"KNC" (space) message & send to 7575

تحفظِ حرمتِ رسولﷺ

کوئی ہے جو فرانس کے صدر کو بتائے کہ ردِ عمل میں جینے والا خود کو خیر سے محروم کر لیتا ہے۔ 
ربیع الاوّل کے دن ہیں۔ مسلم دنیا اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کی یاد سے مہک رہی ہے۔ گلیوں میں چراغاں ہیں۔ عمارتیں قمقموں سے روشن ہیں۔ یہی نہیں، یہ چراغ دل کے نہاں خانوں کو بھی پُرنور بنائے ہوئے ہے۔ فرانس کے صدر سمیت کتنے ہیں جو اس روشنی سے محروم ہیں؟
فرانس کے کسی مسلمان شہری نے اگر کوئی اقدام کیا تو ساری امتِ مسلمہ، اس کی ذمہ دار کیسے ہو گئی؟ فرانس کے صدر کو یہ حق کیسے مل گیاکہ وہ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے دل زخمی کریں؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ دنیا میں کوئی آزادی مطلق نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا توان کے ردِ عمل کاجواز کیاتھا؟ فرانس کے طالب علم نے اس کے سوا کیا کیا کہ اپنا حقِ آزادی استعمال کیا؟
آپ اس استدلال کو قبول نہیں کرتے کہ کسی کی جان لینے کا حق کسی کو نہیں۔ بجا ارشاد، لیکن کسی بے گناہ کا دل دکھانے کا حق آپ کوکیسے مل گیا؟ فرانس کے صدر کا ردِ عمل ایک فردِ واحد کا ردِ عمل نہیں ہے۔ اسے ایک ملک کا سرکاری موقف سمجھا جائے گا۔ بالکل ایسے ہی جیسے فرانس نے ترکی کے صدر کی بات کو ایک فردِ واحد کی بات نہیں سمجھا، ایک ملک کا موقف جانا اور وہاں سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا۔
رسالت مآب سیدنا محمدﷺ کی اہمیت مسلمانوں کیلئے وہی ہے جو عالمِ مسیحیت کیلئے سیدنا مسیحؑ کی ہے۔ آپﷺ کی ذات والاصفات کم وبیش دوارب لوگوں کی محبت و عقیدت کی محور ہے۔ لبرل ازم کے پیمانے پربھی اس بات کا حق کسی کو نہیں کہ وہ کسی ایسی ہستی کی توہین کرے جسے ایک گروہ کے ہاں تقدس حاصل ہے۔ فرانس کے صدر نے خاکوں کی حوصلہ افزائی کرکے دراصل ایک غیر اخلاقی اقدام کو ریاست کی تائید فراہم کی ہے۔
جدید دور کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے پہلے بھی امریکہ، فرانس، ڈنمارک اورناروے جیسے ممالک میں ایسے واقعات ہوئے۔ اس واقعے اور دوسرے واقعات میں مگرایک جوہری فرق ہے۔ پہلے واقعات انفرادی تھے۔ حکومتوں نے اس کی تائید نہیں کی۔ بعض حکومتیں ایسی بھی تھیں جنہوں نے ایسے واقعات سے اعلانیہ اظہارِ برات کیا۔ نیوزی لینڈ کی و زیراعظم نے تو خیر کمال کیا۔ اسی طرح ناروے کی حکومت نے ایسے فسادیوں سے اظہارِ لاتعلقی کیا۔ مسلمان دنیا نے بھی فی الجملہ ان حکومتوں کے خلاف کوئی ردِ عمل نہیں دیا۔
اب صورتحال دوسری ہے۔ ایک ملک کے صدر نے ایک موقف اختیار کیاہے اور مسلمان حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا ردِ عمل دیں۔ یہ ردِ عمل ایسا ہو نا چاہیے جو ایک طرف اسلامی اخلاقیات کا مظہر ہو اور دوسری طرف موثر بھی ہو۔ فرانس کے ساتھ دوسرے ممالک کو بھی یہ پیغام ملے کہ اس طرح کاطرزِ عمل ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں۔
سفارتی سطح پراظہارِ ناراضی کے کئی مروجہ طریقے ہیں۔ ایک طریقہ وہ ہے جو پاکستان نے اختیار کیاکہ سفیر کوبلا کراپنا ردِ عمل دیا۔ ایک طریقہ باہمی تجارت کا انقطاع ہے۔ سب سے موثر یہی ہو سکتا ہے کہ او آئی سی کی سطح پر ردِ عمل سامنے آئے۔ اُس کے موثر ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں۔ مسلمان حکمرانوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اس موقع پر دینی حمیت کا مظاہرہ کریں۔ عرب حکمرانوں پر تو ردِعمل کا اظہار دینی فریضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے شہادتِ حق کے منصب پر فائز کیا گیا ہے۔ شہادتِ حق کی ایک صورت یہ ہے کہ دین، قرآن مجید یا اللہ کے آخری رسولﷺ کی حرمت کے دفاع کا معاملہ ہو تووہ اس کے محافظ بن کر کھڑے ہو جائیں۔ اللہ کا دین کسی کا محتاج نہیں ہے لیکن اگر کوئی خدا کی طرف سے عائد ذمہ داری پوری نہ کرے تو اسے اللہ کے حضور میں جوابدہی کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ بنی اسرائیل نے جب خدا کے ساتھ عہد کو وفا نہیں کیا تو ان کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ بنی اسماعیل کیلئے بھی اللہ کا قانون یہی ہے۔
مسلمانوں کا ردِ عمل جو بھی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی متعین حدود کے اندر اور اس کے دین کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہم گالی کا جواب گالی سے نہیں دے سکتے۔ ہم قانون کے بغیر کسی کی جان نہیں لے سکتے۔ ہمارے لیے نمونہ تو وہ ہستی ہے جو مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوئی۔ ایسی ہستی کے ماننے والے پست اخلاق نہیں ہو سکتے۔ ہمارا ردِ عمل جو بھی ہو، بین الاقوامی معاہدات کے مطابق اور سفارتی آداب کے لحاظ سے ہو۔
لبرلز کیلئے بھی اس واقعے میں ایک سبق ہے۔ لبرل ازم انسان کی آزادی اور حقوق کا علمبردار ہے۔ مجھے اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ جب مذہب کا معاملہ ہو تو لبرلز کے ہاں توازنِ فکر باقی نہیں رہتا۔ انہیں اس شخص کی حرمت اور جان کی پروا ہوتی ہے جودریدہ دہن ہو لیکن جب معاملہ ایک ایسی ہستی کی حرمت کا ہو جس کے ساتھ کروڑوں لوگوں کے جذبات وابستہ ہوں تو ان کے بارے میں ان کی اس حساسیت کا اظہار نہیں ہوتا۔ فرانس کے صدر خود کو لبرل کہتے ہیں مگر چند واقعات کے ردِعمل میں جس طرح بدتمیزی کی حمایت میں کھڑے ہوگئے ہیں، یہ رویہ خود لبرل اقدار سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
سب سے بڑا سبق تو خود مسلمانوں کیلئے ہے۔ ہم نے دنیا کو اس ہستی سے متعارف کرانے کیلئے کس حد تک اپنی ذمہ داری ادا کی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے عالمین کیلئے رحمت بنایا ہے اور ہم جن پر ایمان لانے کے دعویدار ہیں؟ ہم نے کتنی کوشش کی ہے کہ صدر ایمانوئل میخواں جیسے لوگوں کو معلوم ہو کہ جس شخصیت کے خاکے بنائے جا رہے ہیں وہ پوری انسانیت کی محسن ہے؟ ہماری سیرتوں میں اس ہستی کی سیرت کا کتنا عکس ہے جو اخلاق کا عظیم الشان نمونہ تھے؟
اس وقت میرے سامنے، 2017 ء کی سیرت پر اوّل صدارتی ایوارڈ یافتہ کتاب ''سیرتِ سیدالابرارﷺ‘‘ رکھی ہے۔ اس کے مصنف منیراحمد خلیلی ایک محقق اور عالم تو ہیں ہی مگر میرے لیے بڑے بھائیوں جیسے ہیں۔ سیرت پر اُن کی دوسری کتاب ''تکمیلِ مکارمِ اخلاق‘‘ بھی اس سال ایوارڈ کی مستحق قرار پائی۔ انہوں نے اپنی پہلی کتاب کا اختتام ''دفاعِ حرمتِ رسول‘‘ کے باب پر کیا ہے۔
دیکھیے، خلیلی صاحب کیسے اصل مسئلے کی نشاندہی کرتے ہیں ''غیر مسلم دنیا میں گستاخانہ لہروں کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ [ہم] دنیا کو یہ بتانے میں ناکام رہے ہیں کہ قرآن مسلمانوں کی کتاب نہیں، بلکہ یہ ساری انسانیت کے لیے سامانِ ہدایت ہے۔ محمدﷺ صرف ہمارے نبی نہیں، بلکہ ساری کائنات کے لیے رحمت بن کر آئے تھے‘‘۔ وہ ہمیں متوجہ کرتے ہیں ''سرورِ عالم سے محبت اور آپ کی تعظیم و حرمت کے دفاع کا معاملہ، اضطراب و ہیجان، جذباتیت اور اشتعال سے زیادہ گہرے غوروفکر کا متقاضی ہے۔ جوش اور غیظ و غضب کا غلبہ ہو تواکثر حکمت، موعظۃ الحسنہ اور 'جادلھم بالتی ھی احسن‘ کے قرآنی اصول مجروح ہو جاتے ہیں اور یہ چیز الٹی اسلام اور پیغمبرِ اسلامﷺ کے لیے طعنہ بن جاتی ہے... حضورﷺ کے اخلاق اور مثالی کردار نے ہمارے جذبات اور احساسات کے گرد ایک دائرہ کھینچا ہوا ہے۔ ہمیں کسی بھی صورت میں اس دائرے سے باہر نہیں نکلنا ہے‘‘۔
منیر خلیلی صاحب نے جن جملوں پرکتاب کااختتام کیاہے، وہی اس کالم کا پیغام بھی ہے ''اطاعت اور اتباع ہی ادعائے عشق کا اور دعویِٰ محبت کی میزان ہے۔ اگر یہ دعویٰ اور زعم اور ادعا، اطاعت و اتباعِ کے مقیاس پر پورا نہیں اترتا تو باطل ورائیگاں ہے۔ اگر کسی کو اطاعت و اتباعِ کامل کا برتا نہیں تو حرمتِ نبی پر اظہارِ غیرت کے لیے صرف زبانی شعلہ باری اور جلسوں جلوسوں میں نمائشی آتش فشانی غیر معتبر ہے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں