نوازشریف صاحب اورمریم نوازصاحبہ نے اپنا مقدمہ اس شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے کہ کسی ابہام کا شائبہ باقی نہیں۔ اس کے باوصف، نون لیگ کا انتشارِ فکر ہے کہ ابھی باقی ہے۔ یہ دیوانگی ہے یا فرزانگی؟ انہیں کچھ سمجھ نہیں آیا یا جان کر انجان بن رہے ہیں؟
22 اکتوبر کا روزنامہ ''دنیا‘‘ میرے سامنے رکھا ہے۔ اس کے مطابق ''لیگی ترجمان مریم اورنگزیب کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ مریم نواز کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ قابلِ مذمت ہے‘ میں آرمی چیف سے درخواست کرتی ہوں کہ اس انکوائری میں مریم نواز کے کمرے پر حملے کی بھی تحقیقات کی جائیں‘‘۔ میں یہ بیان پڑھ کر سناٹے میں آگیا۔ اگر نون لیگ نے نوازشریف کے بیانیے کا یہی مفہوم سمجھا ہے تو پھر صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے۔
یہ حیرت ابھی باقی تھی کہ 23 اکتوبر کے اخبارات میں شاہد خاقان عباسی صاحب کے خیالات نظر نواز ہوئے۔ انہوں نے مریم اورنگزیب سے بالکل مختلف بات کہی۔ فرمایا ''ہوٹل [کا دروازہ] توڑنے کی تحقیقات آرمی چیف کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ آرمی ایکٹ کے تحت، آرمی چیف صرف اپنے افسران کی تفتیش کر سکتے ہیں۔‘‘ عباسی صاحب نے مزید کہا ''شواہد موجود ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کرنے کا حکم دیا‘‘۔ انہوں نے کراچی واقعے کی تمام ذمہ داری ایک وفاقی وزیر پر ڈالی۔
دوسری طرف مریم نواز صاحبہ اپنے موقف میں پوری طرح واضح ہیں۔ 23 اکتوبر کوانہوں نے لاہور میں احتجاج کرنے والے بلوچ طلبا کے ساتھ ملاقات کی۔ اس موقع پرانہوں نے کراچی کے واقعہ کے حوالے سے کہا ''جمہوریت میں اس کا نوٹس حکومت اور عدلیہ کو لینا چاہیے، کسی اور کو نہیں‘ جمہوریت میں حکومت اور عدلیہ کے علاوہ کسی اور سے اپیل بھی نہیں کرنی چاہیے‘‘۔ کیا یہ بات مزید شرح کی محتاج ہے؟
ہماری سیاسی جماعتیں مدت سے اقتدار کی سیاست (Power Politics) کرتی آئی ہیں۔ کوئی بڑا آدرش، بیانیہ، نصب العین ان کے پیشِ نظر نہیں رہا۔ نظریاتی سیاست تو اکیسویں صدی میں دم توڑ چکی۔ طرزِ کہن کی خوگر جماعتوں کے لیے، یہ آسان نہیں کہ وہ پاور پالیٹکس سے یکدم بیانیے کی سیاست میں داخل ہو جائیں۔ مجھے خیال ہوتا ہے کہ نوازشریف صاحب نے ماضی میں جس طرح پارٹی کو نظر انداز کیا اور اس کی تنظیم اور تربیت سے صرفِ نظر کیا، یہ انتشارِ فکر اسی کا شاخسانہ ہے۔
نوازشریف صاحب نے ایک فیصلہ کیا۔ انہوں نے اقتدار کے بجائے بیانیے کی سیاست کا علم اٹھایا۔ اس تبدیلی سے پہلے لازم تھا کہ پارٹی کے لوگوں کو اِس کے لیے تیار کیا جا تا۔ انہیں بتایا جاتا کہ ان کی سیاست کا ہدف اب کون ہے اور یہ ایک انتخابی معرکہ نہیں، اس سے کہیں سخت ہے۔ اس میں جاں کا زیاں بھی ہو سکتا ہے۔ انہیں بتانا چاہیے تھا کہ ''ہر راہ جو اُدھر کو جاتی ہے، مقتل سے گزر کر جاتی ہے‘‘۔
یہ کام نہیں کیا گیا۔ پھر شہبازشریف صاحب کی تمام ترسیاست یہی پاور پالیٹکس تھی۔ ان کی حکمتِ عملی کی ناکامی کے بعد، نون لیگ کے پاس ایک ہی راستہ باقی تھا: مزاحمت۔ میرے نزدیک تو پہلے ہی دن سے یہی راستہ تھا لیکن شہباز شریف صاحب نے اپنی مہارت کو آزمانا چاہا۔ یہ ممکن تھاکہ اس دوران میں نون لیگ کومزاحمت کیلئے بھی تیار کیا جاتا کہ نوازشریف اپنا بیانیہ پیش کر چکے تھے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ مریم اورنگزیب کی درخواست کا سن کر اندازہ ہورہا ہے کہ نون لیگ کو اپنے ہدف کے بارے میں یکسو ہونے کی کتنی ضرورت ہے۔
