کیا اربابِ اقتدار، کیا سماجی طبقات‘ ملک معلوم ہوتا ہے کہ اتائیوں کے حوالے ہو گیا ہے۔
حکومت کے بارے میں کچھ کہنا تحصیلِ حاصل ہے۔ اس کی کارکردگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے۔ عمران خان صاحب کے کٹر حامی بھی جانتے ہیں کہ ان کے دفاع میں کچھ کہنا محال ہے۔ اب ایک ہی گھسی پٹی دلیل باقی ہے: عمران خان کے خلاف سازش کی جا رہی ہے اور اس سازش میں وہ لوگ ملوث ہیں جو ان سے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ کسی حکمران کے حق میں اس سے زیادہ کمزور دلیل ممکن نہیں۔ مشیروں کا انتخاب حکمران کی بصیرت کا پہلا امتحان ہوتا ہے۔ یہ دلیل پیش کرنے والے دراصل یہ بتا رہے ہیں کہ حکمران پہلی آزمائش ہی میں ناکام ہو گیا ہے۔
دانش کی مسند پر بھی اتائی براجمان ہیں۔ ایک معروف اور بلند آہنگ کالم نگار نے چند روز پہلے یونیسیف کا ایک ہدایت نامہ جاری کیا اور عوام سے اس پر عمل کی ہدایت کی۔ یہ جعلی ہے۔ یونیسیف نے اس طرح کا کوئی ہدایت نامہ جاری نہیں کیا۔ تصدیق کمپیوٹر کی صرف ایک کلک کے فاصلے پر تھی۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی گئی اور چند مضحکہ خیز باتوں کی بغیر تصدیق تشہیر کر دی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس سوشل میڈیا سے اسے نقل کیا گیا، وہاں یہ خبر بھی موجود ہے کہ یہ جعلی ہے۔ایک اور ہر دلعزیز کالم نگار نے لکھا کہ کورونا وائرس بیس درجے سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر مر جاتا ہے۔ اب عالمی ادارہ صحت نے بتا دیا کہ یہ اطلاع درست نہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی غلط ہے کہ یہ معدے میں اتر جائے تو خطرناک نہیں رہتا۔ جن لکھنے والوں کو عام لوگ شوق سے پڑھتے اور ان پر اعتبار کرتے ہیں، ان کی ذمہ داری زیادہ ہے کہ وہ بغیر تصدیق کے کوئی خبر نہ پھیلائیں۔
کورونا کے باب میں مصدقہ ذرائع دو ہی ہیں: عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف۔ اس وائرس کے بارے میں چونکہ ابتدا میں مصدقہ اطلاعات موجود نہیں تھیں اس لیے یہ ادارے بھی معلومات کی فراہمی میں بہت محتاط تھے۔ رائے سازوں کو چاہیے تھا کہ وہ بھی اسی احتیاط کا مظاہرہ کرتے اور لوگوں کو وہی بات بتاتے جس کی کسی ذمہ دار ادارے نے تصدیق کی ہے۔ غلط اطلاعات پھیلانے کا مطلب ان گنت لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا ہے۔
مذہب کی دنیا میں بھی ایسے ہی اتائیوں کا غلبہ ہے۔ ایسے ایسے روحانی علاج بتائے جا رہے ہیں کہ مذہب بازیچۂ اطفال بن گیا ہے۔ کوئی کبوتر کے معدے سے علاج برآمد کر رہا ہے اور کوئی صاحبِ عرفان خبر دے رہا ہے کہ بیس دن میں یہ وائرس ختم ہو جائے گا۔ کوئی لوگوں کو خوابوں کی دنیا میں لے گیا ہے۔ میں نہیں جان سکا کہ وائرس کے علاج کا مطالبہ مذہب سے کیوں کیا جا رہا ہے اور اہلِ مذہب نے اس علاج کی ذمہ داری کیوں اٹھائی ہے؟
پیغمبر اور مذہب لوگوں کے جسمانی علاج کے لیے نہیں ہوتے۔ نہ کسی صاحبِ عرفان کو اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ وائرس کی عمر کا تعین کرے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان میں یہ صلاحیت رکھ دی ہے کہ وہ درپیش مسائل کا حل دریافت کرتا اور اس باب میں محیرالعقل کارنامے سرانجام دیتا ہے۔ دریافت کا یہ کام زیادہ تر ان لوگوں نے کیا جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ کائنات میں جاری فطری قوانین کو دریافت اور پھر ان کا اطلاق کرتے ہوئے زندگی کو آسودہ بناتے چلے جاتے ہیں۔ اسی صلاحیت کے استعمال سے جہاز بنتے ہیں اور اسی سے امراض کے لیے ادویات بھی۔
