سچ پوچھیے تو میرا اب پیش گوئیوں کی صحافت سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔
گزشتہ ایک ڈیڑھ سال میں جتنی پیش گوئیاں ہوئیں، ان میں سے ایک بھی پوری نہ ہو سکی۔ نہ حکومت کے حق میں نہ حکومت کے خلاف۔ بڑے نامور اخبار نویس، جنہیں اس فن میں طاق سمجھا جاتا ہے، ہر چند دن کے بعد ہمیں خوش خبری یا بد خبری (اس کا تعلق سننے والے سے ہے)، سناتے اور مستقبل کا ایک نقشہ سامنے لاتے رہے۔ سادہ لوح ان پر اعتبار کر لیتے۔ ان سادہ لوح حضرات میں، میں بھی شامل رہا۔
ایک دن تو بہت عجیب معاملہ ہوا۔ یہ 19 نومبر 2019ء کی تاریخ تھی۔ ایک قومی اخبار میں کالم شائع ہوا کہ اقتدار کی پرواز ناہموار ہو چکی۔ اس کالم میں یہ بتایا گیا کہ معاون پائلٹ کی نااہلی کے باعث طیارے کا کنٹرول سینئر پائلٹ نے اپنے ہاتھ میں لے لیاہے۔ خان صاحب کے لیے معاون پائلٹ کا استعارہ استعمال کیا گیا۔ یہ خبر دی گئی کہ اگلے نو دن بہت اہم ہیں۔
میں یہ پڑھ کر چونک گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کالم نگار کا کوئی تعلق حکومت کے مخالفین سے نہیں تھا۔ انہوں نے تو شریف خاندان کے خلاف مہم میں، تنِ تنہا ہراول دستے کا کام کیا۔ وہ ہمیشہ سے عمران خان کے خیر خواہ تھے اور آج بھی ہیں۔ اس لیے یہ امکان تو خارج از بحث تھا کہ یہ حکومت مخالف پروپیگنڈا ہے۔ دودن بعد پھر انہوں نے لکھا کہ معاملہ اب اگلے پانچ گھنٹوں کا ہے۔
یہ اتفاق ہے کہ اسی دن یا ایک دن آگے پیچھے، ایک دوسرے قومی اخبار میں ایک اور کالم نگار نے بھی اسی طرح کی بات لکھی۔ انہوں نے دس دن کا وقت دیا کہ اگر حکومت نے اپنے احوال کی اصلاح نہ کی تو یہ بساط لپیٹ دی جائے گی۔ یہ کالم نگار اگرچہ حکومت مخالف ہونے کی شہرت رکھتے ہیں‘ لیکن صحافت میں معتبر مانے جاتے ہیں۔ میں نے خیال کیا کہ اگر دومختلف راوی بیک وقت، لفظی اختلاف کے ساتھ کم وبیش ایک روایت بیان کر رہے ہیں تو اسے ایک سنجیدہ پیش گوئی سمجھنا چاہیے۔ میں انتظار کرنے لگا کہ کوئی بڑی تبدیلی ہفتے عشرے کے فاصلے پر کھڑی ہے۔ وہ دن اور آج کا دن۔ پانچ ماہ ہونے کو آئے ہیں۔ چمن کا رنگ وہی ہے اور پرندے بھی اسی طرح شاخوں پر بیٹھے ہیں۔
اس اطلاع کا غلط ثابت ہونا، میرے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ میں کبھی خبر کی دنیا سے متعلق نہیں رہا۔ صحافت سے میرا تعلق ادارتی صفحے سے آگے نہیں بڑھا۔ چند ماہ کا استثنا ہے، جب میں بادلِ نخواستہ ایک اخبار کا ایڈیٹر بن گیا تھا۔ اس لیے خبروں کے حوالے سے انہی لوگوں کی بات پر اعتبار کرتا ہوں جن کا تعلق عملی صحافت سے ہے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ میرے تجزیے کی اساس کوئی مصدقہ خبر ہو یا تاریخ و سماجیات کے مسلمات۔ اس لیے کبھی کبھی ان پیش گوئیوں پر اعتبار کر لیتا ہوں جنہیں ماننے کی کوئی معقول وجہ ہو۔
گزشتہ دنوں میں ہونے والے پے در پے واقعات نے لیکن مجھے اس نتیجے تک پہنچایا ہے کہ صحافیانہ پیش گوئیوں پر کسی سنجیدہ تبصرے کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ اسی نوعیت کا ایک واقعہ مولانا فضل الرحمن کا دھرنا تھا۔ اس دھرنے کے گرد صحافیوں کی پیش گوئیوں کا ایک جال تنا ہوا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی پوری نہ ہو سکی، اگرچہ ان پیش گوئیوں پر اعتبار کی ایک عقلی دلیل بھی تھی۔
مولانا کی شہرت یہ ہے کہ وہ ایک زیرک آدمی ہیں۔ سیاست میں اوچھے وار کے قائل نہیں۔ اگر تمام اپوزیشن جماعتوں کی مخالفت کے باوجود، وہ دھرنے کے لیے یک سو ہیں تو یقیناً انہیں کہیں سے کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے۔ بصورتِ دیگر وہ یہ جوا نہ کھیلتے۔ اس وجہ سے ان پیش گوئیوں کو میں نے بھی قدرے سنجیدہ لیا۔ بعد میں جو نتیجہ نکلا، اس نے پیش گوئیوں اور مولانا کی بصیرت دونوں کے سامنے سوالیہ نشان کھڑے کر دیے۔
