"KNC" (space) message & send to 7575

تعلیمی ایمرجنسی کی ضرورت!

ایسا یقینا پہلی بارہوا ہے۔ پشاور یونیورسٹی کے ملازمین سے کہہ دیا گیا ہے کہ اس ماہ انہیں آدھی تنخواہ ملے گی۔ صرف بنیادی تنخواہ‘ جس میں الاؤنسز شامل نہیں ہوں گے۔ ایک عام ملازم کی بنیادی تنخواہ تیرہ سے بائیس ہزار روپے ہے۔ یہ سوچنا اب ان کا کام ہے کہ اس رقم سے وہ ایک ماہ کے اخراجات کیسے پورے کر پائیں گے؟ عام ملازمین کے ساتھ اس فیصلے سے اساتذہ بھی متاثر ہوں گے۔وزیر اعظم صاحب کو پرانی باتیں کیا یاد دلائی جائیں؟ کوئی ایک وعدہ‘ کوئی ایک دعویٰ‘ جسے انہوں نے پورا کیا ہو یا جس سے رجوع نہ کیاہو؟ پھر اگر کوئی امید باقی ہو تو...
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں ترا پیماں جاناں
(احمد فراز کی اس غزل کا ہر شعر‘ معلوم ہوتا ہے کہ خان صاحب کی سیاست کو سامنے رکھ کر کہا گیا ہے۔ فراز صاحب نے لیکن یہ کبھی نہ سوچا ہو گا کہ شبلی فراز ایک دن خان صاحب کے وزیر اطلاعات ہوں گے)۔ 
خان صاحب کی کہی ایک بات مگر ایسی ہے کہ اس کا ذکر ضروری ہے۔ انہوں نے نوازشریف صاحب کی سیاست اور طرزِ حکمرانی پر ایک ہی سنجیدہ تنقید کی ہے۔ ورنہ ان کی تقاریر کا ننانوے فیصد حصہ الزامات ہیں اور عوامی جذبات کی تجارت۔ خان صاحب کا کہنا یہ تھا کہ قومیں سڑکوں‘ موٹرویز اور بلندوبالا عمارتوں سے نہیں بنتیں‘ افراد کی تعمیر سے بنتی ہیں۔ ہمیں انسانوں پر خرچ کرنا چاہیے۔ اس سے ان کی مراد تھی تعلیم‘ صحت‘ پینے کا صاف پانی اور دوسری بنیادی ضروریات۔
اس بات کو ایک حد تک متبادل بیانیہ کہا جا سکتا ہے جو خان صاحب نے پیش کیا۔ میرے علم کی حد تک یہ واحد سنجیدہ بات ہے جو ان کی زبان سے نکلی۔ موجودہ سیاسی و معاشی بندوبست کے تحت‘ دنیا میں ترقی کے دوہی ماڈل سامنے آئے ہیں۔ ایک یہ کہ انفراسٹرکچر کو اولیت دی جائے جو وسیع پیمانے پر معاشی سرگرمی کو مہمیز دے سکتا ہے۔ اس سے سرمایہ دار کو وہ پُر کشش ماحول میسر آتا ہے جو اسے سرمایہ کاری پر آمادہ کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں روزگار پیدا ہوتا ہے اور یوں عام آدمی کے وسائل بہتر ہوتے ہیں اور وہ ان کو صحت اور تعلیم پر خرچ کر سکتا ہے۔ اس لیے ریاست کو وسیع انفراسٹرکچر کی تعمیر کو اولیت دینا چاہیے۔ 
دوسرا ماڈل یہ ہے کہ دراصل یہ فرد ہے جو معاشی عمل کو مہمیز دیتا ہے۔ اگر وہ صحت مند‘ تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہو گا تو اس سے معاشی سرگرمی میں اضافہ ہو گا۔ اس لیے ریاست کو فرد پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ گویا پہلے ماڈل میں بجٹ کا بڑا حصہ انفراسٹرکچر پر اور دوسرے میں صحت وتعلیم پر خرچ ہونا چاہیے۔ عام طور پر دنیا نے پہلے ماڈل کو ترجیح دی ہے۔ مسلم دنیا میں ملائیشیا اس کی ایک مثال ہے۔ایک ریاست جو ماڈل اپناتی ہے‘ بجٹ کی ترجیحات اس کے مطابق طے ہوتی ہیں۔ اگر خان صاحب اپنی بات کا بھرم رکھتے اور جو کہتے تھے‘ اس کو عملی صورت دیتے تو پھر ان کی ترجیحات میں تعلیم اور صحت کو اولیت مل جاتی۔ تین سال میں مگر یہ معلوم ہوا کہ انہوں نے یہ بات کہیں سے سن لی لیکن ان کے پاس وہ علمی و فکری استعداد (Intellectual capital) نہیں تھی جو اسے ایک وژن میں ڈھال دیتی۔
گزشتہ تین برسوں میں انفراسٹرکچر تو ایک طرف‘ تعلیم اور صحت کوبھی بری طرح نظر انداز کیا گیا۔ پنجاب کے ہسپتالوں میں مفت ادویات ملتی تھیں۔ وہ ختم ہو گئیں۔ ٹیسٹ کی سہولت واپس لے لی گئی۔ صحت کارڈ پچھلی حکومت کی ایک پالیسی تھی جسے نئے لیبل سے جاری رکھا گیا لیکن ابھی تک اس کے ثمرات کہیں دکھائی نہیں دیے۔ اسلام آباد میں پمز جیسے ہسپتال سے جان چھڑائی جا رہی ہے‘ جیسے عوام کو صحت کی سہولتوں کی فراہمی ذمہ داری نہیں‘ بوجھ ہے۔
تعلیم کا بھی یہی حال ہے۔ اعلیٰ تعلیم کا معاملہ یہ ہے کہ طلبا کے وظائف بند کر دیے گئے۔ لیپ ٹاپ جیسی سکیمیں ختم ہو گئیں۔ یونیورسٹیوں کے حالات برے ہیں۔ یہ محض پشاور یونیوسٹی کا قصہ نہیں‘ کم و بیش تمام سرکاری جامعات کو اسی طرح کی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ بنیادی تعلیم کی حالت اس سے ناگفتہ بہ ہے۔ ریاست کی ایک ضرورت کے تحت یکساں نظامِ تعلیم کا نعرہ بلند کیا گیا۔ اس کی ایک مضحکہ خیز صورتِ حال ہمارے سامنے ہے۔ اس کے مطابق دینی مدارس کا نصاب اور ماحول وہی رہے گا‘ لیکن ساتھ میں وہ سرکار کا دیا ہوا نصاب بھی پڑھیں گے۔ حکومت کے خیال میں اس سے نظامِ تعلیم یکساں ہو جائے گا۔
عوام کے ساتھ یہ سلوک نیا نہیں۔ پچھلی حکومتوں نے بھی اس معاملے میں مجرمانہ کوتاہی کی۔ تعلیم‘ صحت اور پینے کے صاف پانی جیسی سہولتوں کی فراہمی کو اولیت نہیں دی گئی۔ اب تو معاملہ اس سے کہیں بدتر ہے۔ لگتا ہے‘ خان صاحب کے پیشِ نظر سرے سے کوئی ماڈل ہی نہیں۔ نہ انفراسٹرکچر نہ بنیادی سہولتیں۔ پناہ گاہوں جیسے سطحی منصوبے‘ جو جس رفتار سے بنتے ہیں‘ اسی رفتار سے بند ہو رہے ہیں۔
پاکستان کو مدت سے ایک لیڈر کی ضرورت ہے جو اس کی ترجیحات کا درست تعین کرے۔ ایک وژن دے اور پھر اس پر عمل کے لیے اہل لوگوں کی ایک ٹیم بنائے۔ نواز شریف صاحب پر لاکھ تنقید کی جائے‘ اس بات سے انکار نہیں کیاجا سکتا کہ انہوں نے ایک وژن کے ساتھ حکومت کی اور اس کے نتائج نکلے۔ پاکستان کو پہلی بارایک جاندار انفراسٹرکچر ملا۔ اب مستقبل میں جو معاشی سرگرمی ہونا ہے‘ اس کی بنیاد یہی وژن ہے۔ ان کا یہ وژن سی پیک کے ماڈل سے ہم آہنگ ہے۔ اگر ان کی حکومت جاری رہتی تو یہ ہم آہنگی ثمربار ہوتی۔خان صاحب متبادل کیا دیتے کہ انہوں نے اُس ماڈل کو بھی اپنی سیاست کی آگ میں جھونک دیا جس کے نتائج عوام نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔ وہ اگرکوئی جوابی بیانیہ مرتب کر سکتے تو عوام کو یہ موقع ملتا کہ وہ دو مختلف ماڈلز کا تقابل کرتے اور اپنے طورپر کوئی رائے بناتے۔ ایک سے زیادہ ماڈلز کی موجودگی نظام پر عوامی اعتماد میں اضافہ کرتی ہے کہ اگر ایک نے کام نہ کیا تو متبادل موجود ہے۔
خان صاحب اگر اپنی بات کا بھرم رکھتے تو ایسے نظام کی طرف پیشرفت کرتے جس میں صحت اور تعلیم کو اولیت حاصل ہوتی۔ ایسے افراد کو تلاش کرتے جو اس ماڈل پر یقین رکھتے ہیں۔ ایسا کچھ نہ ہو سکا۔ اس ماڈل کے لیے ہماری ترجیحات کا ازسرِ نو تعین ضروری ہے۔ موجودہ ریاستی ماڈل جو دراصل سکیورٹی سٹیٹ کا ماڈل لگتا ہے‘ ویلفیئر ریاست نہیں بنا سکتا۔ اب خان صاحب کو اس لیے تو نہیں لایا گیا کہ وہ سکیورٹی پیراڈائم ہی کو بدل ڈالیں۔ یہ جرأت کرنے والے پھانسی چڑھتے ہیں یا جلا وطن ہوتے ہیں۔
آج ماڈل کی تبدیلی تو ممکن نہیں لیکن تعلیم کوبچانے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔ ملک میں ایجوکیشن ایمرجنسی کی ضرورت ہے۔ جس خطرے نے پشاور یونیورسٹی کے دروازے پر دستک دی ہے‘ وہ مزیدکئی تعلیمی اداروں تک پہنچنے والا ہے بلکہ پہنچ چکا ہے۔ اسلامی یونیورسٹی بھی معاشی بحران کا شکار ہے۔ توسیع کا امکان تو ایک طرف‘ ان اداروں کے لیے موجودہ اخراجات کوپورا کرنا ممکن نہیں دکھائی دے رہا۔
سوال یہ ہے کہ میں کسے خطرے کا احساس دلا رہا ہوں؟ ظاہر ہے حکومت کو‘ یہ جانتے ہوئے بھی اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ حکومت کی پہلی اور آخری ترجیح نوازشریف ہیں۔ ایسی حکومت کو تعلیم سے یا مہنگائی سے کیاغرض؟ لکھنے والے کی مگر مجبوری ہے کہ وہ ان مسائل سے آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔ آنے والے کل‘ کم از کم یہ تو کہہ سکتا ہے کہ اس نے اپنی کمزور آواز بلند کی تھی۔ اگر مخاطب کے کان بند تھے تو وہ کیا کر سکتا تھا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں