چند دن پہلے، میں ایک مختلف تجربے سے گزرا۔
ربیع الاوّل کے ابتدائی ایام تھے۔ ایک شام جب میں گھر لوٹا تو اپنی گلی کے نکڑ پر ایک بڑا بینر آویزاں دیکھا ''جشنِ عید میلادالنبی مبارک‘‘۔ 'منجانب‘ کی فہرست میں، سب سے پہلے میرانام لکھا تھا۔ میرے لیے یہ غیرمتوقع تھا اور عجیب بھی۔ ایک لمحے کو میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ یہ ردِ عمل کیوں ہوا، بعد میں عرض کروں گا۔ گھر پہنچا تو بیٹے نے ایک محلے دار کے بارے میں بتایا کہ وہ آئے تھے اور آپ کا پوچھ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ بتائے بغیر آپ کے ابو کا نام بینر پہ لکھوا دیا ہے‘ انہوں نے برا تو نہیں مانا؟ میں بیٹے کی بات سن کر ایک دفعہ پھر مسکرا دیا۔ اس کے بعد لیکن میرے دل ودماغ میں ایک کشمکش شروع ہوگئی۔ شریعت، بدعت، محبت، جذبات، ان گنت تصورات نے اپنے اپنے دلائل کے ساتھ میرا محاصرہ کر لیا۔
میں چند دن اِن کے درمیان گھرارہا۔ کبھی ایک کا پلا بھاری دکھائی دیتا اورکبھی دوسرے کا۔ اس دوران میں کچھ کتابوں کی طرف بھی رجوع کیا۔ بینر میری نظروں سے اوجھل نہیں ہورہا تھا۔ مسکراہٹ ایک سنجیدہ فکری عمل میں ڈھل گئی تھی۔ ایک شام چند دوست ملنے آئے توانہوں نے بھی بینردیکھا۔ وہ میرے خیالات اور مزاج سے واقف تھے۔ انہیں بھی یہ سب عجیب لگا۔ ایک نے فیس بک پر بینر کی تصویرلگا دی۔ بینر اب دوستوں کے ایک بڑے حلقے میں بھی موضوع بحث بن چکا تھا۔ میرے خیالات بھی نتیجے کی طرف بڑھ رہے تھے۔
میری افتادِ طبع ایسی ہے کہ مذہب میں مجھے ہمیشہ مصلحین(Reformers) ہی نے اپنی طرف زیادہ متوجہ کیا۔ والدِگرامی ٹھیٹھ دیوبندی عالم تھے جودین میں کسی ادنیٰ اضافے کو قبول نہیں کرتے تھے۔ بدعت کا ایک سخت گیر تصور ابتدا ہی سے ذہن میں راسخ تھا۔ بڑا ہوا تو مصلحین کی تحریروں نے اسے مزید پختہ کر دیا۔ دورِ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوا تواس نے معاملے کو سہ آتشہ بنا دیا۔
دیوبندی پس منظر تو پہلے سے تھا۔ اب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی جیسے مصلح کے افکار حرزِ جاں بنے۔ تیسرا یہ کہ میں اسلام آبادکے ایک کالج میں پڑھتا تھا اور شہر کے نظم پر اسلامی یونیورسٹی کے طلبا کا غلبہ تھا۔ یہ لوگ سلفی خیالات سے متاثر تھے۔ انکی صحبت سے تیسرا رنگ بھی شامل ہوگیا۔ پہلے دیوبندی، پھر فکرِ مودودی اور اس پر سلفی۔ بتیس سال سے جاوید احمد غامدی صاحب کے فکری کھونٹے سے بندھا ہوں۔ دین پر غور کا یہ منہج بھی اصلاً وہی ہے جو مصلحین کا ہے۔
اس مختصر روداد سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس طرح کے بینرز کے بارے میں کیا ذہن تشکیل پایا ہوگا اور میرا پہلا ردِ عمل مسکراہٹ کی شکل میں کیوں نمودارہوا؟ اس بینر نے لیکن میرے خیالات کو بہت متاثر کیا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پہلے سے ذہن میں محفوظ، بعض مشاہدات اورخیالات کو، اس بینر نے ایک نتیجے تک پہنچانے میں میری مدد کی۔
بیسویں صدی میں، برصغیر میں تجدید و احیائے دین کی جو تحریک ابھری، اس پر امام ابن تیمیہ کا رنگ غالب تھا۔ اس کا نقشِ اوّل مولانا ابوالکلام آزاد ہیں۔ عام طور پر 'مجدد الفِ ثانی‘، شیخ احمد سرہندی کو مانا جاتا ہے اور شاہ ولی اللہ کو تجدید کی اس تحریک کا نقطہ عروج۔ مولانا مودودی ان بزرگوں کی خدمات کے اعتراف کے باوجود، یہ رائے رکھتے ہیں کہ تصوف کے باب میں ان حضرات نے ٹھوکر کھائی، اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والے مسائل کا، وہ پوری طرح ادراک نہ کر سکے۔ مولانا مودودی، مولانا آزاد سے متاثر ہوئے اور امام ابنِ تیمیہ سے بھی۔ ابنِ تیمیہ عرب کلچرکو بھی مذہبی روایت کا حصہ سمجھتے ہیں۔ مولانا آزاد کے ہاں اصلاح یا ریفارم کا جو تصور ہے، اس پر امام ابن تیمیہ اور امام محمد بن عبدالوہاب کے افکار کا عکس ہے۔ اس میں عجمی رسم و رواج کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ محمد بن عبدالوہاب کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ فکرِ ابنِ تیمیہ ہی کا تسلسل ہیں۔
اس فکر کے زیرِ اثر بدعت کی ایک ایسی تعریف کو فروغ ملا جس میں کسی رواج کا عجمی یا غیر عرب ہوناہی، اس کے بدعت ہونے کے لیے کفایت کرتا ہے۔ یہاں کے مسلمانوں نے مقامی معاشرت سے متاثر ہوکر مذہبی جذبات کے اظہار کے لیے بہت سے ایسے طریقے اپنالیے جوعرب میں مروج نہیں تھے۔ مصلحین کی شدت پسندی نے انہیں بھی بدعت بنا دیا۔
اس باب میں صوفیا کا طرزِ عمل دوسرا رہا۔ انہوں نے مقامی روایات کو قبول کیا اور ان کے پیرائے میں دینی افکار کا اظہارکیا۔ اس کا یقیناً نقصان ہوا اور ایسے امور دین میں در آئے جن سے توحید و رسالت جیسے بنیادی تصورات پر زد پڑتی تھی؛ تاہم ان میں اصلاح کے نام پر جو سختی روا رکھی گئی، وہ تحریکِ اصلاح کومقبول بنانے میں مانع ہوئی۔ یہی سبب ہے کہ تحریکِ اصلاح کبھی برِصغیر کی پاپولر تحریک نہیں بن سکی۔
میرا احساس ہے کہ مصلحین کو اس حوالے سے اپنے خیالات پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ کسی امر کو دین قراردینا پیغمبر ہی کا منصب ہے۔ آپﷺ کی سند کے بغیر جو چیز دین سمجھ کر اختیار کی جائے گی، وہ بدعت ہوگی؛ تاہم اگر دینی جذبات کے اظہار کیلئے کوئی ایسا طریقہ یا رسم اختیار کر لی جاتی ہے جواسلام کے صدرِ اوّل میں نہیں تھی اور اسے دین بھی قرار نہیں دیاجاتا، تو ایسے طریقے یا رسم کو بدعت نہیں کہنا چاہیے۔ مثال کے طور پر رسالت مآبﷺ نے عیدین کو بطور دین امت میں رائج کیا۔ عیدالفطر اور عیدالاضحی۔ اب کوئی یہ اختیارنہیں رکھتا کہ اسلام میں کسی تیسری عید کااضافہ کرے؛ تاہم اگر کوئی رسول اللہﷺ کی دنیا میں تشریف آوری کو 'منانا‘ چاہتا اور اظہارِ مسرت کرنا چاہتا ہے تو اسے بدعت قرار دے کر روکا نہیں جانا چاہیے، اگر وہ اسے دین کا حکم نہیں قراردیتا۔ اس کے لیے ممکن ہے کہ وہ کوئی ایسا طریقہ اختیار کرے جو مقامی ہو۔ اگر اس میں کوئی بات خلافِ دین نہیں تو اسے اپنانے میں کوئی حرج نہیں۔
بینر ہی کی مثال کو لے لیجیے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اسلام کے دورِ اوّل میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ملتا کہ لوگوں نے ولادتِ رسولﷺ کے موقع پر بینر لگائے تھے تو یہ بات واقعاتی طور پر درست ہونے کے باوجود، اس لیے قابلِ قبول نہیں کہ بینر دورِ جدید میں رواج پانے والا ابلاغ کا ایک طریقہ ہے جس میں کوئی چیز دین کے کسی حکم کے خلاف نہیں۔ ہاں، اگر کوئی یہ کہے کہ بینر لگانا دین ہے تو اس سے اختلاف کیا جائے گا۔خوشی اور غم کے اظہار کیلئے، مقامی سماجی روایات اور رسوم اختیار کرنے میں کوئی چیزمانع نہیں، اگر وہ دین کی کسی تعلیم کے خلاف نہیں۔ اسلام ہمیں یہ نہیں سکھاتا کہ ہم جس سماج کا حصہ ہیں، اس سے کٹ کر رہیں‘ توحید و رسالت اور آخرت کے باب میں ادنیٰ درجے کا تساہل اور مصلحت گوارا نہیں ہونی چاہیے لیکن جذبات کے اظہار کیلئے، وہ مذہبی ہوں یا سماجی، کوئی اسلوب بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ مصلحین کو اس بارے میں ضرور غورکرنا چاہیے۔
رسالت مآبﷺ کی دنیا میں تشریف آوری پر اگر مسلمان خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور اس کے لیے کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کرتے جو دین کے کسی حکم سے متصادم ہے تو ایسے طریقوں کو بدعت قراردینے میں عجلت اور تساہل سے کام نہیں لیناچاہیے۔ ان طریقوں میں بہت سی باتیں ذوقی ہیں۔ ممکن ہیں، بعض آپ کو پسند نہ ہوں لیکن کسی طریقے کا دینی یا غیر دینی ہونا کسی کی پسند یاناپسند پر منحصر نہیں۔ جب بارہ ربیع الاوّل کا دن آیا تو میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ وہ کوئی میٹھا پکائے اور محلے کے سب گھروں کو بھیجے۔ میں اپنے مسلمان محلہ داروں کی خوشی میں شریک ہونا چاہتا ہوں جو سانجھی ہے۔ میری گلی کی نکڑ پر، وہ بینر اب بھی آویزاں ہے۔ میں اسے دیکھتا ہوں تو دل ہی دل میں اپنے محلے داروں کاشکریہ ادا کرتا ہوں۔