معاشی بربادی کے بعد ہم تیزی سے سیاسی اضطراب کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے دشمن کیا اتنے احمق ہیں کہ اِس خود کفالت کے باوجود، ہماری بربادی کے لیے سرمایہ کاری کریں گے؟
حکومتی ادارے، ادارہ شماریاتِ پاکستان کے مطابق، پاکستان کی مڈل کلاس تیزی سے معدوم ہورہی ہے۔ وہ پاکستانی جن کی انفرادی آمدن تین سو ڈالر ماہانہ ہے، 2018 ء میں ان کی تعداد سولہ ملین تھی۔ 2019ء میں یہ تعداد کم ہو کر پانچ اعشاریہ چھ ملین ہو چکی۔ 2018ء میں یہ تعدادکل آبادی کا بیس اعشاریہ چھ فیصد تھی۔ 2019ء میں سمٹ کرسات فیصد رہ گئی۔ اس کو کسی طور کورونا سے منسوب نہیں کیاجا سکتا کہ یہ اعدادوشمار اس وبا کے پھوٹنے سے پہلے کے ہیں۔
اِس سے پہلے کیا ہو رہا تھا، یہ بھی اس جائزے میں موجود ہے۔ 2018ء تک ہماری مڈل کلاس تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ 2014ء میں یہ تعداد پانچ اعشاریہ تین، 2015ء میں آٹھ اعشاریہ چار، 2016ء میں بارہ، 2017ء میں تیرہ اعشاریہ نو اور 2018ء میں سولہ ملین تھی۔ گویا نوازشریف کے دور میں یہ پانچ سے سولہ ملین تک گئی۔ تبدیلی نے محض ایک سال نے اس تعداد کو سولہ سے پانچ اعشاریہ چھ ملین تک پہنچا دیا۔
تین سو ڈالر کا مطلب پچاس ہزار روپے ماہانہ ہے۔ تبدیلی کے بعد، محض ایک سال میں یہ دس اعشاریہ چار ملین لوگ کہاں گئے؟ ظاہر ہے غریبوں میں شامل ہوگئے۔ آج ان کی آمدن پچاس ہزار روپے سے کم ہے۔ اب ایک طرف آمدن کم ہو گئی اور دوسری طرف مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہو چکا۔ یہ لوگ اب ہر پیمانے سے غریب شمار ہوں گے۔ مڈل کلاس ہی کسی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ اس کا کم ہونا معیشت کے زوال کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔
اس سے قیاس کیاجا سکتا ہے کہ جن کی آمدن ایک لاکھ روپے سالانہ تھی، ان کی تعداد میں کتنی کمی آئی ہوگی۔ اب تو اس معاشی بربادی میں کورونا بھی حکومت کی بھرپور مدد کررہا ہے۔ مرے کو مارے شاہ مدار۔ میں جب سوچتا ہوں کہ اس معاشرے کا سفید پوش کب تک اپنا بھرم قائم رکھ پائے گا توخوف کی ایک لہر میری ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ جاتی ہے۔ کیا اس کے بعد بھی‘ 2018ء میں وجود میں آنے والے سیاسی بندوبست کے بارے میں کوئی کلمۂ خیر کہاجا سکتا ہے؟ کیا اس کے ذمہ دار وہ سابق حکمران ہیں جن کے دور میں مڈل کلاس مسلسل بڑھ رہی تھی؟
اس پہ مستزاد سیاسی بحران۔ سیاسی بحران اور معاشی بحران جڑواں بھائی ہیں۔ لازم و ملزوم۔ اس سیاسی نظام کے پشتی بانوں نے معیشت کا جو حشر کیاہے، اس سے برا سلوک سیاست کے ساتھ کیا ہے۔ ملک کی اکثریت کا گلا گھونٹنا چاہا ہے۔ کروڑوں لوگوں کی نمائندگی کرنے والی سیاسی جماعتوں کو بے آواز بنانے کی سعی کی ہے۔ اڑھائی سال میں صرف ایک سیاسی کام ہوا ہے: تحریک انصاف، ق لیگ اور ایم کیو ایم کے سوا ہر سیاسی جماعت کو بے اثر بنانے کی کوشش۔
سیاست کے مبادیات سے واقف ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ جس جماعت یا شخصیت کی جڑیں عوام میں ہوں، اس کو بزور یا مصنوعی طریقے سے سیاسی عمل سے بے دخل نہیں کیاجا سکتا۔ ماضی میں ایسی ہر کوشش ناکام ہو چکی۔ ضیاالحق صاحب نے پیپلزپارٹی کو ختم کر نے کی کوشش کی۔ اس وقت بھی جے آئی ٹی کی بارہ جلدوں کی طرح قرطاسِ ابیض (White Paper) کی کئی جلدیں شائع کی گئیں جن میں بتایا گیا کہ پیپلزپارٹی نے کتنی کرپشن کی ہے۔ نتیجہ کیا ہوا؟ جب ضیاالحق صاحب دنیا سے رخصت ہوئے تو اگلی حکومت پیپلزپارٹی کی تھی۔
پرویز مشرف صاحب نے بھی یہی تاریخ دہرانے کی کوشش کی۔ انہوں نے ق لیگ اور ایم کیو ایم کی مدد سے نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو مٹانے کی کوشش کی۔ اس کوشش کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے۔ وہ اقتدار سے رخصت ہوئے تو مرکز میں پیپلزپارٹی اور سب سے بڑے صوبے پنجاب میں نون لیگ کی حکومت قائم ہو گئی۔ کیا 'حسین اتفاق‘ ہے کہ آج کا حکمران طبقہ اسی ایم کیو ایم اور ق لیگ کی مدد سے نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے ساتھ جمعیت علمائے اسلام اور قوم پرست جماعتوں کو بھی مٹانے کے درپے ہے۔
دکھائی یہ دیتا ہے کہ اِس نظام کے سرپرست ماضی سے کوئی سبق سیکھنے کے بجائے اُسی پامال راستے پر سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ شیخ رشید کئی ماہ سے خبر دے رہے کہ 'دہشت گردی‘ کا کوئی واقعہ ہو سکتا ہے۔ مریم نواز صاحبہ بھی ایسے خدشات کا اظہار کررہی ہیں کہ ان کی جان کو خطرات لاحق ہیں۔ شیخ صاحب کس کی ترجمانی کرتے ہیں، سب جانتے ہیں۔ ان کی بات کی تردید نہیں کی گئی جو انہوں نے کئی بار دہرائی۔ آخر اس کا کیا مطلب ہے؟ سوچتا ہوں تو پریشان ہوجاتا ہوں۔
یہ سیاسی بندوبست، اگر کل کسی حادثے کا شکار ہوتا ہے تو اپوزیشن کو کسی طور ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اپوزیشن نے ہر ممکن کوشش کی کہ اُسے اس سیاسی نظام کا حصہ مان لیا جائے۔ ایسی ہر کوشش کو سبوتاژ کر دیا گیا بلکہ اپوزیشن کی تذلیل کی گئی۔ حکومت آج بھی اپوزیشن کو مسلسل انگیخت کررہی ہے۔ جو مصنوعی سیاسی ڈھانچہ کھڑا کیا گیا ہے، اس میں کوئی ایک آدمی ایسا نہیں ہے جو مفاہمت یا عقل کی بات کرتاہو۔ سب آتش زیرپا ہیں۔
اپوزیشن یہ جانتی ہے کہ اگر وہ سینیٹ میں بھی اکثریت سے محروم ہو گئی تو اِس کے بعد، اُس کے ساتھ کیا سلوک ہو گا۔ یہ اب اس کی بقا اور سلامتی کا سوال ہے کہ وہ ایسا دن آنے سے پہلے کوئی اقدام کرے۔ اپوزیشن میں شامل سیاست دان تجربہ کار ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ محض سیاسی جلسوں سے حکومتیں ختم ہوتی ہیں اور نہ انہیں دباؤ میں لایا جا سکتا ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ کوئی عوامی‘ سیاسی تحریک ایک مدت سے زیادہ عوامی جوش و خروش (momentum) کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔ اس لیے اپوزیشن نہ تو سیاسی جلسوں پر اکتفا کرے گی اور نہ ہی اس تحریک کو طوالت دینے کی کوشش کرے گی۔
مریم نواز نے اگر 'آر یا پار‘ کی بات کی ہے تو یہ اس کا اظہار ہے کہ اپوزیشن کے لیے یہ تحریک زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ داد دیجیے اس سیاسی بندوبست کے ذمہ داروں کی سیاسی بصیرت کو کہ وہ پھر بھی اپوزیشن کو جوش دلانے پر لگے ہیں۔ خان صاحب کو اب اس تحریک کے غیر ملکی سرپرست دکھائی دینے لگے ہیں۔ اگر وہ پیش پا افتادہ سیاسی حقائق کو دیکھ سکتے تو انہیں یہ خیالی سرپرست تراشنے کی ضرورت نہیں تھی۔
اگر خان صاحب دیکھتے کہ ملک کی معیشت برباد ہو چکی۔ مڈل کلاس معدوم ہو رہی ہے اور غربت روز افزوں ہے تو انہیں اندازہ ہوتا کہ اپوزیشن کی سرپرست کوئی غیر ملکی قوت نہیں، بڑھتی ہوئی غربت اور مایوسی ہے۔ پاکستان میں عوامی شعور ابھی اس سطح تک نہیں پہنچا کہ اعلیٰ جمہوری اقدار کی پامالی عوام کو سڑکوں پہ لے آئے۔ اگر 2018ء کے بعد وجود میں آنے والا سیاسی بندوبست اپنے اندر کوئی خوبی رکھتا اور عوامی مسائل کو کم کرتا تو عوام اسے قبول کر لیتے۔ پھر اپوزیشن لاکھ کوشش کرتی، کامیاب نہ ہوسکتی۔
جس ملک کی معیشت کو خود اس کے ذمہ دار برباد کرنے پر تلے ہوں۔ جہاں سیاسی عدم استحکام کو مسلسل کوشش سے بڑھایا جائے اور سیاسی نظام کے پشتی بان تکبر و انتقام کی فضا میں جیتے ہوں، اُس ملک کے دشمنوں کو کیا پڑی کہ اس کی بربادی کے شیطانی منصوبے بنائیں۔
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے