"KNC" (space) message & send to 7575

پاکستان اور بھارت کا سیاسی کلچر

مولانا محمد زکریا نے ''تبلیغی نصاب‘‘ کے دیباچے میں لکھا کہ ایک بار وہ علیل ہوئے تو طبیب حضرات نے انہیں علمی کام سے روک دیا۔اس دوران میں‘انہوں نے یہ کتاب مرتب کر ڈالی۔اب خدا کا کرنا دیکھیے کہ مسلم دنیا میں یہ ایک وافر پڑھی جانے والی کتاب بن گئی۔ان دنوں اس کتاب کا ایک نظر ثانی شدہ ایڈیشن ''فضائل ِ اعمال‘‘ کے عنوان سے شائع ہوتا اور اسی جوش وخروش کے ساتھ پڑھاجاتا ہے۔
کہاں مجھ جیسا عامی اور کہاں مولانا جیسا شیخ الحدیث۔'موطا امام مالک‘ جیسی حدیث اور آثارکی سب سے معتبر کتاب کا شارح۔علالت مگر ایک قدرِ مشترک نکل آئی جس نے مجھے بھی' علمی کام‘ سے روک دیا۔کسی بڑے آدمی کے ساتھ یہ نسبت بھی غنیمت ہے۔ڈاکٹر کاکہنا تھا کہ خود کو ذہنی دباؤ سے آزاد رکھنا ہے۔اس کیلئے ایسی سرگرمیوں سے گریز لازم ہے جو کسی ذہنی مشقت میں مبتلا کریں۔ ان میں علمی مباحث سے دوری بھی ضروری ٹھہری۔
سوچتا ہوں‘جب صحت مند تھا تو کون سے علمی تیر چلاتا تھا؟کالم نگاری کاعلم سے کیا واسطہ؟کبھی اپنے دانست میں کچھ 'علمی‘ لکھ ڈالا تو سب سے کم پڑھا گیا۔لوگ خان اور نواز کی حکایتِ دل پذیر پڑھنا چاہتے ہیں۔اب 'روٹی توبہر طور کما کھائے مچھندر‘ کے مصداق‘یہ 'کالم نگار‘ بھی 'مچھندر‘ ہی بن گیا۔ قلم معاصر اہلِ سیاست کے عیوب و محاسن میں الجھ گیا۔تاہم اگر علم کی بات لکھ نہیں پاتے تو پڑھنے کی کوشش ضرورکرتے ہیں۔ڈاکٹر نے اس سے بھی منع کر دیا۔اب سوال یہ تھا کہ اکیلے پڑے پڑے کیا کریں؟
مشورہ ملا کہ فکشن پڑھی جائے کہ کہانی طبیعت کو بوجھل نہیں ہونے دیتی۔غور کیا تو یاد آیا کہ کچھ عرصہ پہلے کافکا کی کہانیوں کا ایک مجموعہ خریدا تھاجسے پڑھنے کی فرصت نہیں مل سکی۔ پہلی کہانی شروع کی تو وہ اُس آلے کے بارے میں تھی جس سے پھانسی دی جاتی ہے۔پھانسی کا مجرم سامنے ہے اوراس مشین کی مہارت اور'حسنِ کارکردگی‘ پر صفحات کے صفحات لکھے جا رہے ہیں۔ اب ایک مریض ‘جسے ذہنی کوفت سے دور رہنے کی تلقین ہے اور جو پہلے ہی موت سے چھپتا پھرتا اکیلا کمرے میں بند ہے‘یہ سوچ کر کہ وہ اس گوشے تک نہیں پہنچ پائے گی‘ اسے اگر ایسی مشین کی تفصیل پڑھنی پڑے تو اس کی کیا کیفیت ہوگی؟آپ ماشا اللہ سمجھ دار ہیں‘خوف سے کتاب بند کی کہ 'بخشو بی بلی‘چوہا لنڈورا ہی بھلا‘۔کافکا کے متاثرین میری اس بات کو نظر انداز کریں کہ ایک مریض ‘جو ذہنی مشقت سے دور ہو‘اس کی بات لائق ِاعتنا نہیں ہو تی۔
اب لنڈورا رہنا بھی مشکل تھا۔وقت تو کاٹنا تھاجو کٹے کٹ نہیں رہا تھا۔('کٹے‘ کی تکرار پر معذرت)۔جن حاذق حکما نے فکشن تجویز کی تھی‘انہوں نے اپنے نسخے پر دوسری نظر ڈالی اورفلم کامتبادل تجویز کیا۔فلم کامجھے جوتجربہ ہے‘اس کے لیے مریض کاصحت مند ہونا ضروری ہے۔اس بے معنی جملے کا باطنی مفہوم یہ ہیں کہ مجھے بھارت کی آرٹ فلمیں پسند رہی ہیں۔ان میں بالعموم سماج کی تلخیوں کو اس جمالیاتی رچاؤ کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ ان کا ذائقہ حلق میں محسوس ہوتا ہے۔
علالت میں مجھے یہ فلمیں کافکا کے افسانے جیسی محسوس ہوئیں۔خوف زدہ دل نے چپکے سے کہا:مریض کے لیے ان سے پر ہیز ہی بہتر ہے‘ ۔میں نے دل کی بات مان لی۔اب ایک ہی حل تھا:میں یو ٹیوب کے اوراق پلٹتاجاؤں اور جس صفحے پر کوئی بات دل کو لبھائے ‘وہاں رک جاؤں۔میں نے یہی کیا۔ایک فلم کھولتا۔اگراس کا کوئی پہلو متوجہ کرتا تورک جاتاورنہ آگے چل پڑتا۔اس دوران میں‘میں نے بہت سی فلمیں دیکھ ڈالیں۔
اس تجربے سے مجھ پر فکر و نظر کے کئی دروا ہوئے۔میں اس وقت ایک دروازے کی طرف آپ کو متوجہ کررہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ بھی اس سے گزریں۔اس کا تعلق عصری سیاست سے ہے۔یہ طویل تمہید میں نے اس لیے باندھی کہ آپ کو یہاں تک لے آؤں اور اس' فلمی دروازے‘ سے گزاروں۔آپ تائید کریں گے تو مجھے اپنے نتیجۂ فکر پر مزید اطمینان ہو گا۔
