اُنیس سال کی لا حاصل جدوجہد کے بعد طالبان اور امریکہ، دونوں نے قوانینِ فطرت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
ایک دفعہ پھر ثابت ہوا کہ دنیا کے معاملات فطرت کے اٹل اصولوں کے پابند ہیں اور ان سے کسی کو استثنا نہیں۔ مذہبی علم میں اسی کوسنتِ الٰہی کہتے ہیں۔ اس کا اطلاق سب پر یکساں ہوتا ہے، مذہب کو ماننے والوں پر بھی اور اس کا انکار کرنے والوں پر بھی۔ طالبان اور امریکہ، دونوں کو ان قوانین کے سامنے سرافگندہ ہونا پڑا۔
انیس سال پہلے کا افغانستان کیا تھا؟ طالبان کی بالفعل حکومت قائم تھی جہاں القاعدہ نے امریکہ کے خلاف اپنا مرکز قائم کر رکھا تھا اور دیگر جہادی تنظیموں نے بھی۔ 9/11 کا حادثہ ہوا تو کہا گیا کہ اس کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی۔ امریکہ نے سلامتی کونسل کی تائید کے ساتھ طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس واقعے کے ذمہ داران کو امریکہ کے حوالے کر دیں اور یقین دلائیں کہ افغانستان کی سرزمین امریکہ کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ طالبان نے انکار کر دیا۔
ان انیس برسوں میں، امریکہ نے افغانستان میں القاعدہ کے مراکز کا خاتمہ کر دیا اور اب طالبان نے اس کا یہ مطالبہ مان لیا ہے کہ افغانستان کا جو علاقہ ان کے زیرِ تسلط ہے، اسے امریکہ کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا اور یہ کہ کسی عسکری تنظیم کو کام کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ انیس سال کی بربادی، ہزاروں افغانوں کے قتل اور بے حساب املاک کے ضیاع کے بعد، طالبان نے وہ سب کچھ مان لیا جس کا ان سے انیس سال پہلے مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ کیا اسی کو مومنانہ فراست کہتے ہیں؟ کیا اسی کا نام فتح ہے؟
انیس سال پہلے افغانستان پر طالبان کا بالفعل اقتدار قائم تھا۔ دو تین ممالک کے علاوہ کسی ملک نے اگرچہ اسے ایک جائز حکومت تسلیم نہیں کیا تھا‘ مگر عملاً مان رکھا تھا۔ اگر طالبان چاہتے تو اُس وقت دنیا کا مطالبہ مان کر، اپنی حکومت کی قانونی حیثیت بھی منوا سکتے تھے۔ یوں ان کا اقتدار مستحکم ہوتا اور افغان عوام بھی خانہ جنگی کے عذاب سے محفوظ رہتے۔ آج طالبان کو ایک فریق تو مان لیا گیا ہے لیکن ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ ان کی حکومت کا انحصار افغان فریقوں کے مابین ہونے والے مذاکرات کے نتائج پر ہے۔
دوسری طرف امریکہ اس زعم میں مبتلا ہو گیا کہ دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کے سبب، وہ مطلق العنان ہے۔ اس کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ قوانینِ فطرت سے بھی لڑ سکتا ہے۔ انیس سال کی سعیٔ لا حاصل کے بعد، اسے معلوم ہو سکا کہ اس دنیا میں فوجی قوت ہی فیصلہ کن نہیں ہوتی۔ بعد از خرابیٔ بسیار اسے تسلیم کرنا پڑا کہ فطرت کے قوانین ہی اٹل ہیں۔
افغانستان میں جو ہوا، یہ علت و معلول کا سادہ عمل ہے۔ کچھ لوگ اس کی مذہبی تعبیر پر بضد ہیں اور طالبان کو قرآن مجید کی اُن آیات کا مصداق ثابت کر رہے ہیں‘ جو صحابہ کرام کے بارے میں اتری ہیں اور جن کا تعلق رسالت مآبﷺ کے منصب رسالت سے ہے۔ وہ وعدے جو اللہ نے صحابہ سے کیے، ان کا اطلاق طالبان پر کیا جا رہا ہے۔
رسالت مآبﷺ اور صحابہ کا غلبہ ایک الٰہی فیصلہ تھا۔ اس نے بہر صورت واقعہ بننا تھا۔ لیکن ان کے بعد تاریخ میں جو واقعات پیش آئے یا آئیں گے، ان کا تعلق عالمِ اسباب اور کچھ دیگر قوانین سے ہے۔ پھر یہ کہ کسی کی فتح و شکست، اس کے صحیح یا غلط ہونے کی دلیل نہیں۔ یہ ممکن ہے کہ آپ کا مؤقف اخلاقاً درست ہو مگر آپ شکست کھا جائیں۔ اور یہ بھی ہو سکتا کہ مطلق غلط ہوتے ہوئے، کوئی دنیاوی اعتبار سے فاتح ہو۔
