''کورونا سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے‘‘۔
''کورونا سے لڑنا نہیں، ڈرنا ہے‘‘۔
دونوں میں سے کون سی بات درست ہے؟ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج کالم نگار نے کس الجھن میں ڈال دیا؟ دونوں میں آخر کیا فرق ہے؟ آپ اس قوم کی ذہنی فراغت اور دماغی زرخیزی کی داد دیجیے کہ اس ملک میں یہ بحث ہوتی رہی، یہاں تک کہ معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل تک جا پہنچا۔ کہا گیا کہ کورونا سے لڑنا، مشیتِ ایزدی سے لڑنا ہے۔ اس لیے یہ اسلوب غیر اسلامی ہے۔
جس نے سب سے پہلے یہ بات کہی، مجھے یقین ہے کہ یہ بات اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گی کہ وہ لوگوں کو مشیتِ الٰہی سے لڑنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ وہ تو اجتماعی قوتِ مدافعت کو بڑھانا چاہتا ہو گا تاکہ لوگ اس بیماری سے نہ گھبرائیں اور پوری قوتِ ارادی کے ساتھ اس کا سامنا کریں۔ طبیب حضرات کا اجماع ہے کہ مریض کی قوتِ ارادی بھی دوا کی تاثیر رکھتی ہے۔ اس لیے مریض کو کسی طور ڈپریشن یا مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
یہ قصہ بتا رہا ہے کہ ہماری سماجی نفسیات کیا ہے اور ہم کس طرح کورونا جیسی وباؤں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ فرد سے فرد تک پھیلتے امراض کے لیے حکومتی تدبیر سے زیادہ سماجی رویہ اہم ہے۔ اگر ہم اس کی تعمیر کر سکیں تو بہت سے مسائل سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ کورونا کی نئی لہرتباہ کن ہے۔ اس کا دائرہ پھیل رہا ہے اور یہ عوام ہی ہیں جو خودکو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ اس لیے سب سے زیادہ اصرار بھی عوامی رویوں کی اصلاح پر ہونا چاہیے۔
عمومی آگاہی، اللہ کا شکر ہے کہ موجود ہے۔ اس کے باوجود ضرورت ہے کہ مسلسل یاددہانی کرائی جاتی رہے۔ ان معاشرتی رویوں کی طرف متوجہ کیا جاتا رہے، جن کی اصلاح سے ہم اس بیماری سے بچ سکتے ہیں یا بہتر علاج کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ ان غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ضروری ہے جو وبا کی طرح پھیل جاتی ہیں اور کم علمی کے باعث محکمات سمجھی جاتی ہیں۔
سب سے اہم مریض کے اہلِ خانہ یا تیماردار ہیں۔ ہم آئے دن سنتے اور پڑھتے ہیں کہ ہسپتالوں میں طبی عملے اور مریض کے اہلِ خانہ میں جھگڑے ہوتے ہیں اور بعض اوقات یہ اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ کئی مریض جو بچ سکتے تھے، موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر صرف ہمارے مریض پر توجہ دیں اور دوسروں کو نظر انداز کریں۔
ہم جانتے ہیں کہ ہسپتالوں میں 'ایک مریض ایک ڈاکٹر‘ کا تناسب نہیں ہوتا۔ ایک ڈاکٹر کو بیک وقت بہت سے مریضوں کا علاج کرناہوتا ہے۔ ایک نرس کئی مریضوں کی دیکھ بھال کررہی ہوتی ہے۔ یہ ایک ڈاکٹر یا طبی عملہ ہی جانتا ہے کہ کس کی حالت زیادہ خراب ہے اور کون زیادہ توجہ کا مستحق ہے۔ ہمیں ان پر بھروسہ کرناچاہیے اور انکے کام میں رکاوٹ ڈالنے کے بجائے، انہیں موقع دینا چاہیے کہ وہ آزادی کے ساتھ کام کریں۔ اس کا فائدہ ہمارے مریض کو ہوگا اور دوسروں کو بھی۔ جب ہم اپنی فرسٹیشن اور ذہنی دباؤ میں مریض کی خراب حالت کا ذمہ دار ڈاکٹر کو سمجھتے اوراس پر اپنا غصہ نکالنا چاہتے ہیں تو ہم نہ صرف اپنے مریض بلکہ کئی دوسروں افراد کی جانوں کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں۔ احساس کرنا چاہیے کہ ڈاکٹر اپنی جانوں پر کھیل کر اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔ ہمارے گھر میں ایک مریض ہوتا ہے اور اہلِ خانہ اس سے دور رہنے کی سو تدبیریں کرتے ہیں۔ ڈاکٹر اور دوسرا طبی عملے کے افراد تو یہ بھی نہیں کر سکتے۔