میں نے جرم وسزا کے موضو ع پرچند فلمیں دیکھیں جو گزشتہ دس بارہ سال کے دوران میں بنیں۔کم وبیش سب فلموں کی کہانی ایک تھی۔یہ کہانی بھارت کی جرم کی دنیا (Under World) اور سیاست کی دنیا کے باہمی تعلق کے گرد گھومتی ہے۔ان تمام فلموں کا مشترکہ پیغام یہ ہے کہ سیاست دان اورجرائم پیشہ لوگوں میں ایک بندھن ہے۔یہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔بعض سیاست دانوں کے دو روپ ہیں۔وہ ایک طرف سیاست کر رہے ہیں اور دوسری طرف انڈر ورلڈ کے کسی گروہ کے سرپرست بھی ہیں۔
سیاست دانوں کے باہمی اختلافات تمام تر مفاداتی ہیں۔ان کی مخالفت مستقل ہے نہ حمایت۔وہ اقتدار کے لیے کسی حد کو پار کر سکتے ہیں۔ضرورت پڑے تو فرقہ وارانہ فساد کروادیں۔مخالفین کو قتل کر وادیں۔دہشت گردی کے واقعات کو ہوا دیں۔آپ سیاست دانوں سے کچھ بھی توقع رکھ سکتے ہیں۔وہ مجسم ِشر ہیں اور جرم کی دنیا ان کی سرپرستی ہی سے آباد ہے۔
یہ مضمون اس تکرار کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ اس کو محض فکشن قرار نہیں دیا جا سکتا۔صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک حقیقی دنیا کی تمثیل ہے۔یہ بھارت کا سماج ہے‘ جسے فلم کی کہانی میں پیش کیا گیا ہے۔بھارت کی انڈر ورلڈ امرِواقعہ ہے لیکن اہلِ سیاست کے ساتھ ان کا تعلق جس طرح پیش کیا گیا‘وہ اس کے حقیقت ہونے پر دلالت کرتا ہے۔مودی دورِ حکومت اور انتہاپسند مذہبی گروہوں‘جو دراصل انڈر ورلڈ کام کرتے ہیں‘ کے باہمی تعلق کے اتنے مظاہر سامنے آ چکے کہ ان کا انکار محال ہے۔
بھارت کی حالیہ تاریخ میں سامنے آنے والے بڑے حادثات کی جو تحقیقاتی رپورٹس سامنے آئی ہیں‘ وہ اس کی تائید کر تی ہیں۔گجرات کے مسلم کش فسادات سے دلی کے واقعات تک‘سب کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنے اور ان کی رپورٹس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہاں جرم اور سیاست کس طرح ہم آغوش ہیں۔
پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں انڈر ورلڈ اس طرح منظم نہیں ہے جس طرح بھارت میں ہے۔مقامی گینگ ہیں مگر وہ اتنے طاقتور نہیں کہ ریاست کو چیلنج کر سکیں۔کراچی میں ایک صاحب کی سرپرستی میں ایک مافیاوجود میں آیا۔اس کی تاریخ کو سامنے رکھیں تومعلوم ہوتا ہے کہ اگرجنرل مشرف جیسے حکمران انہیں اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے استعمال نہ کرتے تو ان میں اتنی سکت نہیں تھی کہ ریاست کو چیلنج کرتے۔کچھ ایسا ہی معاملہ ٹی ٹی پی کا بھی ہے۔
سیاست دانوں نے سیاسی اختلافات کوذاتی دشمنی میں بدل ڈالا مگر ایک دوسرے پر روپے پیسے کی کرپشن سے بڑاالزام نہیں لگایا۔کسی نے نہیں کہاکہ ہمارے مخالفین منظم طور پرجرم کی پشت پناہی کرتے ہیں‘مخالفین کو اغوا کراتے ہیں یا دہشت گردی میں ملوث ہیں۔غداری کا گھسا پٹا الزام لگتا ہے مگر اس کے محرکات دوسرے ہیں۔اس کا تعلق سیاسی جماعتوں سے نہیں۔
پاکستان اور بھارت کی سیاست کا یہ تقابل بتاتا ہے کہ ہمارے اہلِ سیاست اور ہمارا سیاسی کلچر‘بھارت سے بہت بہتر ہے۔تاہم جمہوری عمل کے تسلسل نے بھارت کو ‘ان خرابیوں کے باوجود غیر مستحکم نہیں ہو نے دیا۔ ہم نے باقی امور میں بہتر ہونے کے باوجود‘ جمہوریت سے منہ موڑا تو استحکام نے ہم سے منہ موڑ لیا۔
کالم ہلکے پھلکے انداز میں شروع ہوا مگر دھیرے دھیرے سنجیدہ ہوتا گیا۔میرا خیال ہے یہاں قلم روک دینا چاہیے۔ویسے بھی جمہوریت کا ذکر آئے تو رک جانے ہی میں عافیت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں