چند دن پہلے، عمران خان صاحب نے اطلاع دی کہ نوازشریف اور آصف زرداری اللہ کے عذاب کاشکار ہیں۔ انہیں یہ اطلاع کس نے دی، اس کی کوئی اطلاع نہیں۔
یہ جملے ہم بہت بے تکلفی سے ادا کرتے ہیں کہ فلاں مکافاتِ عمل کا شکار ہے۔ فلاں باعثِ عبرت ہے۔ فلاں اللہ کے عذاب میں عذاب میں مبتلا ہے۔ یہ کہتے ہوئے ہم فراموش کردیتے ہیں کہ یہ فتویٰ صادرکرتے وقت، ہم خود کواللہ تعالیٰ کی ترجمانی کے منصب پر فائز کررہے ہوتے ہیں۔نہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی فرشتے کے آنے کا امکان ہے اورنہ ہی یہ کسی الہامی کتاب میں نوشتہ ہے؟ پھر یہ بات ہم کس سند پر کہتے ہیں؟
یہ تو صرف وہی جانتا ہے کہ کون آزمائش میں مبتلا اورکون مکافاتِ عمل کا شکار ہے۔ فرد کے معاملے میں عمومی قانون یہی ہے کہ دنیا اس کیلئے عمل کی جگہ ہے اور آخرت فیصلے کی۔ دنیا میں وہ لوگوں کومہلت دیتا ہے یہاں تک کہ موت آ پہنچے۔ یہ مہلت زندگی کی آخری سانس تک میسر رہتی ہے۔ اس دنیا میں افراد کی زندگیوں میں تبدیلی آتی ہے۔ کبھی اس کا رخ شر کی طرف اور کبھی خیر کی طرف ہوتا ہے۔ اس لیے ہم کسی فرد پر کوئی حکم نہیں لگا سکتے۔
اس میں شبہ نہیں کہ دنیا میں اللہ کا عذاب بھی آتا ہے، اس کی طرف سے تنبیہات بھی جاری ہوتی ہیں اور مکافاتِ عمل بھی ہے۔ ہم اِن پر اس لیے ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ نے الہامی کتب میں اپنی اس سنت کا ذکر کیا ہے اور اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ نے اس سنت اللہ کی تشریح فرمائی ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ ہم اپنا احتساب کرتے رہیں اورکسی ایسی سنتِ الٰہی کا مصداق نہ بنیں۔ یہ اس لیے نہیں کہ دوسروں پر بحیثیت فرد اس کا اطلاق کریں۔
نواز شریف صاحب ہی کی مثال لے لیجیے۔ ان کے بارے میں ایک رائے تو وہ ہے جس کا اظہار خان صاحب نے کیا ہے۔ معاشرے میں ان کے حوالے سے ایک دوسری رائے بھی پائی جاتی ہے جو اس کے برعکس ہے۔کروڑوں لوگ انہیں نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ ریاستی ظلم کا شکار ہوئے۔ انہیں ناکردہ گناہوں کی سزا ملی۔ ان کی نظر میں وہ مجرم نہیں، ہیرو ہیں۔
نوازشریف صاحب کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ انہوں نے خیر کی طرف پیش قدمی کی ہے۔ وہ روایتی سیاست سے اصولوں کی سیاست کی طرف بڑھے ہیں۔ انہوں نے بعض نازک موقعوں پر عزیمت کامظاہرہ کیا ہے۔ ان کا بعد کا دور، ان کے پہلے ادوار سے بہت بہتر ہے۔ میرے نزدیک ان کے موقف میں وزن ہے۔ یہ میرا تجزیہ ہے۔ میں اس کے دلائل بیان کر سکتا ہوں لیکن کیا میں اپنے اس تجزیے کی بنیاد پر یہ اعلان کر سکتا ہوں کہ یہ الٰہی فیصلہ ہے؟ ظاہر ہے مجھے اس کا کوئی حق نہیں۔
لوگ اس رائے پر نقد کر سکتے ہیں۔ اگر یہ غلط ہے تو اس کے رد کے لیے دلائل دے سکتے ہیں‘ لیکن کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خدا کا ترجمان بن کر لوگوں کو فیصلے سناتا پھرے۔ یہ دنیا آزمائش کا گھر ہے۔ یہاں ہر قدم پھونک پھونک کر اور عالمِ ہوش میں اٹھانا پڑتا ہے، اگر آپ کو یقین ہے کہ ہمارے اعمال میں ذرہ برابر، اچھا یا برا، ایسا نہیں ہے جس کا ریکارڈ نہ رکھاجاتا ہو۔
جو لوگ مذہبی لغت میں کلام کرتے ہیں‘ انہیں چاہیے کہ لوگوں کو ادھوری بات نہ بتائیں۔ اورخود کو اس منصب پر فائز نہ کریں جو خدا نے ان کونہیں دیا۔ نبوت کا باب بند ہوا۔ اب ہم دین کے نام پرصرف اس چیز کا ابلاغ کر سکتے ہیں جو اللہ کے آخری رسولﷺ کی سند سے ہم تک پہنچی۔ یہ اس کے قوانین ہیں۔ سننِ الٰہی کا بیان ہے۔ گزری اقوام کے قصص ہیں۔ دین کی حکمت ہے۔
