سیاسی نابالغوں کی ایک فوج غدار سازی کی مہم پر ہے۔ عالمی اور مسلم تاریخ تو ایک طرف، کاش یہ لوگ ملک ہی کی تاریخ سے کچھ واقف ہوتے۔
فواد چوہدری صاحب کی روایت پر بھروسا کیا جا سکتا تھا، اگر عمران خان صاحب خود سیاسی مخالفین پر یہ الزام نہ دھرتے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں یہ کہا کہ نوازشریف صاحب کے پیچھے بھارت ہے۔ قوالی اس کے بعد شروع ہوئی۔ وزرا اور مشیروں نے جو کہا، وہ اسی کی شرح میں کہا۔ افسوس یہی ہے کہ حکومتی سطح پر کہیں سیاسی بلوغت کے آثار نہیں۔
ریاست کا وظیفہ متعین ہے۔ عوام کے جان و مال کی حفاظت، اس کے وجود کا حقیقی جواز ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی حفاظت کو یقینی بناتی ہے۔ ان دروازوں کو بند کرتی ہے جہاں سے اس کی بقا کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ یہ خطرات خارجی ہوتے اور داخلی بھی۔ تاریخ یہ ہے کہ داخلی خطرات سے نمٹنا سب سے مشکل ہوتا ہے۔
اللہ کے آخری رسول سید محمدﷺ کا اسوہ اس باب میں بھی کامل نمونہ ہے۔ ریاست مدینہ کو خارجی خطرات تو درپیش تھے، داخلی خطرات بھی کم سنگین نہ تھے۔ عبداللہ ابن ابی اور اسکی آل نے جو کچھ کیا، عالم کے پروردگار نے اپنی آخری کتاب میں اسکا تذکرہ کیا ہے۔ سورہ احزاب ا ور سورہ حجرات بتاتی ہیں کہ یہ لوگ کیسے رسول اللہﷺ، امہات المومنین اور مسلمانوں کیلئے اذیت کا باعث تھے۔
رسول اللہﷺ نے عظیم قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ ان داخلی خطرات کا دروازہ بند کیا۔ یہ سیرت کا وہ روشن باب ہے جس کا مطالعہ حکمران طبقے کوضرور کرنا چاہیے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ریاست غدار پیدا نہیں کرتی۔ اگر کوئی ہو بھی تو اس کے ساتھ حکمت کے ساتھ معاملہ کرتی ہے تاکہ یہ مرض متعدی نہ بنے۔ یہ تو خیر الہامی بصیرت کا معاملہ ہے، دنیادار حکمران بھی اس کا شعور رکھتے ہیں، اگر انہیں علمِ سیاسیات سے کوئی شغف ہو۔
جنرل ضیاالحق نے ولی خان کے خلاف غداری کا مقدمہ ہی ختم نہیں کیا، نئے غدار پیدا کرنے سے بھی بڑی حد تک گریز کیا۔ جی ایم سید ''اب پاکستان کو ختم ہو جانا چاہیے‘‘ جیسی کتاب لکھ چکے تھے۔ اس کے باوصف، وہ ان کی عیادت کو گئے اور ان کو گلدستے بھجوائے۔ ایک آمر ہوتے ہوئے بھی، ان کو اس کا شعور تھاکہ جی ایم سید کو دیوار سے نہیں لگانا، انہیں واپس لانا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ اگر قوم پرست جماعتیں بھی مرکز کے خلاف ہو جاتیں تو وفاق کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے تھے۔ دوسری طرف غدار سازی کی صنعت میں سرمایہ کاری کرنے والے بھی کم نہیں رہے۔ اس کے نتائج بھی ہم نے بچشمِ سر دیکھے۔ اس کی ایک مثال شیخ مجیب الرحمن ہیں۔ پاکستان کی مخالفت ان کی گھٹی میں نہیں تھی۔ شیخ مجیب الرحمن دورِ طالب علمی میں تحریک پاکستان کاحصہ رہے۔ اس کے شواہد موجود ہیں کہ وہ آخری وقت تک پاکستان کو متحد رکھنا چاہتے تھے۔ ان کو اپنے چھ نکات پر بھی اصرار نہیں تھا۔
ہمارے ملک کے نامور صحافی اور منفرد انٹرویو نگار جناب الطاف حسن قریشی نے جون 1969ء میں شیخ مجیب الرحمن سے ایک انٹرویو کیا۔ یہ ''اردو ڈائجسٹ‘‘ کے جولائی 1969ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ یہ شدید بحران کے دن تھے۔ مغربی پاکستان کے سیاستدان اور دیگر طبقات انہیں غدار ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ یہ تاثر تھا کہ انہوں نے مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا کر دیے ہیں۔
