منصور صدیقی چلا گیا۔ ''زمین پر جو بھی ہیں‘ سب فانی ہیں۔ اور تیرے پروردگار کی عزت و جلالت والی ذات ہی باقی رہنے والی ہے‘‘ (الرحمن)۔
منصور ایک سوال تھا اور بہت سے سوالات کا جواب بھی۔ ''کیا لوئر مڈل کلاس کا کوئی با کمال‘ اعیانی طبقے میں شامل ہو سکتا ہے‘ حکومت جس کے گھرکی لونڈی ہے؟‘‘ کیا اس کلب کے کرتا دھرتا‘ اتنے وسیع القلب ہیں کہ کسی اجنبی کے لیے اپنے دروازے کھول دیں؟ منصور دنیا سے رخصت ہو گیا لیکن ہمیں ان سوالات کے جواب دے گیا۔
اسلامی جمعیت طلبہ اور پاسبان۔ اسلامک فرنٹ اور عمران خان۔ یہ اس کی زندگی کے اہم پڑاؤ تھے۔ پل دو پل کے لیے وہ بہت سے مقامات پر رکتا رہا لیکن صرف اتنا کہ سانس بحال کیا اور آگے کو چل دیا۔ تحریک انصاف اس کا آخری پڑاؤ تھا۔ خلافِ توقع بہت دیر یہاں رکا رہا‘ یہاں تک کہ صحت کی خرابی حائل ہوئی اور وہ گھر کا ہو رہا۔ یہیں سے آخری گھر کو روانہ ہو گیا۔ ہنگامہ خیز آدمی اس خاموشی سے رخصت ہوا کہ کسی کو اطلاع نہ ہو سکی۔ نہ اخبار والوں کو نہ تحریکِ انصاف کو۔ کوئی خبر نہ کوئی تعزیتی بیان۔
انجینئر تھا مگر محض انجینئر نہیں‘ اس کے اندر ایک تخلیق کار چھپا ہوا تھا۔ ابلاغ کی دنیا میں آنے والے انقلاب کی دستک اس نے برسوں پہلے سن لی تھی۔ ستائیس برس ہو گئے جب ایک شام‘ اہلِ راولپنڈی چونک اٹھے۔ قاضی حسین احمد لیاقت باغ میں اپنے سامعین سے مخاطب تھے اور لوگ گھروں میں بیٹھے انہیں براہ راست دیکھ اور سن رہے تھے۔ حکومت تو اس کی قدرت رکھتی تھی لیکن کسی سیاسی جماعت نے اس بارے میں ابھی سوچا بھی نہیں تھا۔ ہنگامہ ہوگیا۔ حکومت نے ساری 'ٹیکنالوجی‘ ضبط کر لی مگر منصور صدیقی اس سے پہلے اپنا کمال دکھا چکے تھے۔
منصور کا خیال تھا کہ وہ محض صلاحیت اور محنت کی بنیاد پر اپنا مقام منوالے گا۔ آخری بار عمران خان سے امیدیں باندھیں۔ وہ اس گمان میں تھا کہ برسوں کی ریاضت رائیگاں نہیں جائے گی۔ پارٹی اسے ٹکٹ دے گی۔ میں نے اسے بتایا کہ ایسانہیں ہو گا۔ وہ سرور خان صاحب کے حلقے سے الیکشن میں حصہ لینا چاہتا تھا۔ سرور خان کواس وقت تحریک انصاف میں شامل کروایا جا چکا تھا۔ میں نے اسے بہت سمجھایا کہ وہ اس میں اپنا وقت برباد نہ کرے۔ سرور خان کو کسی مقصد کے لیے لایا گیا ہے۔ وہ مگر بضد رہا۔ اس کا خیال تھا کہ تحریکِ انصاف کے کارکن سرور خان کو قبول نہیں کریں گے۔ اپنے شہر واہ کینٹ میں جلسہ کیا۔ اصرار کرکے مجھے بھی لے گیا۔ فوزیہ قصوری کو بھی بلا رکھا تھا۔ جلسہ ہوگیا مگر اسے ٹکٹ نہیں ملا۔ اقتدار کی بھاگ دوڑ میں‘ کیا فوزیہ اور کیا منصور‘ سب راہ کی دھول بن گئے۔
