارلیمنٹ کی رکنیت کو اختیار کیاہے۔شہبازشریف صاحب بحیثیت قائدحزب ِ اختلاف اس سیاسی بندوبست کا حصہ ہیں۔اگر کسی اجتماعی نظم کو عوام کی اکثریت بالفعل قبول کر لے تواس کے خلاف کسی اقلیتی گروہ کا حقِِ بغات ثابت نہیں ہو تا‘ باوجود اس کے کہ اس نے اسے قبول نہ کیا ہو۔
ماضی میں جن انتہا پسند گروہوں نے ریاست کے خلاف بغاوت کی‘ان کا استدلال بھی یہی تھا کہ وہ اس نظام کو بنیاد ہی سے قبول نہیں کرتے۔ان کے اس موقف کو مولانا فضل الرحمٰن سمیت کسی نے قبول نہیںکیا۔اگر اسے مان لیاجا ئے تو پھر دنیا میں کوئی حکومت قائم نہیں رہ سکتی کیونکہ سو فی صداعتماد تو کسی حکومت کو حاصل نہیں ہوتا۔اس صورت میں ہرگروہ اس استدلال کی بنا پر حکومت کے خلاف بغاوت کر دے گا کہ اس سے چونکہ اسے قبول ہی نہیں کیا‘لہٰذا اس کے لیے بغاوت جائز ہے۔
احتجاج مولاناسمیت سب جماعتوں کا حق ہے‘لیکن اسے قانون اخلاق‘روایت اورآئین کے دائرے ہی میں رہنا چا ہیے۔مولانا نے اس مہم جوئی میں ایک بنیادی غلطی یہ کی کہ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے مشورے کے برعکس تنہا آزادی مارچ کا فیصلہ کیا اور پھر اصرار کیا کہ دوسرے ان کا ساتھ دیں۔ایک مرتبہ پھروہ یہی چاہ رہے ہیں اور دوسری جماعتیں اس دفعہ بھی کسی دھرنے کے حق میں نہیں ہیں۔
اپوزیشن احتجاج کا حق رکھتی ہے۔اس کا امتحان یہ ہے کہ قانون اور آئین کے دائرے میں رہ کر‘وہ کس طرح اپنا مقصد حاصل کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پراپویشن اجتماعی استعفے دے سکتی ہے۔جب اتنی بڑی تعداد میں لوگ استعفیٰ دیں گے توپھر ا س سیاسی بندوبست کا اخلاقی جواز ختم ہو جا ئے گا۔اس کے بعد اگر اسے چلانے پر اصرار ہو گا تواسے عوامی سند حاصل نہیں رہے گی۔استعفیٰ اکثریت کا اس سیاسی بندو بست پر عدم اعتماد ہو گا۔
اس کے علاوہ بھی احتجاج کی صورتیں تلاش کی جا سکتی ہیں جوآئین اور قانون کے دائرے میں ہوں۔اس سیاسی رویے کی کسی طرح حوصلہ افزائی نہیں ہو نی چاہیے جس میںفیصلے کا اختیار‘ بے مہارعوامی جذبات کے ہاتھ میںدے دیا جائے۔عمران خان نے اگر ماضی میں یہ غلطی کی تو اسے مثال بنانے کے بجائے‘ایسی فضا پیدا کی جائے کہ خان صاحب کو بھی اس کا ذکر کرتے وقت شرمندگی کا احساس ہو۔
واقعہ یہ ہے کہ موجودہ سیاسی بندوبست اپنا اخلاقی جواز کھو چکا۔ لاکھوں افرادنے جس طرح دارالحکومت میں جمع ہو کر‘اس پر عدم اعتماد کا ظاہر کیا ہے‘اس کے بعداس کی ساکھ مزید مجروح ہو ئی ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ جن کے ہاتھ میں اس نظام کی باگ ہے ‘وہ عوامی جذبات کا ادراک کرلیں‘ قبل اس کے کہ خرابی کے اثرات‘ معاملات کو نا قابلِ تلافی نتائج تک لے جائیں۔
میں ایک بار پھر اس بات کو دہرانا چاہتا ہوں کہ میرااختلاف مولاناکے موقف سے نہیں‘ا ن کی حکمتِ عملی سے ہے۔یہ ان کی بصیرت کا امتحان ہو گا کہ ان کی حکمت ِ عملی اخلاقی اور آئینی تقاضوں سے کتنی ہم آہنگ ہے ۔یہ بحران مولاناکا یا عوام کاپیدا کردہ نہیں ہے۔یہ اُن کی عطا ہے جو اس سیاسی بندوبست کے خالق ہیں۔صحیح معنوں میںاس کی اصلاح اسی وقت ہو سکے گی جب اس کی باگ دوبارہ عوام کے ہاتھ میں دے دی جائے۔