نون لیگ کا چیلنج صرف یہ نہیں کہ اس جماعت کے رہنما اور کارکن اپنی منزل اور اس کے راستے کی مشکلات سے باخبر ہوں۔ اس کا چیلنج یہ بھی ہے کہ وہ عوامی سطح پران غلط فہمیوں کا ازالہ کرے جو نوازشریف کے بیانیے کے بارے میں پھیلائی جارہی ہیں۔ مثال کے طور پہ یہ پروپیگنڈا کہ یہ بیانیہ اداروں کو ہدف بنانا چاہتا ہے۔
عوام میں آگاہی کی ایک مہم چلانا چاہیے کہ یہ ایک مثبت بیانیہ ہے، منفی نہیں۔ یہ آئین کی بالا دستی اور وفاقی اکائیوں کو جمع کرنے کا بیانیہ ہے۔ یہ اداروں کے احترام کا بیانیہ ہے۔ اداروں کا احترام اُسی وقت ممکن ہوتا ہے جب آئین کی طے کردہ حدود کا احترام ہوتا ہے۔ افراد جب انحراف کرتے ہیں تو ادارے کی سلامتی کے لیے لازم ہو جاتا ہے کہ ان کے خلاف اقدام کیا جائے۔ اس سے اداروں کا احترام قائم ہوتا ہے، ختم نہیں۔
ہر ادارے میں احتساب کا ایک نظام ہوتا ہے۔ فوج اپنے منحرفین کا کورٹ مارشل کرتی اور انہیں موت کی سزا بھی سناتی ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ افراد کے لیے پورے ادارے کی ساکھ کو برباد نہیں کیا جا سکتا۔اسی طرح سیاسی جماعت ہے۔ اگر کوئی سیاسی رہنما کسی جرم میں ملوث ہے تو سیاسی جماعت کے وقار کیلئے لازم ہے کہ وہ اس سے اپنی صفوں کو پاک کر دے۔
سیاسی جماعتیں اگر ایسا نہیں کرتیں توقوم کی نظر میں اپنی ساکھ کھو بیٹھتی ہیں۔ کوئی سیاسی یا غیرسیاسی ادارہ جب خود احتسابی نہیں کرتا یا ریاست کا نظامِ عدل اس بارے میں غیر حساس ہو جاتا ہے تو پھر نظام باقی نہیں رہ سکتا۔ یہی نوازشریف کا بیانیہ ہے اور لازم ہے کہ اس کا ابلاغِ عام ہو تاکہ اس پروپیگنڈے کا سدِباب ہوتا جواس بیانیہ کا ہدف کسی ادارے کو قراردیتا ہے۔
یہ کام ظاہر ہے نون لیگ کو کرناہے۔ اس کی میڈیا ٹیم کو اس کیلئے حکمتِ عملی بنانی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ہتھیار دلیل، مکالمہ اور ابلاغ ہی ہوتے ہیں۔ یوں بھی بیانیوں کی لڑائی تیر و تفنگ اور بندوق سے نہیں لڑی جاتی۔ اس لڑائی کا ہدف زمین یا جسم نہیں، ذہن ہوتے ہیں۔ نون لیگ کو دیکھنا ہے کہ اس نے جس معرکے کا آغاز کیاہے، اس کو لڑنے کے لیے،اس کے پاس کون سے ہتھیار ہیں؟
نون لیگ یہ معرکہ اسی وقت لڑ سکتی ہے جب اس کی قیادت انتشارِ فکر سے پاک ہو۔ اسے معلوم ہوکہ اس وقت پاور پالیٹکس اُس کا ثانوی مقصد ہے۔ اگر وہ بیانیے کی جنگ ہارتی ہے تو پاور پالیٹکس سے بھی باہر ہو جائے گی۔ عوام کو اس کیلئے قائل کرنے سے پہلے لازم ہے کہ قیادت خود اس پراگندگیٔ فکر سے نجات پائے۔ اسے یہ معلوم ہوکہ یہ اپیلوں اور درخواستوں کا وقت نہیں۔
سیاسی جماعتیں مذہبی فرقہ (cult) نہیں ہوتیں کہ ان کی قیادت پر بالغیب ایمان لایاجایا اور ان کے کہے کو ہر حال میں سچ مانا جائے۔ عوام میں اپنی جگہ بنانے کے لیے انہیں اپنامقدمہ ثابت کرنا پڑتا ہے۔ انہیں دلیل سے مدد لینا پڑتی ہے۔ انہیں سوالات کے جواب دینا پڑتے ہیں۔ ہونا بھی یہی چاہیے۔ یہی چیز جمہوریت کو انسانوں کا واحد انتخاب بناتی ہے۔
نون لیگ کو اب ابلاغِ عام کرنا ہے کہ ریاست بالائے ریاست کیا ہوتی ہے؟ یہ ایک بڑا معرکہ ہے۔ بڑے معرکے، بڑی تیاری کے متقاضی ہوتے ہیں۔ نوازشریف صاحب نے صحیح کہا تھاکہ یہ بزدل لوگوں کا کام نہیں۔ انہیں اب بتانا چاہیے کہ یہ کند ذہن لوگوں کا کام بھی نہیں۔ جو نصب العین کی سیاست اوراقتدار کی سیاست کا فرق نہیں جانتے، ان کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ اقتدار ہر سیاسی جدوجہد کے اہداف میں شامل ہوتا ہے۔ اس سے مفر نہیں؛ تاہم اصل اور ثانوی مقصد کا فرق ضرور سامنے رہنا چاہیے۔
نون لیگ اگر نوازشریف کے بیانیے پرفکری یکسوئی کے ساتھ کھڑی رہتی ہے تو تاریخ میں اس کا وہی مقام ہو گا جوآل انڈیا مسلم لیگ کا تھا۔ مدت کے بعد کسی نے مرض کی درست تشخیص کی ہے۔ نون لیگ کو سمجھنا ہوگا کہ اس کا علاج بھی صبر آزما ہے۔ ہمیں علامت نہیں، بیماری کو ختم کر نا ہے۔