کشمیر میں بسنے والوں کے لیے دوگنا عذاب ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے مکین ایک طرف اُس آزمائش کا شکار ہیں جو آسمان سے اتری اور دوسری طرف اس ظلم کا جو انسانوں کے ہوسِ اقتدار سے پھوٹی ہے۔ کورونا کے دنوں میں بھی اہلِ ہوس کے دلوں میں رحم پیدا نہیں ہوا۔ وہ نہیں جانتے کہ یہ بھی ایک عذاب ہے جو ظالم پر مسلط ہوتا ہے۔ اس کا دل سخت ہو جاتا ہے اور اس کے دروازے خیر کے لیے بند ہو جاتے ہیں۔
عالمی نشریاتی ادارے بتاتے ہیں کہ کشمیر میں کیسے کورونا اور بھارتی ریاست ہم رکاب ہیں۔ گزشتہ چھ ہفتوں میں چالیس سے زیادہ افراد کو عسکریت پسندی کے نام پر مار ڈالا گیا۔ سال ہونے کو ہے کہ اہلِ کشمیر لاک ڈاؤن میں ہیں۔ اب نئی پابندیاں کورونا کی وجہ سے۔ ہر وہ آدمی جس کے سینے میں دل ہے، اس جبر کی سنگینی کا اندازہ کر سکتا ہے۔ بھارتی افواج اور کورونا میں مقابلہ ہے کہ کون انسانوں کے لیے بڑی آفت ہے۔
دنیا سے کیا گلہ، کشمیر کے باب میں ہم خود اپنی ذمہ داری پوری نہ کر سکے۔ بھارت نے گزشتہ ایک سال میں، جس طرح جبر کے پنجے گاڑے ہیں، اس کی ماضی میں کوئی مثال موجود نہیں۔ پہلے کسی حد تک آنکھوں کی شرم باقی تھی کہ کشمیر متنازعہ علاقہ شمار ہوتا تھا۔ اب یہ شرم بھی ختم ہو گئی۔ وحشت برہنہ ہو کر ناچ رہی ہے اور ہم دنیا کو اس جانب متوجہ نہیں کر سکے۔ لوگ اب سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا کشمیر ہمارے خارجہ پالیسی کے ایجنڈے میں شامل ہے، ترجیحات تو بعد کی بات ہے۔ ہم تو دنیا کو یہ بنیادی بات نہیں سمجھا سکے کہ کم از کم کورونا کے دنوں ہی میں اہلِ کشمیر کو اس جبر سے کچھ آزادی مل جائے۔ وہ اپنے لیے دوا تو خرید سکیں۔
کشمیر کا مقدمہ بنیادی انسانی حقوق کا مقدمہ ہے جس میں آزادی سرِ فہرست ہے۔ اس حق کو ساری دنیا تسلیم کر چکی۔ کشمیر کی تحریکِ آزادی میں تشدد کا اضافہ ہوا تو بھارت نے بہت کامیابی کے ساتھ اسے عالمی دہشت گردی سے جوڑ دیا۔ اس میں کشمیریوں کے نادان دوستوں نے ان کی مدد کی جو آزادی کی ایک مقامی تحریک کو عالمی خلافت سے جوڑتے رہے۔ برہان وانی کو اس کی علامت بنا دیا۔ اب واضح ہو رہا ہے کہ کشمیر سے افغانستان تک، عالمی خلافت کے نام پر سرگرم لوگوں نے کس طرح ان کشمیری اور افغان گروہوں کو نقصان پہنچایا جن کا ایجنڈا صرف اپنے ملک تک محدود تھا۔ جیسے طالبان کو صرف افغانستان سے دلچسپی ہے اور کشمیریوں کو آزادیٔ کشمیر سے۔
طالبان کی بنیادی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے خود کو ایک ایسی تحریک سے وابستہ کر لیا جو عالمی ایجنڈا رکھتی تھی اور اس کے لیے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کر رہی تھی۔ حکمت اُس وقت متقاضی تھی کہ وہ خود کو اس سے الگ رکھتے۔ بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا اور اس کی قیمت نہ صرف افغانستان بلکہ اس خطے کو ادا کرنا پڑی۔ موقع ملا تو انہوں نے دوبارہ یہ غلطی نہیں دہرائی اور خود کو داعش یا کسی عالمی خلافت کے ایجنڈے سے الگ رہا۔ اب عالمی سیاست میں ان کی قبولیت کے اسباب پیدا ہو گئے ہیں۔
کشمیر کا مقدمہ اپنی اخلاقی بنیادیں رکھتا ہے۔ حق خود ارادیت کو اقوامِ متحدہ تسلیم کرتا ہے۔ پھر اقوامِ متحدہ کی قراردادیں بھی اس کی متنازعہ حیثیت پر مہرِ تصدیق ثبت کر رہی ہیں۔ آج یہ انسانی حقوق کی پامالی کا بھی ایک مضبوط مقدمہ بن چکا۔ بھارت نے جس طرح انسانی حقوق کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے، اس پر عالمی تنظیمیں تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ اقلیتوں کے باب میں ہندوستان کا مقدمہ بھی انتہائی کمزور ہو چکا۔