تحریکِ انصاف کی حکومت قائم ہوگئی مگر منصور کہیں دکھائی نہ دیا۔ مجھے افسوس ہوا لیکن اس میں میرے لیے اچنبھے کی کوئی بات نہیں تھی۔ میرے لیے یہ سب نوشتہ دیوار تھا۔ پھروہ منظر سے غائب ہو گیا۔ کسی نے اسے تلاش کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ مرض اس کی تنہائی کی رفیق بنی۔ یہاں تک کہ وہ رفیقِ اعلیٰ کے ہاں جا پہنچا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی مغفرت سے نوازے۔ میں نے اسے بارہا سمجھانے کی کوشش کی کہ سیاست اقتدارکا کھیل ہے۔ ایک خاص طبقہ ہی اس کھیل کے لیے موزوں ہے۔ عام آدمی کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ کسی بڑے سیاست دان کے خدام میں شامل ہوجائے۔ وہ خوش ہو کر انعام میں کچھ عطا کر دے تو اس کی خوش بختی‘ جیسے نوازشریف صاحب نے آصف سعید کرمانی کو‘ زرداری صاحب نے عبدالقیوم سومرو کو اور عمران خان نے فیصل جاوید کو سینیٹر بنوا دیا۔
ان سیاست دانوں کو باصلاحیت افراد کی بھی ضرورت ہوتی ہے‘ جیسے مختلف شعبوں کے ماہرین۔ عام آدمی کے لیے ایک راستہ یہ ہے کہ وہ کسی شعبے میں درجہ کمال کو پہنچ جائے اور پھر وہ اہلِ اقتدار کی ضرورت بن جائے؛ تاہم اس کی نوعیت بھی خدمت ہی کی ہے۔ جیسے شریف الدین پیرزادہ۔ ضیاالحق صاحب اور مشرف صاحب کو ایسے آدمی کی ضرورت تھی جو آئین کے ساتھ کھلواڑ میں ان کی 'قانونی معاونت‘ فراہم کرے۔ پیرزادہ صاحب نے یہ خدمت بہم پہنچائی اور صلہ پایا۔
ہماری سیاست ابھی تک قدیم جاگیردارانہ نفسیات پر کھڑی ہے۔ آج تک کوئی ایسی جماعت نہیں بنی جو عوام نے بنائی ہو۔ اگر کوئی ایسی کوشش ہوئی بھی تو عہدِ طفولیت ہی میں دم توڑ گئی۔ پاکستان کی خالق جماعت بھی ایک نواب کے گھر میں بنی۔ زمین داروں اور جاگیرداروں نے اسے قوت بخشی۔ استثنا کے اصول کے تحت‘ قائداعظم مسلم لیگ کی قیادت تک پہنچ گئے اور وہ مسلم عوام کی ترجمان بن گئی۔ قائد عام آدمی نہیں تھے لیکن خواص میں سے ہونے کے باوجود‘ اعیانی طبقے کے مفادات کے نقیب نہیں تھے۔ پاکستان بن گیا مگر مسلم لیگ اور اقتدار جاگیرداروں کے قبضے میں رہے۔
یہی قصہ پیپلزپارٹی کا بھی ہے۔ مسلم لیگ کے بعد یہ دوسری جماعت تھی جسے عوامی کہا جا سکتا ہے۔ اس کی قیادت مگر جاگیرداروں ہی کے پاس رہی۔ تیسری بار عوام نے نوازشریف صاحب کا ساتھ دیا۔ انہوں نے بھی مسلم لیگ کو خاندانی جماعت بنائے رکھا اور عام آدمی کے لیے یہ موقع پیدا نہ ہوا کہ وہ قیادت تک پہنچ سکے۔ اب تحریکِ انصاف کا تجربہ بھی ہمارے سامنے ہے جس کا ایک شکار منصور صدیقی بنے۔