آج کوئی مذہب کو ماننے والا ہے یا اس کا انکار کرنے والا، سب متفق ہیں کہ کورونا کا علاج بھی کسی غیر روحانی تجربہ گاہ ہی سے برآمد ہو گا۔ کوئی ایک صاحبِ عرفان اس پر قادر تھا نہ ہے جو اپنے عرفان سے وائرس کا علاج بتا دے۔ آج تک کوئی ویکسین یا اینٹی بائیوٹک کسی خانقاہ میں نہیں بنی۔ مذہب کا یہ مقدمہ ہے اور نہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنے پیغمبر مبعوث کرتے ہیں۔ ویکسین کہیں دریافت ہو، اس سے مذہب کا مقدمہ مضبوط ہوتا ہے نہ کمزور۔ مذہب کا مقدمہ ان تحقیقات اور ایجادات پر منحصر ہی نہیں۔مذہب کا مقدمہ دوسرا ہے۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ اس عالم کا پروردگار انسان کا حاجت روا بھی ہے۔ وہ اس کی مشکلات کو دور کرنے پر قادر ہے۔ اس کے لیے وہ اسباب کا محتاج نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اسباب بھی وہی فراہم کرتا ہے۔ انسان جس عقل کو استعمال کرتے ہوئے، امراض کا علاج دریافت کرتا ہے، یہ اس کی عطا ہے۔ یہ وہی ہے جس نے امراض کے علاج کو پیدا کیا ہے اور اس کی دریافت کو انسانی کاوش سے مشروط کر دیا ہے۔ کائنات کے باب میں اس کی ایک سنت ہے جو جاری ہے۔
مذہب جو شخصیت پیدا کرتا ہے، وہ خدا پر ایمان سے وجود میں آتی ہے۔ اس ایمان کا ایک تقاضا یہ کہ انسان کاوش کا پابند ہے لیکن اس کاوش کی کامیابی خدا کی طرف سے ہے۔ 'خدا کی طرف ہونے‘ کا مطلب قوانینِ فطرت کی طرف ہونا ہے اور ان سے ماورا بھی۔ اسی لیے مذہبی بیانیے میں شفا کی نسبت خدا کی طرف ہے۔ اسی شفا کی طلب میں وہ دعا کرتا ہے۔ اب جو بھی قوانین کائنات کی دریافت اور ان کے اطلاق میں مصروف ہے، وہ ان قوانین کا پابند ہے؛ تاہم خدا پر یقین رکھنے والا، اس ایمان کے ساتھ اس عمل میں شریک ہوتا ہے کہ ان قوانین کا ایک خالق ہے اور ان کی دریافت کی طرف راہنمائی بھی اسی کی طرف سے ہے۔ کورونا جسے معاملات میں اللہ تعالیٰ کی ہدایت یہ ہے کہ انسان جب کسی آفت میں مبتلا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کو اس کائنات کا حاکم و خالق مانتے ہوئے، اس کی طرف رجوع کرے۔ دعا اسی کا نام ہے۔ وہی ہے جو علاج کی دریافت کے عمل میں درست سمت میں راہنمائی کرتا ہے۔ رہا مادی اسباب میں علاج کی تلاش تو اس کا شعور اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے۔ وہ بقا کی جبلت کی تحت، ہر خطرے سے بچنے کے لیے متحرک ہو جاتا ہے۔ یہ بتانے کے لیے پیغمبر مبعوث کرنے کی ضرورت نہیں۔
یوں مذہب کا معاملہ بالکل سادہ ہے۔ خدا کی عطا کی ہوئی عقل کے استعمال سے انسانی مسائل کا حل تلاش کرنا اور اس کی کامیابی کے لیے اپنے رب سے مدد طلب کرنا۔ مصیبت کے وقت اپنے رب کو پکارنا اور یہ یقین رکھنا کہ وہ مافوق الاسباب اس کی حاجت روائی کر سکتا ہے۔ جسمانی مرض ہو یا کوئی سماجی مسئلہ، مذہب کی راہنمائی یہی ہے۔
جس طرح اتائی دانش وروں نے کورونا کے بارے میں غیر مصدقہ خبریں پھیلائی ہیں، اسی طرح مذہب کے نام لیوا بھی مذہب کے نام پر غیر مصدقہ اطلاعات پھیلا رہے ہیں۔ کورونا کا تعلق کسی عرفان سے ہے نہ خواب سے۔ یہ ایک مرض ہے اور اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ نے اپنے اسوہ سے بتا دیا ہے کہ ایسے مسائل کے حوالے سے انسانی رویہ کیا ہونا چاہیے۔حکومت اتائیوں کے ہاتھ میں چلی جائے جو سیاست و ریاست کی نزاکتوں سے بے خبر ہوں تو وہی ہوتا ہے جو اس ملک کی سیاست اور معیشت کے ساتھ ہو رہا ہے۔ دانش اور مذہب کو بھی اتائیوں کے حوالے کر دیا جائے تو بغیر تصدیق کے خبریں پھیلتی ہیں اور مذہب کو ایسے معرکے میں اتار دیا جاتا ہے، جس میں وہ کوئی فریق ہی نہیں۔ کورونا کے علاج کی تلاش مذہب کی ذمہ داری نہیں‘ نہ ہی وہ اس کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس کا مطالبہ محض اتنا ہے کہ عقل سے انسانی مسائل کا حل دریافت کیا جائے اور مشکل میں اپنے رب کی طرف رجوع کیا جائے جو زندگی اور موت کا مالک ہے۔
دانش ور ڈاکٹر ہوتے ہیں نہ ان کے لیے ہر شعبے میں تخصیص لازم ہے۔ ان کا کام یہ ہے کہ وہ عقلِ عام کی روشنی میں عوام کی درست راہنمائی کریں۔ لوگوں کو کوئی بات بغیر تصدیق نہ بتائیں اور ابلاغ کے باب میں اپنی اخلاقی ذمہ داری سے واقف ہوں۔ اتائی حکیم ہوں حکمران ہوں دانش ور ہوں یا ملا، ان سے جان اور ایمان کو بچانا چاہیے۔