حکومت پر تنقید اپوزیشن کا کام ہے، لیکن اس کی ذمہ داریاں اس کے سوا بھی ہیں۔ ان کا تعلق ریاست اور سماج، دونوں سے ہے۔
عوام اور جمہوریت کی حفاظت ایک قومی فریضہ ہے۔ ایسا فریضہ جو حکومت اور اپوزیشن، دونوں پر عائد ہوتا ہے۔ تنہا حکومت کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اس میں شبہ نہیں کہ حکومت جمہوری اقدار سے وابستگی کاکوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی۔ اڑھائی سالہ کارکردگی کی بنیاد پر یہ بات پورے اطمینان کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ جمہوریت اس کا مسئلہ ہی نہیں۔ خان صاحب کا آئیڈیل چین کا سیاسی نظام ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایک جماعت کی آمریت۔
جمہوریت اختلافِ رائے کے احترام کانام ہے۔ یہ دوسروں کے وجود کو تسلیم کرنا ہے۔ یہ معاملات کو مکالمے سے حل کرنے کافن ہے۔ جمہوریت میں یہ ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ مکالمے کی فضا پیدا کرے۔ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اپوزیشن نے بارہا تعاون کیلئے ہاتھ بڑھایا‘ مگر اسے تکبر کے ساتھ جھٹک دیا گیا۔ اس کا حکومت کو نقصان ہوا کہ وہ سیاسی عمل سے بے دخل ہوگئی۔ اب لوگ حکومت کے بجائے،براہ راست اس کے سرپرستوں سے معاملہ کرتے ہیں۔
اس رویے سے لیکن جمہوریت کو بھی بہت نقصان پہنچا۔ اب اپوزیشن کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھاکہ اپنی بقا کیلئے براہ راست عوام سے رابطہ کرے۔ اُس نظام کے خاتمے کی بات کرے، جو اس کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہاہے۔ اس نظام کے حوالے سے نون لیگ اور پیپلزپارٹی مولانا فضل الرحمن کے ہم خیال نہیں تھیں جو پہلے ہی دن سے استعفوں کے حامی تھے۔ اسی طرح جب مولانا نے حکومت کے خاتمے کیلئے لانگ مارچ کیا تو بھی ان بڑی جماعتوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ دونوں بڑی جماعتیں یہ چاہتی تھیں کہ یہ نظام چلتا رہے۔ اب حالات نے ان جماعتوں کو بھی مولانا کا ہم خیال بنا دیا ہے۔
بڑی جماعتوں کے اِس کردار کو سراہنا تو درکنار، حکومت نے اسے ان جماعتوں کی کمزوری جانا اور ان پر عرصہ حیات مزید تنگ کردیا۔ اس کے بعد اب اپوزیشن کے پاس احتجاجی سیاست کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا؛ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ اپوزیشن جمہوریت اور عوام کے مفاد کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے احتجاج کرے۔ احتجاج کی سیاست بھی اخلاقی ضابطوں کی پابند ہوتی ہے، جن سے اِس وقت صرفِ نظرکیاجا رہا ہے۔
پہلی بات کورونا کا پھیلاؤ ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ حکومت اس مسئلے کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کررہی ہے، لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے اور عوام اس کی زد میں ہیں۔ اگر اپوزیشن محض حکومت کی مخالفت میں، عوامی مفاد سے بے نیاز ہوکر عوامی اجتماعات کرتی ہے تو یہ رویہ بھی ایسا نہیں جس کی تائید کی جائے۔
سب کو معلوم ہے کہ یہ ایک جان لیواوبا ہے۔ فرد سے فرد تک پہنچتی ہے۔ اس کو روکنے کی واحد صورت یہ ہے کہ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھا جائے۔ گویا عوامی اجتماعات سے ہرصورت گریزکیا جائے۔ موجودہ حالات میں شادی بیاہ میں شرکت تو ایک طرف، لوگ اپنے عزیزوں کے جنازوں میں شریک نہیں ہورہے۔ اس صورتحال میں جلسوں پراصرار کا مطلب یہی لیا جائے گا کہ آپ کی نظر میں عوام کی جان کی کوئی حیثیت نہیں۔
کورونا پر اپوزیشن کی دلیل بہت کمزورہے۔ یہ کسی مناظرے میں تو کام آ سکتی ہے، عقل و خرد کی مجلس میں نہیں۔ اگر حکومت سے مناظرہ کرناہے تو اپوزیشن کا موقف مضبوط ہے لیکن یہاں معاملہ حکومت کا نہیں، سماج اور عوام کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس حوالے سے اپوزیشن کی کوئی ذمہ داری ہے؟ اگر ہے توکیا ہے؟ اگر یہ معلوم ہوکہ عوامی اجتماع کا مطلب ایک مقتل آباد کرنا ہے توکیا اس کے بعد بھی جلسے پراصرار کیا جانا چاہیے؟
احتجاج اپوزیشن کاحق ہے لیکن یہ دوسروں کے حقوق کے ساتھ مشروط ہے۔ کوئی حق مطلق نہیں ہوتا۔ وہاں ہمارا حق ختم ہو جاتا ہے جہاں دوسروں کے لئے ضرر کا امکان پیدا ہو جائے۔ حرکت کی آزادی میرا بنیادی حق ہے لیکن یہ وہاں ختم ہوجاتا ہے جہاں سے دوسروں کا صحن شروع ہوتا ہے۔ اجتماع اپوزیشن کا حق ہے‘ اگر اجتماع عوام کی جان کے لئے خطرہ بن جائے تو یہ حق باقی نہیں رہتا۔ دوسری بات لیڈروں کا لب ولہجہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن اہلِ سیاست میں سب سے بالغ نظر ہیں لیکن ملتان میں جلسے سے پہلے انہوں نے جوگفتگو کی، وہ ان کی ساکھ سے لگاؤ نہیں کھاتی۔ عوام کو حکومت کے خلاف تشدد پراکسانا تو کوئی سیاست نہیں۔ آپ عوام کو احتجاج میں شرکت کی دعوت تو دے سکتے ہیں لیکن پولیس کے خلاف ڈنڈا اٹھانے پر کیسے ابھار سکتے ہیں؟ جمہوریت تصادم کا نام تونہیں۔ اس کا مقصد ہی مسائل کا پُرامن حل تلاش کرناہے۔
جمہوریت میں احتجاج عوام کا حق ہے۔ سیاسی رہنما لوگوں کو احتجاج کی طرف مائل کرتے ہیں۔ عوام کولیکن یہ حق نہیں ہوتا کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لیں۔ اگر ریاست ظلم کرے تو وہ اس کو سہتے ہیں۔ عوام کی اصل طاقت ان کی مظلومیت اور استقامت ہے۔ عوام کو صبر اور استقامت پرابھارنا چاہئے نہ کہ جوابی تشدد پر۔ 1963ء میں جماعت اسلامی کے اجتماع پرفائرنگ ہوئی۔ ایک کارکن شہید ہوگیا‘ لیکن مولانا مودودی نے جماعت کے کارکنوں کو جواباً گولی یا ڈنڈا چلانے کا حکم نہیں دیا بلکہ استقامت اورصبر کا درس دیا۔ اس ردِعمل سے جماعت کے وقاراور دعوت کو فروغ ملا اور حکومت کے حصے میں عوام کی نفرت آئی۔
اپریل 1977ء میں، لاہور میں قومی اتحاد کے احتجاجی جلسے پرگولی چلی۔ لوگ ان کے سامنے سینہ سپر ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گولیاں چلانے والوں نے حکومت کا حکم ماننے سے انکار کر دیاکہ وہ اپنے ہی عوام کی جانوں سے نہیں کھیل سکتے۔ مولانا کے والدِ گرامی مفتی محمود قومی اتحاد کے سربراہ تھے۔ انہوں نے تواپنے کارکنوں سے یہ نہیں کہاکہ تم جواباً ڈنڈا اور بندوق اٹھالو۔ پھر وقت نے دیکھاکہ یہی مظلومیت قومی اتحاد کی قوت بن گئی۔
جمہوریت کادفاع صرف حکومت کی نہیں، اپوزیشن کی بھی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کا پہلا تقاضا جمہوری اقدار سے وابستگی ہے۔ تشددکا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں۔ کوئی جمہوری رہنماعوام کو حکومت کے خلاف تشدد پرنہیں ابھارتا‘اس لیے مجھے مولانا فضل الرحمن کی یہ بات جمہوری اقدار سے ہم آہنگ نہیں لگی۔ اپوزیشن کو اس موقع پر جمہوری روایات سے وابستگی کاثبوت دیناچاہیے۔ اگر الفاظ کے چناؤ اور رویے میں اس کا اظہار نہ ہو تویہ افسوسناک ہوگا۔
اپوزیشن کواحتجاج کا کوئی متبادل طریقہ دریافت کرنا ہوگا۔ کوئی احتجاج، عوام کے جان و مال کی حفاظت اور جمہوری روایات کی پاسداری سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ اپوزیشن کو سوچنا ہوگا کہ اجتماعات کورونا کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا سبب بن رہے ہیں تواس پراصرار نہیں کرنا چاہیے۔ میں مکرر عرض کرتا ہوں کہ یہ تدبیر سے نہیں، تقدیر سے جنگ ہوگی۔ اسی طرح احتجاج کو ہرصورت تشدد سے پاک اور جمہوری اقدارکے مطابق ہونا چاہیے۔
حکومت توجمہوری اقدار سے وابستگی کا ثبوت فراہم نہیں کرسکی۔ اب اگر اپوزیشن بھی جذبات کے بے لگام اظہارکا فورم بن جائے تواس کا نقصان ملک کو ہوگا اور جمہوریت کو بھی۔ اپوزیشن متبادل قیادت ہوتی ہے۔ اسے عوام کو قائل کرنا ہے کہ وہ ایک بہتر متبادل ہے۔ یہ اسی صورت میں ہوگا جب وہ عومی مفادات اور جمہوری اقدار سے وابستگی کا عملی مظاہرہ کرے۔ عوام کی حفاظت، جمہوریت کی سلامتی اوربقا صرف حکومت کی نہیں، اپوزیشن کی بھی ذمہ داری ہے۔ ہرکوئی اپنے کردارکے حوالے سے پرکھا جائے گا۔