سیاست و اقتدار کے باب میں دوامورکو نظرانداز کرنا مشکل ہے۔ ایک یہ کہ تاریخ میں یہ ہمیشہ اعیانی طبقے ہی میں محصور رہے ہیں۔ مسلم تاریخ یہی بتاتی ہے اور غیر مسلم تاریخ بھی۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ عام آدمی تھے نہ ہی سیدنا عمر فاروقؓ‘ سیدنا عثمانؓ نہ سیدنا علیؓ۔ اللہ کے پیغمبر کی تربیت نے اگرچہ انہیں طبقاتی تقسیم سے بلند کر دیا تھا لیکن یہ سب بڑے خاندانوں کے لوگ تھے۔ یہ درست ہے کہ سماجی اعتبار سے کسی کا مرتبہ کم نہیں سمجھا گیا۔ حضرت بلالؓ تشریف لاتے تو سیدنا عمرؓ اٹھ کر استقبال کرتے اور انہیں 'سیدنا بلال ؓ‘ کہہ کر مخاطب کرتے۔ اقتدار مگر قریش ہی کے پاس رہا۔ دوسری بات عصبیت ہے۔ ریاستی استحکام اسی وقت میسر آتا ہے جب اقتدار اس گروہ کے پاس ہو جسے عصبیت حاصل ہے۔ جو لوگ عوام میں پذیرائی نہیں رکھتے‘ اگر انہیں اقتدار مل جائے توان کے تقویٰ کے باوجود‘ ریاست مستحکم نہیں ہو سکتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک عام آدمی کوکبھی یہ عصبیت حاصل ہو سکتی ہے؟
جمہوریت نے دو کام کیے۔ ایک یہ کہ سیاسی عصبیت کا محور خاندانوں کے بجائے جماعتوں کو بنادیا۔ دوسرا یہ کہ سیاسی جماعتوں کو ایک ایسے نظم کے تابع کر دیا جس میں عام آدمی کے لیے موقع پیدا ہوگیا کہ وہ اعلیٰ جماعتی اور نتیجتاً حکومتی مناصب تک پہنچ سکے۔ یہ تبدیلی ابھی تک علمی وکتابی زیادہ اور عملی کم ہے؛ تاہم اس میں یہ امکان پوشیدہ ہے کہ مستقبل میں یہ امرِ واقعہ بن جائے۔ جیسے جسے سماج کی شعوری سطح بلند ہوگی‘عام آدمی پر اقتدار کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔ پاکستان میں مگر یہ منزل بہت دور ہے۔ یہاں جمہوریت کو کسی نیپنپنے نہیں دیا۔ سیاسی جماعتوں کی تشکیل جمہوری اصولوں پر ہو سکی نہ ریاستی اداروں نے اس کی ضرورت کو سمجھا۔ یہ اقتدار کا بے رحم کھیل ہے۔ منصور صدیقی کیا‘ اس نظام میں تو حفیظ اللہ نیازی کے لیے کوئی جگہ ہے نہ محمد علی درانی کے لیے۔
منصور صدیقی کی رخصتی نے اداس کر دیا۔ انسان اپنی خوبیوں اور کمزوریوں کے ساتھ جیتا ہے۔ یہاں اس کی شخصیت زیرِ بحث نہیں۔ میں انہیں ایک سیاسی استعارے کے طور پر دیکھ رہا ہوں۔ وہ ایک سوال تھے اور بہت سے سوالوں کا جواب بھی۔ اگر آپ مڈل یا لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے اور سیاست کرناچاہتے ہیں تو اس طرح کی داستانیں ضرور پڑھتے اور سنتے رہیں۔ یہ دنیا اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک عبرت کدہ ہے۔