آسمانی صحیفوں میں افراد کا بھی ذکر ہے۔ قرآن مجید نے ابو لہب کا نام لے کر اس کی مذمت کی۔ بائبل اور قرآن مجید نے فرعون کا تذکرہ کیا۔ ان کے بارے میں ہم یقین سے بات کرسکتے ہیں کہ ایک یقینی ذریعۂ علم نے ہمیں ان کے بارے میں خدائی فیصلے کی خبر دی۔ جب یہ باب بند ہو گیا تو پھر ہم بعد میں آنے افراد کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتے۔
تاریخ ایسے تذکروں سے بھری پڑی ہے کہ ایک فرد بیک وقت ہیرو بھی ہے اور ولن بھی۔ بنو امیہ اور بنو عباس کے عہد سے لے کر دورِ حاضر تک، یہ ایک نہ ختم ہونے والی داستان ہے۔ ساری تاریخ کو پڑھ ڈالیے، افراد کے بارے میں متضاد آرا ملیں گی۔ ماضی بعید کی شخصیات تو دور کی بات، دورِ حاضرکے کسی فرد پر یقین کے ساتھ کوئی حکم لگانا ممکن نہیں۔
اسی طرح جیل جانے یا مقدمات کے فیصلوں کی بنیاد پربھی کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ امام احمد بن حنبلؒ جیسے لوگ جیل گئے اور ان کے خلاف عدالتی فیصلے آئے۔ اسی لیے مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے تاریخ ساز عدالتی بیان میں کہا تھاکہ دنیا کی سب سے بڑی ناانصافیاں عدالت کے ایوانوں میں ہوئی ہیں۔ بھٹو صاحب ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں پھانسی کے تختے پر جھول گئے۔ اس کے باوجود اس ملک میں کروڑوں ہوں گے جو انہیں مجرم نہیں، شہید مانتے ہیں۔
سیاست دان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ تنازعات سے بلند ہو۔ کیا خان صاحب کے بارے میں، اس معاشرے میں ایک رائے پائی جاتی ہے؟ اور تو اور، کیا کچھ لوگ قائد اعظم پر تنقید نہیں کرتے؟ ابوالکلام اور ابوالاعلیٰ مودودی جیسے جید لوگ غیر متنازع ہیں؟ ہم ان شخصیات کے بارے میں کوئی رائے دے سکتے ہیں۔ یہ غلط ہوسکتی ہے اوردرست بھی‘ لیکن ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم ان کے بارے میں خدائی فیصلے سناتے پھریں، بغیر کسی دلیل اور حجت کے۔
مذہب کو سیاست سے آلودہ کرنے کا ایک نقصان یہ ہے کہ ہم سیاسی امور پر بھی مذہبی لغت میں کلام کرتے ہیں۔ شاید اکثر غیر دانستہ طور پر۔ خان صاحب مذہبی سیاست نہیں کرتے لیکن چونکہ ہماری سیاسی روایت میں مذہب ایک اہم عامل ہے اور پھر مذہبی سیاست میں ایسے بڑے لوگ آئے جنہوں نے سیاست کی عمومی فضا کو متاثر کیا ہے، اس لیے لوگ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر مذہبی لغت میں کلام کرنے لگتے ہیں۔ خان صاحب کے اس بیان کو بھی میں اسی نظر سے دیکھتا ہوں۔
پھر یہ بات سیاست تک محدود نہیں۔ ہم روزمرہ زندگی میں بڑی بے تکلفی کے ساتھ یہ زبان استعمال کرتے ہیں اور لوگوں کو خدا کے عذاب کا شکار قرار دے دیتے ہیں۔ بھٹو خاندان کا المیہ ہے کہ اس کے تمام بڑے لوگ قتل ہوئے۔کوئی اسے عزیمت اور مزاحمت کی علامت کے طور پر پیش کرتا ہے اور کوئی عبرت کے طور پر۔ میرا کہنا یہ ہے کہ افراد کے بارے میں بات کرتے وقت، اسے سیاسی تجزیے تک ہی محدود رہنا چاہیے۔
خدا کا عذاب کیا ہے؟ مکافاتِ عمل کیا ہے؟ یہ سب اس حقیقت کا بیان ہے کہ انسان جو کچھ کرتا ہے، ایک دن اسے سب کا حساب دینا ہے۔ یہ واقعہ دنیا میں بھی کسی کے ساتھ ہو سکتا ہے مگر اصلاً یہ آخرت میں ہونا ہے۔ خدا کی عدالت میں انسانوں کے مقدمات ایسی یقینی شہادتوں کے ساتھ پیش کئے جائیں گے کہ ان کا انکار ناممکن ہوگا لہٰذا اس دورِ آزمائش میں، کوئی کام کرتے وقت، ہمیں اُس دن کے بارے میں متنبہ رہنا چاہیے۔
افسوس ہم انسانوں پرکہ ہم اصل پیغام کو نظر انداز کرتے اور دوسروں کے بارے میں الٰہی فیصلوں کے ترجمان بن جاتے ہیں۔ جو مذہبی لغت استعمال کرتا ہے، اسے پہلے مذہب کا پورا مقدمہ سمجھنا ہوگا۔