کیا آپ نے مولانا عبدالغفور حیدری کی پریس کانفرنس سنی؟ اگر نہیں تو سن لیجیے۔ اس کے بغیر آپ حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ بات نام لینے سے کہیں آگے بڑھ چکی۔
حالات تشویشناک ہیں۔ تصادم سے بچنے کے امکانات، آہستہ آہستہ معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ اب وہ کچھ ہورہا ہے جو1970ء کے بعد نہیں ہوا۔ خاکم بدہن‘ کوئی حادثہ ہوا تو اس کی ذمہ داری انہی کے سر ہوگی جن کے ہاتھ میں زمامِ کار ہے۔ زمامِ کار جن کے ہاتھ میں ہے، کوئی نام لے یا نہ لے، سب ان کے نام جانتے ہیں۔ مکرر عرض ہے کہ ہم بے حجابی کے دور میں زندہ ہیں۔
تجزیہ کار جب اس ابتری کی ذمہ داری حکومت اور اپوزیشن کے شانوں پر مشترکہ طور پر ڈالتے ہیں تو مجھے حیرت ہوتی ہے؟ اپوزیشن اس سب کی ذمہ دار کیسے ٹھہرائی جا سکتی ہے؟ اس عدم استحکام میں اپوزیشن کا کیا اور کتنا حصہ ہے؟ کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے۔ 2014ء سے سب کو ایک خاص سمت میں ہانکاجا رہاہے۔ ملک کو ایک ایسے سیاسی بندوبست میں جکڑ دیا گیا، جس کی اخلاقی اور آئینی بنیادیں انتہائی کمزور ہیں۔
اپوزیشن کی جماعتوں نے اس کے باوجود تصادم کی راہ اختیار نہیں کی۔ مولانا فضل الرحمن نے اگرچہ لانگ مارچ میں عجلت کی‘ اس کے باوجود انہوں نے اپنی تحریک پراصرار نہیں کیا۔ وہ ابتدا ہی سے بعد از انتخابات وجود میں آنے والے بندوبست کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ اس کے باوصف انہوں نے سوادِ اعظم کا ساتھ دیا۔ اپنی رائے کو ایک طرف رکھتے ہوئے اسمبلیوں سے استعفا نہیں دیا۔ لانگ مارچ کو بھی تصادم کی طرف نہیں بڑھنے دیا۔ لوگوں کی باتیں سنیں لیکن پُرامن واپسی کو ترجیح دی۔
اسلام آباد میں جمع شدہ لوگ کم نہیں تھے۔ اُس وقت جمعیت کے کارکن پرجوش تھے اورکچھ بھی کر سکتے تھے۔ مولانا نے ان کو واپسی پرآمادہ کیا۔ اُس وقت بھی ان کو کچھ یقین دہانیاں کرائی گئیں۔ اس روش کا خیرمقدم کرنے کے بجائے حکومتی مناصب پر بیٹھے طفلانِ سیاست ان کا مذاق اڑاتے رہے۔ انہیں مسلسل مشتعل کرتے رہے۔ یہ روش آج تک جاری ہے۔
اب مولانا کا احتساب بھی شروع ہوگیا ہے۔ نون لیگ کے بعد وہی ہیں جو مسلسل ہدف ہیں۔ معلوم ہوتا ہے سارے جہاں کی کرپشن نون لیگ اور مولانا فضل الرحمن کے سرہے۔ رہے اہلِ حکومت توماضی میں وہ جس جماعت میں رہے ہوں، آج پاک دامن ہیں کہ حکومت کے ساتھ ہیں:
دلداریٔ واعظ کو ہمِیں باقی ہیں ورنہ
اب شہر میں ہر رندِ خرابات ولی ہے
مولانا نے شدید تحفظات کے باوجود اپنے احتجاج کو سیاسی عمل سے ہم آہنگ رکھا۔ رہی دوسری بڑی جماعتیں توانہوں نے فدویانہ انداز میں اس نظام کی حفاظت کی۔ جو ذمہ داری تحریکِ انصاف کی تھی، عملاً وہ اپوزیشن نے ادا کی۔ یہاں تک کہ طعنے سنے اور ایک توسیع کے معاملے میں بھی پورا تعاون کیا۔ اس کے بدلے میں کیا ملا؟ شہباز شریف آج کہاں ہیں؟ مولانا فضل الرحمن کے بارے میں کیا منصوبے ہیں؟
واقعہ یہ ہے کہ اس خرابی کے سو فیصد ذمہ داروہ لوگ ہیں جن کے ہاتھ میں ریاست کی مہار ہے اوروہ اس قوم کواپنی مرضی کے مطابق ہانکنا چاہتے ہیں۔ جیسے ان کی کوئی دلچسپی معاشی اور سیاسی استحکام کے ساتھ ہے نہ ملک کی ساکھ کے ساتھ۔ وہ صرف انتقام کی آگ میں ان لوگوں کو بھسم کر دینا چاہتے ہیں جو اس ریوڑ کا حصہ بننے سے انکار کررہے ہیں۔
عوام کا جینا دوبھر ہورہا ہے۔ غربت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ آج ہی ''دنیا‘‘ میں خبرچھپی ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز پر گھی 43 اور کوکنگ آئل 17روپے فی کلو مہنگا ہوگیاہے۔ ملک کا وزیراعظم اپنی بے بسی اور ناکامی کااعتراف کررہا ہے۔ اس کے بعد بھی اہلِ اقتدارکی ترجیح یہ ہے کہ نوازشریف کوواپس لایا جائے اور مولانا فضل الرحمن کے گرد احتساب کا شکنجہ کساجائے‘ سیاسی مخالفین کو ایذا پہنچائی جائے اور ان کا جینا دوبھر کیا جائے۔