صحافیانہ پیش گوئیوں کے عام طور پر تین ماخذ ہوتے ہیں۔ ایک اندر کی خبر، مخبر اپنی محنت یا پیشہ ورانہ مہارت سے، جس تک پہنچ جاتا ہے۔ مثال کے طور کسی اعلیٰ فورم پر ہونے والی بات جس کی تشہیرِ عام نہیں کی جاتی۔ صحافی کو اس کی سن گن مل جاتی ہے۔ وہ ایک دو ذرائع سے کہانی کی کڑیاں ملا لیتا ہے۔ یہ اب اس کی پیشہ ورانہ مہارت ہے کہ وہ ان کڑیوں کو کیسے ملاتا ہے۔ جیسے 'ڈان لیکس‘ کی خبر۔
ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ کوئی حلقہ خود یہ چاہتا ہے کہ ایک خبر کو سامنے لایا جائے یا کوئی خبر اڑائی جائے۔ اس کے لیے کسی صحافی کا کندھا استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے بھارتی صحافی کلدیپ نیر کی ملاقات، ایک پاکستانی صحافی کی معرفت ہوئی۔ بعد میں واضح ہوا کہ یہ ملاقات کروائی گئی اور مقصد بعض حلقوں تک ایک پیغام پہنچانا تھا۔ قومی سیاست میں تو ایسے کندھوں کا استعمال بہت ہوتا ہے۔ تواتر سے اگر کوئی کندھا استعمال میں رہے تو لوگ بھی جان جاتے ہیں کہ فلاں صحافی کی پیش گوئی کس حلقے سے آنے والی خبر ہے۔
پیش گوئی کا تیسرا سبب سیاست پر نظر رکھنے والے کا وجدان یا بصیرت ہے۔ سیاسی حرکیات پر مسلسل نظر رکھنے والا جان لیتا ہے کہ واقعات، حالات کو کس جانب لے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر 2014ء کا دھرنا۔ یہ دھرنا، لندن پلان، عمران قادری گٹھ جوڑ اور بعض دیگر واقعات کے تسلسل میں تھا۔ پاکستانی سیاست پر نظر رکھنے والا بتا سکتا تھا کہ یہ کڑیاں کیسے مل رہی ہیں اور واقعات کہاں جا کر منتج ہوں گے۔ جاوید ہاشمی صاحب نے جب اندر کی خبر سنائی تو سیاسی حرکیات پر نظر رکھنے والوں کے لیے یہ کوئی انکشاف نہ تھا۔ اب تو خیر اور بہت سی گواہیاں سامنے آ چکیں۔
میرا خیال ہے کہ اگر کوئی پیش گوئی سنجیدہ تجزیہ کی اساس بن سکتی ہے تو اس کا تعلق تیسری قسم سے ہے: سیاسی واقعات کے تسلسل سے اخذ شدہ مستقبل بینی۔ 1970ء کے انتخابات سے پہلے مولانا مودودی نے پیش گوئی کی تھی کہ اگر انتخابات میں علاقائی جماعتیں جیت گئیں تو ملک باقی نہیں رہ سکے گا۔ یہ سیاسی واقعات کے تسلسل پر نظر رکھنے والے ایک صاحبِ بصیرت کا تجزیہ تھا۔ انہیں دکھائی دے رہا تھا کہ اگر مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ جیت گئیں تو ان کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی ہو گی جو ملک کے دو لخت ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔ بد قسمتی سے ایسا ہی ہوا۔
سماجی علوم میں اسی طرح نتائج اخذ اور تصورات قائم کیے جاتے ہیں۔ جیسے ابن خلدون کا تصورِ عصبیت۔ مقدمہ ابن خلدون میں اس تصور کا تاریخی استدلال دیا گیا کہ کیسے ایک پیٹرن ہے جو انسانی سماج میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ آج اگر ہم پاکستان کی سیاست میں بھٹو خاندان یا شریف خاندان کے مستقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرتے ہیں تو اس کی بنیاد سماجی علوم کے انہی تصورات پر ہوتی ہے۔ اسی طرح پاکستان کے مستقبل کے بارے میں مولانا ابوالکلام آزاد سے منسوب ایک انٹر ویو۔ یا ''تحریک آزادیٔ ہند اور مسلمان‘‘ میں پاکستان کے بطور اسلامی ریاست مستقبل کے بارے میں مولانا مودودی کی پیش گوئیاں۔ یا جیسے ہنٹنگٹن کا تہذیبوں کے تصادم کا تھیسس۔
یہ لازم نہیں کہ یہ پیش گوئیاں ہمیشہ درست ہوں یا کلی طور پر درست ہوں۔ یہ انسان کا فہم ہے جس میں غلطی کا امکان ہوتا ہے؛ تاہم میرا کہنا یہ ہے کہ انسان کی بصیرت کسی ایسی خبر سے زیادہ لائقِ بھروسہ ہے جس کا تعلق دوسری قسم کی پیش گوئیوں سے ہو۔ پہلی قسم کی پیش گوئیوں پر، کسی حد تک بھروسہ کیا جا سکتا ہے اگر مخبر کی شہرت قابلِ اعتماد ہو۔
چند روز سے میں پھر پیش گوئیاں سن رہا ہوں کہ اگلے دو ماہ بہت اہم ہیں۔ بجٹ کے بعد تبدیلی آنے والی ہے۔ سچی بات ہے کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ سال کی پیش گوئیوں کا انجام دیکھ کر یہ پیش گوئی بھی محض افواہ دکھائی دیتی ہے۔ ہاں، ہم اس پر بات کر سکتے ہیں کہ کورونا کے بعد دنیا کیسی ہو گی۔ اس کا تعلق کسی مخبر کی اطلاع سے نہیں، سماجی علوم سے ہے۔