ویت نام میں امریکہ کو شکست ہوئی۔ اس کے خلاف لڑنے والے وہ تھے جو خدا کو نہیں مانتے تھے۔ اس معرکے میں فتح و شکست کا فیصلہ انسانی تدبیر اور طاقت کے مرہونِ منت تھا۔ بر صغیر میں برپا ہونے والی تحریکِ مجاہدین کے بارے میں کہا گیا کہ صحابہ کرام کے بعد، نیک اور صالح لوگوں کا ایسا منفرد اجتماع ، انسانی تاریخ نے نہیں دیکھا۔ اس تحریک کا انجام کیا ہوا؟ کیا سید احمد شہید کی شکست اس بات کا اعلان تھا کہ وہ حق پر نہیں تھے؟ ''تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘ کی بشارت، تحریکِ مجاہدین کے معاملے میں کیوں بروئے کار نہیں آئی؟
قرآن مجید رسالت مآبﷺ کی سرگزشتِ انذار ہے۔ اس میں ان معرکوں کے احوال بیان ہوئے ہیں جو آپ کو درپیش رہے۔ اللہ نے ان پر تبصرہ کیا۔ کبھی اہلِ اسلام کو کوئی بشارت دی۔ کبھی کسی غلطی پر متنبہ کیا۔ کبھی صحابہ کی ہمت بڑھائی۔ کبھی انہیں بتایا کہ یہ کافر جتنی کوشش کر لیں، اللہ کے چراغ کو اپنی پھونکوں سے بجھا نہیں سکتے۔ قرآن مجید بدر کے واقعات پر تبصرہ کرتا ہے۔ احد کو موضوع بناتا ہے۔ فتحِ مکہ کی بشارت دیتا ہے۔ یہ سب واقعات رونما ہو چکے اور اللہ کا ہر وعدہ پورا ہو چکا۔
اس کے بعد دنیا کے واقعات، جن قوانین کے تحت ہونے ہیں، ان کے بارے میں قرآن مجید نے ہمیں راہنمائی دے دی۔ اس نے بتا دیا کہ اب تاریخ کا عمل کن طبعی اور کن ما بعدالطبعی قوانین کے تابع ہے۔ اللہ تعالیٰ اب بھی مداخلت کرتے ہیں مگر اس کی نوعیت مختلف ہے۔ مثال کے طور پر یہ قانون کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اتنی طاقت نہیں دیتے کہ وہ مطلق العنان بن جائے۔ وہ ایک قوم کو دوسری قوم سے دفع کرتا رہتا ہے۔ رسالت مآبﷺ اور صحابہ کے معاملے میں اس کی مداخلت ایک قانون کے تحت ہے اور مابعد کے ادوار کے لیے دوسرے قانون کے۔یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ انسانی تاریخ کا یہ پہلا معاہدہ ہے جس کی پہلی شق ہی یہ ہے کہ امن کے لیے اسلام کے اصولوں کے مطابق ادارہ سازی ہو گی۔ 29 فروری کو جس معاہدے پر دستخط ہوئے، اس میں تو کوئی ایسی شق شامل نہیں۔ میرا گمان ہے کہ یہ کسی غلط فہمی کے سبب کہا گیا‘ ورنہ کون ہو گا جو 'اسلام کی فتح‘ کے اعلان کے لیے دانستہ غلط بیانی کرے گا۔
امریکہ بطور عالمی قوت کسی اخلاقیات کا پابند نہیں رہا۔ وہ اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے ہر طرح کے جرائم میں ملوث رہا ہے؛ تاہم یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ طالبان نے ہمیشہ اخلاقی اصولوں کی پاس داری کی۔ نہیں معلوم کتنے بے گناہ افغان ان حملوں میں قتل ہوئے جن کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی۔ اگر ہم انہیں دین کا نمائندہ بنا کر پیش کریں گے تو ان بے گناہوں کے قتل کی تاویل بھی دین کی ذمہ داری قرار پائے گی، وہ جس سے بری الذمہ ہے۔
یہ پہلی بار نہیں ہو رہا کہ ایک گروہ کو اللہ کی آیات کا مصداق قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے سوویت یونین سے برسرِ پیکار مجاہدین کے بارے میں بھی یہی کہا گیا کہ اللہ کی نصرت سے لڑ رہے ہیں۔ پھر انہوں نے جو سلوک اپنے ہم مذہب اہلِ وطن کے ساتھ کیا، وہ ہمارے سامنے ہے۔ جو لوگ فرطِ جذبات میں تاریخ کے ہر دور میں کسی نہ کسی گروہ کو آیاتِ الٰہی کا مصداق قرار دیتے ہیں، وہ اپنی خواہشات کو دین بناتے ہیں اور دین کو ان لوگوں کے افعال کی جواب دہی کے لیے غیر ضروری طور پر کٹہرے میں لا کھڑا کرتے ہیں۔
طالبان اور امریکہ کے معاملے کو، اس لیے قوانینِ فطرت کے تحت دیکھنا چاہیے کہ دونوں نے ان قوانین کے سامنے ہتھیار ڈالے ہیں۔ اس میں سبق ہے کہ دنیا کے معاملات طاقت سے نہیں، حکمت سے حل ہوں تو عالمِ انسانیت کو تباہی سے بچایا جا سکتا ہے۔ کیا اس معاہدے کے نتیجے میں افغانستان میں امن آ جائے گا؟ میں اس کے لیے دعاگو ہوں لیکن مجھے اس کا امکان دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کا تعلق سیاست سے نہیں یہاں کے مکینوں کی نفسیات سے ہے۔
1989ء میں یہاں فتحِ مبین کا جشن منایا گیا۔ اب پھر جشن برپا ہے۔ پہلی فتح سوویت یونین کے خلاف تھی۔ اب امریکہ کے خلاف۔ آج 1989ء کے فاتحین کہاں ہیں؟ کاش ہم دنیا کے عبرت کدے سے کچھ سیکھ سکتے۔