یہ ایسا منفرد رویہ ہے جو سیاست کے لیے اجنبی ہے۔ یہ رویہ تو بادشاہ بھی نہیں اپناتے۔ وہ بھی سیاسی مخالفین کو سانس لینے کا موقع دیتے ہیں۔ انہیں دیوار سے لگانے کے بجائے، ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تاریخ کا وہ بے مثال سیاسی بندوبست ہے جس میں اپوزیشن کو مشتعل کیا جاتا ہے اور اب وہ تنگ آکر کہہ رہی ہے ''نہ چھیڑ ملنگاں نوں‘‘۔ ایسا کیوں ہے؟
پاکستان میں پہلی مرتبہ اقتداراُن لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو سیاسی حرکیات سے پوری طرح بے خبر ہیں۔ سیاست ان کا موضوع ہے نہ تربیت کا حصہ۔ اب سیاست رزم گاہ ہے نہ کھیل کامیدان۔ آج حالت یہ ہے کہ حکومت میں بیٹھے لوگ کبھی ہاتھ سے اینٹیں توڑنے کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کبھی سیاسی مخالفین کو باکسنگ کاچیلنج دیتے ہیں۔ یہ سیاست ہے، کوئی سرکس تو نہیں! سیاست ایک علم ہے۔ یہ ایک آرٹ ہے۔ یہ ناممکنات کو ممکنات میں بدلنے کا نام ہے۔ یہ بندگلی میں راستہ نکالنے کا فن ہے۔ یہ میدانِ جنگ کو مذاکرات کے میز میں بدلنے کاہنر ہے۔ یہ دعوتِ مبارزت نہیں، پیغامِ صلح ہے۔ جو آج نوازشریف اورمولانا صاحب کے مقدرکا فیصلہ کرنے بیٹھے ہیں، وہ سیاست سے پوری طرح بے خبرہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ریاست اور سماج کو تصادم کی راہ پرڈال دیا ہے۔
کل 27 دسمبر ہے اور بینظیر بھٹو صاحبہ کی برسی کا اجتماع ہے۔ اس سال یہ ایک پارٹی کا اجتماع نہیں، اپوزیشن کا جلسہ ہے۔ سیاسیات کاایک طالب علم سمجھ سکتا ہے کہ کیسے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو جیسی اپنے عہد کی متنازع سیاسی شخصیات آہستہ آہستہ مشترکہ سیاسی ورثہ بنتی جارہی ہیں۔ تاریخ اسی طرح آگے بڑھتی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا۔ 1947ء تک قائد اعظم بھی متنازع تھے۔ آج مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کے اس اعلامیے پر دستخط کررہے ہیں جس میں قائداعظم کے خواب کی تعبیر کیلئے جدوجہد کاعزم کیا گیا ہے۔
آج اگر اقتدار کھلاڑیوں اورغیر سیاسی طبقات کے بجائے سیاسی لوگوں کے ہاتھ میں ہوتا توان کا رویہ کچھ اورہوتا۔ ان کی نظرسیاسی حرکیات پر ہوتی اور ان کے فیصلوں میں اس کاعکس ہوتا۔ میں سوچ سکتا ہوں کہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی برسی پہ کس طرح کی تقاریر ہوںگی۔ پیپلزپارٹی کے لیے اب یہ ممکن دکھائی نہیں دیتاکہ وہ پی ڈی ایم سے الگ اپنی ترجیحات کا تعین کرسکے۔ حکومت کے غیرسیاسی طرزِ عمل نے کسی سیاسی جماعت کے لیے یہ گنجائش نہیں چھوڑی کہ وہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کر سکے۔
آج جب حالات کے بگاڑ کی تمام تر ذمہ داری اہلِ اقتدار کی ہے توبنائو اور سلجھائو بھی انہی کاذمہ ہے۔ یہ حکومت اپنی ناکامی پرخود ناطق ہے۔ پہلے زبانِ حال سے اور اب تو زبانِ قال سے بھی۔ خان صاحب اب ان وجوہ کا ذکر کر رہے ہیں جواس ناکامی کا باعث بنیں۔ گویا ناکامی کو وہ بھی امرِواقعہ مان رہے ہیں۔ یوں بھی وہ اڑھائی سال مکمل کرچکے۔ اس کارکردگی کے ساتھ یہ کسی کارنامے سے کم نہیں۔
یہ ناکامی نئے انتخابات کے لیے کم جواز نہیں۔ اس سے بڑاجواز سیاسی عدم استحکام ہے جس کے تدارک کی کوئی صورت نئے انتخابات کے سوا نہیں ہے۔ لازم ہے کہ اقتدار کے اصل مالک اس کا ادراک کریں اور سیاسی عمل کو فطری راستے پر چلانے میں مددگار ہوں۔ چونکہ اقتدار بالفعل ان کے ہاتھ میں ہے، اس لیے اس خرابی کی اصلاح بھی انہی کی ذمہ داری ہے۔ میری درخواست ہوگی کہ وہ اسے اپنی آخری سیاسی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ادا کریں۔ بہتر ہوگا اگر مارچ2021ء میں عام انتخابات کرا دیے جائیں۔