مولانا شیرانی، مولانا اجمل قادری، احتساب... معلوم ہوتا ہے ترکش میں موجود ہر تیر آزمانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، شاید اس کشمکش کو آخری معرکہ سمجھتے ہوئے۔ کیا اپوزیشن بھی جگر آزمانے کیلئے تیار ہے؟
مولانا شیرانی کے بارے میں یہ حسنِ ظن تھاکہ وہ شخصی حرمت کو بر قرار رکھیں گے۔ انہوں نے مگر اپنے اختلاف کے اعلانیہ اظہار کیلئے جس وقت کا انتخاب کیا اور اس کیلئے جو اسلوب اپنایا، اس نے اس حسنِ ظن کی عمارت کو قائم نہیں رہنے دیا۔ یہ وقت وہ ہے جب مولانا فضل الرحمن اپنی سیاسی زندگی کی سب سے بڑی جنگ لڑنے جا رہے ہیں۔ شیخ رشید نے بار بار بتایا ہے کہ اس جنگ میں، خاکم بدہن، ان کی جان کو خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔
ایسے مو قع پر اگر کسی کو اصولی اختلاف یاد آ جائیں اوروہ خود کو اظہارِ اختلاف تک محدود نہ رکھے، اقدام کر گزرے توپھر بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے۔ پھر یہ شک پختہ ہو جاتا ہے کہ یہ 'تیر‘ اب کسی اور ترکش کا حصہ ہے۔ ایسا ترکش جس میں انواع و اقسام کے تیر ہیں۔ مولانا، میڈیا ‘ سیاستدان اور معلوم نہیں کتنے۔ بعض فضا میں رہتے اور اکثر دکھائی دیتے ہیں‘ بعض خاموش اور گمنام پڑے رہتے ہیں اور بوقتِ ضرورت ہی رونما ہوتے ہیں۔
مولانا اجمل قادری گمنامی میں آسودہ زندگی گزار رہے تھے۔ یہ زندگی کیسی ہے، اس کے احوال سہیل وڑائچ صاحب نے ایک دن ان کے ساتھ گزار کر سب کو دکھا دیے۔ مولانا عبیداللہ انور کے صاحبزادے ہیں۔ گدی پاس ہے۔ سیاست کا شوق بھی ہے۔ اپنی جمعیت علمائے اسلام بنا چکے مگر انہیں جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ سیاست گدی نشینی سے مختلف کام ہے۔ عملاً خیرباد کہہ دیا مگراب اچانک نمودار ہوگئے۔
وہ کس کو کمک پہنچا رہے ہیں، معلوم ہوچکا۔ یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ وہ کس ترکش کے تیرہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ صف کے دونوں اطراف فرزندانِ دیوبند کھڑے ہیں۔ یہ تاریخ میں پہلی بار نہیں ہورہا۔ تقسیم ہند کے وقت بھی ایک طرف مولانا حسین احمد مدنی تھے اور دوسری طرف مولانا شبیر احمد عثمانی تھے۔ سوشلزم کی حمایت میں مولانا مفتی محمود اور مولانا غلام غوث ہزاروی کھڑے تھے اور مخالفت میں مولانا احتشام الحق تھانوی اور ان کا طائفہ۔
احتساب کا نیا شکار خواجہ آصف ہیں۔ میڈیا میں نیب کی ترجمانی شہزاد اکبر صاحب کر رہے ہیں‘ حالانکہ حکومت کہتی ہے‘ ان کا اس ادارے سے کوئی تعلق نہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی احتساب کی زد میں ہیں۔ الزام یہ ہے کہ ان کا معیارِ زندگی ان کے وسائل سے مطابقت نہیں رکھتا۔ سوال یہ ہے کہ چند امرا کے استثنا کے ساتھ اس ملک میں کون ہے جس کا معیارِ زندگی اس کی ظاہری آمدن کے مطابق ہے؟ نوے پچانوے فیصد لوگ وہ ہیں جن کے معیارِ زندگی اور وسائل میں کوئی مطابقت تلاش نہیں کی جا سکتی۔
جس آدمی کی ماہانہ تنخواہ تیس ہزار روپے ہے اور اس کے علاوہ اس کا کوئی معلوم ذریعہ آمدن نہیں وہ تین بچوں کے ساتھ کرائے کے ایک گھر میں، کیسے مہینہ گزار سکتا ہے؟ یہ ناممکن ہے۔ اس میں کوئی شبہ ہی نہیں کہ اس کا 'معیارِ زندگی‘ اس کی آمدن سے زیادہ ہے۔ کیا اعلیٰ سرکاری حکام میں سے کوئی ایسا ہے جس کا معیارِ زندگی اس کی آمدن کے مطابق ہو؟ تین سو کنال کے گھر میں رہنے والا کوئی شخص کم و بیش دو لاکھ تنخواہ میں کیسے گزارہ کرتا ہو گا؟
معیارِ زندگی اور آمدن میں اگر مطابقت تلاش کی جائے گی تو اس ملک کے نوے فیصد لوگوں کو سزا دینا ہوگی۔ جو بچ جائیں گے، ان کی سفید پوشی کا بھرم ختم ہو جائے گا۔ چند امرا کا معاملہ الگ ہے۔ یہ عجیب و غریب قانون ہے کہ جس میں ہر آدمی مجرم ہے، الا یہ کہ وہ خود کو بے گناہ ثابت کر دے۔ اخلاقیاتِ قانون یہ کہتی ہیں کہ ہر آدمی بے گناہ ہے، الا یہ کہ اس پر کوئی جرم ثابت ہو جائے۔