قریشی صاحب نے جب اس تاثر کو سوال کی صورت میں ان کے سامنے رکھا تو شیخ مجیب الرحمن نے کہا ''نہیں قریشی صاحب، آپ کا گمان سو فیصد غلط ہے۔ ہمارے اور آپ کے عوام ایک ہیں اور ایک ہی رہیں گے۔ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی متحدہ کوششوں کے نتیجے میں دنیا کے نقشے پر ابھرا اور اس کا پرچم ان شااللہ ہمیشہ سربلند و سرفراز رہے گا۔ میرے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی چاہتا ہوں۔ یہ سراسر بہتان اور افترا ہے۔ اگر میرا منصوبہ اسے آزاد کرانے کا ہوتا تو میں 22 فروری 1969ء کو اس کا اعلان کر سکتا تھا۔ اس وقت مجھے روکنے والا کون تھا؟ میں نے ایسا نہیں کیا، کیونکہ (میں نے) پاکستان کی تشکیل میں اپنا خون دیا ہے اور میں وطن کی سلامتی کے لیے جدوجہد کرتا رہوں گا۔‘‘
اس پر الطاف حسن قریشی نے کہا ''مگر آپ کے چھ نکات تو کچھ اور کہتے ہیں؟‘‘اب مجیب الرحمن کا جواب دیکھیے ''قریشی صاحب چھ نکات قرآن اور بائبل تو نہیں اور ان پر نظرثانی کی جا سکتی ہے۔ میں آپ کو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ چھ نکات ظالم طبقے کے خلاف مظلوموں کی دلدوز آواز ہے۔ ہمیں مغربی پاکستان کے عوام سے کوئی کَد نہیں اور وہاں کی خوشحالی ہماری اپنی خوشحالی ہے۔ ہمیں اس طبقے سے نفرت ہے جس نے کبھی سرکاری افسروں‘کبھی صنعتکاروں کے روپ میں ہمارے حقوق پر ڈاکے ڈالے‘بد قسمتی سے انکا تعلق مغربی پاکستان سے ہے۔ یہ طبقہ مغربی پاکستان کے عوام کو بھی ظلم کی چکی میں پیس رہا ہے‘‘۔
اس انٹرویو میں چھ نکات کا تذکرہ ایک سے زیادہ بار ہوا۔ شیخ مجیب الرحمن نے دوبارہ کہا ''قریشی صاحب، میں سچے دل سے کہتا ہوں کہ چھ نکات قرآن اور بائبل نہیں۔ یہ تو میں نے سیاسی سمجھوتے کے لیے پیش کیے تھے، مگر بعض اخبارات اور بعض قائدین اسے ایک دوسرے ہی رنگ میں پیش کررہے ہیں۔ گفتگو اور بات چیت کے ذریعے ایک سیاسی سمجھوتے تک پہنچا جا سکتا ہے۔‘‘دوسری طرف گفتگو اور بات چیت کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ سب کو انہیں غدار بنانے کی جلدی تھی۔ افسوس کہ وہ اس کوشش میں کامیاب رہے۔ اس مثال سے یہ تاثر لینا درست نہیں ہوگا کہ مجیب الرحمن میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ کہنا یہ ہے کہ ریاست کبھی فریق بن کرنہیں سوچتی۔ وہ ایک بلند ترسطح سے افراد اور گروہوں کو دیکھتی ہے۔
آج غدار سازی کی اس مہم میں شبلی فراز بھی شامل ہیں، جن کے والد احمد فراز کو بھارتی ایجنٹ کہا گیا اور انکی حب الوطنی کے سامنے سوالیہ نشان کھڑا رہا جو بعض لوگوں کے نزدیک پسِ مرگ بھی قائم ہے۔ اسداللہ غالب کو تو مجنوں پہ سنگ اٹھاتے وقت اپنا سر یاد آیا، شبلی فراز کو پتھر مارتے وقت، احمد فراز یاد نہیں آئے۔ یہ تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کی افسوسناک مثال ہے۔
ہماری سیاسی جماعتوں کا معاملہ یہ ہے کہ لوگ کچھ کہنے سے پہلے لیڈر کا اشارۂ ابرو دیکھتے ہیں۔ وہ اس سے اخذ کرتے ہیں کہ انہیں کیا کہنا چاہیے۔ جو مختلف رائے رکھتے ہیں، وہ پہلے خاموش ہوتے‘ پھر راندۂ درگاہ ہو جاتے ہیں۔ تحریک انصاف کا معاملہ بھی یہی ہے۔ مختلف رائے رکھنے والے اور شائستگی سے بات کہنے والے کیلئے لیڈر کے دربار میں کوئی جگہ نہیں۔
سیاسی جماعتوں اور قومی اداروں کی سیادت و قیادت اگر بالغ نظر لوگوں کے ہاتھ سے نکل جائے تو بحرانوں سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بڑا منصب بڑے دل و دماغ کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ فرد ہو یا کوئی ادارہ خوئے انتقام اگر پالیسی بن جائے تو خسارہ ہی خسارہ ہے۔ میں ایک بار پھر ابن خلدون کے تصورِ عصبیت کا حوالہ دینے پر مجبور ہوں۔ جن لوگوں کو معاشرے میں سیاسی عصبیت حاصل ہو جائے، ان کے ساتھ عام آدمی کی طرح معاملہ نہیں کیا جا سکتا۔ شیخ مجیب الرحمن کے معاملے میں یہی بات سمجھی نہ جا سکی۔ افسوس کہ آج پھر اس کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ گورنر پنجاب جیسے کچھ حضرات کو اندازہ ہورہا ہے کہ غلطی ہو گئی۔ کاش حکمران طبقے کو معلوم ہو سکتاکہ یہ ایک غلطی نہیں، غلطی ہائے مضامین کا قصہ ہے۔ اس کی تلافی اب آسان نہیں۔ معاملات سیاسی نابغوں کے ہاتھ میں رہیں گے تو یہ سلسلہ دراز ہوتا رہے گا۔