یہ پس منظر بتاتا ہے کہ اس وقت کشمیر کو اگر عالمی کے بجائے، ایک مقامی تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی قبولیت کے امکانات زیادہ ہیں۔ اس کے بعد بھارت بھی اس کو عالمی دہشت گردی سے نہیں جوڑ پائے گا۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کا اصل امتحان یہ تھا کہ وہ ان حالات میں اس معاملے کو ایک نئی تشکیل کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھتا۔ جنگ تو ظاہر ہے کہ کوئی حل نہیں۔ اس پر سب کا اتفاق ہے۔ تو کیا اس کے بعد ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جانا چاہیے؟ کیا بھارت کی غیر اخلاقی پیس قدمی کو روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کرنی چاہیے؟ یہی وہ اہم سوال ہے جس کو آج نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
اب ضرورت تھی کہ اس کو آزادی کی مقامی تحریک بنا کر پیش کیا جاتا جس میں غیر ملکی مداخلت کی کوئی ایک شہادت، گزشتہ خاصے عرصے میں، سامنے نہیں آئی۔ اس ظلم کو نمایاں کیا جاتا جو نہتے شہریوں پر روا رکھا جا رہا ہے۔ افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ ہم جیسے قلم گھسیٹنے والوں کی صریر خامہ، نوائے سروش نہیں بن سکی کہ قیامت برپا ہو جاتی۔ اس امید پر لیکن لوگ لکھتے جاتے ہیں کہ حکومتی اور سامراجی ایوانوں میں شاید کوئی صاحبِ دل بھی ہو۔ مخدومی پروفیسر فتح محمد ملک صاحب نے ایک کتاب مرتب کی تھی جس میں ان شعرا کے کلام کو جمع کیا گیا جنہوں نے کشمیر کی تحریکِ آزادی کو اپنی شاعری کا موضو ع بنایا۔ یہ برسوں پہ محیط ایک داستان ہے لیکن سچ یہ ہے کہ ظلم کدوں میں صدا بصحرا ثابت ہوئی۔
اس کی یہ حیثیت بہر حال اپنی جگہ ہے کہ لوگوں نے ظلم کے خلاف اپنی گواہی لوحِ تاریخ پر ثبت کر دی۔ ظلم کے خلاف لڑنے والوں کو یہ حوصلہ ملا کہ کوئی ہے جو ان کے درد کو سمجھتا اور ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ان کا لہو رزقِ خاک نہیں بنا، اس نے لوگوں کے دلوں میں ہمدردی کی ایک لہر پیدا کی ہے۔ آزادی اور ظلم کے خلاف جدوجہد کی تحریکیں اسی طرح آگے بڑھتی ہیں۔
اسی احساس کے زیرِ اثر، کسی لمحے استادِ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی نے اپنا دردِ دل ایک نظم میں انڈیل دیا۔ خیال ہوا کہ تشویش کے ان لمحوں میں یہ نظم آپ کو سنا دوں کہ میں خود بھی اپنے جذبات کی اس سے بہتر ترجمانی نہیں کر سکتا۔ جاوید صاحب کی یہ نظم ان کے مجموعہ کلام 'خامہ و خیال‘ میں‘ وادی کشمیر‘ کے عنوان سے موجود ہے۔
اب یہاں رنگِ بہاراں ہے جوانوں کا لہو
سرخ رو ہیں وادیٔ کشمیر میں کوہ و دمن
سر برہنہ بیٹیوں کے پیرہن بکھرے ہوئے
مرثیہ خواں ہر در و دیوار پر مرغِ چمن
......
موسمِ گل زرد پتوں کی ردا پہنے ہوئے
ڈھونڈتا ہے دخترِ گل مرگ کا عہدِ شباب
آب جوؤں کا ترنم نوحہ غم کی صدا
سرفگندہ وادیوں میں آب شاروں کے رباب
......
چھوڑ جاتی ہے اِدھر بھی وادیٔ نیلم کی رات
ہر طرف بارود گولوں کی تباہی کے نشاں
ہند کے اربابِ دانش اب بھی سنتے ہوں اگر
آگ میں جھلسے ہوئے معصوم بچوں کی فغاں
......
پوچھیے اُن سے کہ جمہوری سیاست ہے یہی؟
عہدِ حاضر میں بھی آزادی کی قیمت ہے یہی؟