اب اس قانون کے تحت، آپ جس کوچاہیں پکڑ لیں کہ ان کے ذرائع آمدن اوروسائل میں کوئی مطابقت نہیں۔ نوے فیصد لوگ دیانتدار ہونے کے باوجود کبھی یہ ثابت نہیں کرپائیں گے۔ مدارس کا حکومتی نظام سے یہی سوال ہے کہ مسجد میں رکھے غلے سے نکلنے والی آمدن کے بارے میں کیسے بتایا جا سکتا ہے کہ کہاں سے آئی ہے؟ نظام کا یہی خلا ہے جس سے حکومتیں فائدہ اٹھاتی اور مخالفین کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کردیتی ہیں۔
حکومت کے اقدامات دیکھیے تومعلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام لوگ جن کے اثاثے اور معیارِ زندگی، ان کی آمدن سے زیادہ ہیں، ان میں سے اکثرنون لیگ میں پائے جاتے ہیں اورباقی اپوزیشن کی دوسری جماعتوں میں۔ یہ سماج کی انوکھی تقسیم ہے جو اس سے پہلے کبھی ظاہر نہ ہوئی۔ بلاشبہ ایک دن انسان دو گروہوں میں منقسم ہو جائیں گے مگروہ روزِ محشر ہوگا۔ زمین پر خدائی کا دعویٰ رکھنے والے یہاں پر ہی حشر برپا کرناچاہتے ہیں۔
یہ مگر جنگ ہے اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے، حشر برپا کرنا بھی اور پھر اگر یہ بھی اندازہ ہوکہ یہ آخری معرکہ ہے توپھر ترکش کا ہرتیر آزمایاجاتا ہے۔ یہی اس وقت ہو رہا ہے۔ اس ملک کے دانشور کا مشورہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کوصبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے یعنی اپوزیشن ہردن بے توقیری برداشت کرے، صبر کے ساتھ جیلوں میں جائے، مقدمات کا سامنا کرے اور ایک دن فنا کے گھاٹ اتر جائے۔
اگر یہ آخری معرکہ ہے تو کیا اپوزیشن اس کیلئے تیار ہے؟ اہلِ سیاست کا کل اثاثہ عوامی تائید ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ اسے کیسے استعمال کر تے ہیں۔ اس کا تعلق حکمت اور بصیرت کے ساتھ ہے۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ پی ڈی ایم کی جماعتیں انفرادی اورگروہی مفادات کو مقدم رکھتی ہیں یا اجتماعی مفاد کو؟ جمہوریت کویا حکومت کو؟ ظلم کے خلاف احتجاج کرتی ہے یا تابعداری؟ ووٹ کی عزت یا دو دن کی آسودہ زندگی؟
پیپلزپارٹی اگر نوازشریف کی واپسی کا مطالبہ کرتی ہے تو یہ مضحکہ خیز ہوگا۔ اس دور میں سب سے زیادہ ستم شریف خاندان نے اٹھائے ہیں۔ شہباز شریف بیٹے کے ساتھ جیل میں ہیں۔ مریم نوازملک میں ہیں اور انہیں گرفتار کرنے کے مواقع تلاش کیے جارہے ہیں۔ نوازشریف آئیں گے تو جیل ہی جائیں گے۔ کیا پیپلزپارٹی یہی چاہتی ہے؟ یہ کسی کا انفرادی نقطہ نظر توہو سکتا ہے مگر پیپلزپارٹی بطور جماعت یہ موقف اختیار کرے گی تو اس کا دفاع مشکل ہوجائے گا۔
اگر اپوزیشن اس معرکے میں سرخرو ہونا چاہتی ہے تواس کے لیے چند بنیادی نکات پر اتفاقِ رائے کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ اگر اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام یا نون لیگ کو تنہا کیا گیا تواس کی سزا سب کو ملے گی۔ ایک طرف سب تیرایک ترکش میں اکٹھے کیے جا رہے ہیں اور دوسری طرف موجود تیر بے سمت چلنے لگیں تو یہ کوئی اچھی حکمتِ عملی نہیں ہوگی۔
صاحبانِ اقتدار اپوزیشن کو کوئی راستہ دینے کیلئے تیار نہیں۔ ان کا اپوزیشن کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ بغیر احتجاج کیے، اس نظام کو قبول کرے۔ یہ نظام اگر شہباز شریف کی طرح اس کے راہنماؤں کو جیل میں رکھے تو اف نہ کرے۔ وزرا اس کو بے توقیر کریں تو ہنسی خوشی برداشت کرے۔ پارلیمنٹ میں جو قانون بنے، نہ صرف اس کی تائید کریں بلکہ اس کے ساتھ وہ تقاریر بھی شوق و ذوق کے ساتھ سنے جو ان کی مذمت میں کی جائیں۔
اگر اپوزیشن کویہ 'پیکیج‘ منظور ہے تواس کی مرضی۔ اگر وہ عزت کے ساتھ جینا چاہتی ہے تو اس کی ایک قیمت ہے جو اس کو ادا کرنی ہے۔ پہلی قیمت جماعتی مفاد سے بلند ہونا ہے۔