وہ دن میں کورونا کے نہیں معلوم کتنے مریضوں کو دیکھتے اوران کا علاج کرتے ہیں۔ کتنے ڈاکٹر ایسے ہیں جنہوں نے ہمیں بچاتے بچاتے اپنی جان دے دی۔ خیبر پختونخوا میں کتنے نوجوان ڈاکٹر کورونا کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے۔ اسی طرح باقی صوبوںمیں بھی ہوا۔ یہ لوگ ہماری دعا اور تعاون کے مستحق ہیں یا ہمارے غصے کے؟ اگر ہم چاہتے کہ ہمارے مریض کا صحیح علاج ہو اور دوسرے مریض بھی صحت یاب ہوں تو ہمیں ڈاکٹروں اور طبی عملے سے تعاون کرنا ہو گا۔
ہسپتالوں میں توڑ پھوڑ اور طبی عملے پر تشدد سے ہم ایک نہیں کئی جانوں کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ اس میں ہمارے عزیز بھی شامل ہوتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا سنگ دل ڈاکٹر ہو کہ مریض مررہا ہو اور وہ اس سے بے نیازہو۔ بعض اوقات شکایت جائز بھی ہو سکتی ہے مگر اس کے ازالے کا بھی طریقہ ہوتا ہے۔ تشدد یا افراتفری پھیلانے سے شکایت دور نہیں ہوتی، مسائل بڑھ جاتے ہیں۔
ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ بعض لوگ سوشل میڈیا اور ابلاغ کے دیگر ذرائع سے دوسروں کو ادویات تجویز کرتے ہیں۔ اس میں وہ ذاتی تجربات کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ وہ دوسروں کو یہ ترغیب دیتے ہیں کہ وہ بھی اگر کورونا میں مبتلا ہیں تو فلاں دوا کھائیں کیونکہ میں نے یہ دوا کھائی اور تندرست ہو گیا۔ یقیناً لوگ یہ سب دوسروں کی خیر خواہی میں کرتے ہیں اور ان کے پیشِ نظر ایک نیک مقصد ہوتا ہے۔ صحیح رویہ لیکن اس معاملے میں یہ ہے کہ کبھی کوئی دوا مستند معالج کے مشورے کے بغیر استعمال نہیں کرنی چاہیے۔ ایک مریض کو دوسرے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ ہر مریض کی اپنی تاریخ اور حالات ہوتے ہیں۔ ایک مستند طبیب ہی بتا سکتا کہ کس مریض کو کیا دوا دینی چاہیے۔ علامتوں اور مرض میں یکسانیت سے ضروری نہیں کہ سب کو ایک ہی دوا تجویز کی جائے۔ اس لیے اس معاملے میں محتاط رویہ یہی ہے کہ ڈاکٹر سے مشورے کے بغیر کوئی دوا استعمال نہ کی جائے۔
پھر بعض لوگ اپنے ساتھ چند دوسرے مریضوں کو بھی شامل کر لیتے کہ فلاں فلاں بھی اس سے ٹھیک ہوا۔ بعض ادویات کو اس طرح پیش کیا گیا کہ جیسے یہ کورونا کا یقینی تریاق ہیں۔ میں جب کوئی ایسی بات سنتا یا پڑھتا ہوں تو پہلا خیال یہ آتا ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو دنیا ان ادویات سے فائدہ کیوں نہیں اٹھا رہی؟ اس وقت دنیا بھر میں پندرہ لاکھ کے قریب افراد مر چکے۔ کروڑوں اس میں مبتلا ہیں‘ اگر ہومیو پیتھی یاروایتی طب میں اس کا علاج موجود ہے تو دنیا اس جانب کیوں متوجہ نہیں ہوئی؟
مسئلہ کسی خاص طریقہ علاج کا نہیں، طبیب کے مستند ہونے کا ہے۔ دنیا میں ایک سے زیادہ طریقہ ہائے علاج موجود ہیں اور ان کی صدیوں پہ محیط تاریخ ہے۔ ان کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ ضرورت صرف اتنی ہے کہ علاج ہمیشہ کسی مستند طبیب سے کرانا چاہیے اور ایک دوا اگر ایک مریض کے لیے شفا کا باعث ہے تو لازم نہیں کہ دوسرے کے لیے بھی موثر ہو۔ اس کا فیصلہ معالج ہی پر چھوڑنا چاہیے۔
اس کے ساتھ عمومی ہدایات ہیں جو دہرائی جاتی ہیں۔ جب تک ویکسین نہیں آ جاتی، حفاظتی تدابیر کااختیار کرناہی اس مرض سے بچنے کی واحد صورت ہے۔ فاصلہ اور ماسک دو سبق ایسے ہیں جو سب کو ازبر ہونے چاہئیں۔ اس کے ساتھ اس بات پر یقین کہ یہ نظمِ کائنات کوئی دیومالائی داستان نہیں، یہ ایک ایسی ہستی کا بنایا ہوا نظم ہے جو حکیم بھی ہے اور قادرِ مطلق بھی۔ شفا اسی کے پاس ہے۔ ہم تدبیر کے مکلف ہیں اور تقدیر اس کے ہاتھ میں ہے۔ ہم اسی سے شفا طلب کرتے ہیں جو زندگی اور موت کا مالک ہے۔
قصہ کوتاہ، کورونا سے بچنا ہماری اپنی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ عوام کی شعوری سطح بلند ہو اور انہیں معلوم ہو کہ ہم نے کیسے اس وائرس سے بچنا ہے۔ اس سے لڑنا ہے یا ڈرنا ہے؟