بھٹو خاندان کی وراثت یا پھرزرداری صاحب کی روایت؟ پیپلزپارٹی کو اب دوٹوک فیصلہ کر ناہوگا۔پہلے یہ عرض کردوں کہ میرے نزدیک دونوں میں کیا فرق ہے؟ایک عزیمت اور جد وجہد کی وراثت ہے اورایک مصلحت اوراقتدارکی روایت۔اقتدارہی ہر سیاست دان کی منزل ہے ۔فرق راستے کے انتخاب میں ہو تا ہے۔کوئی اقتدارکے لیے سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ رہتا ہے۔کوئی اپنے لیے ایک حد طے کرتااوراس سے آگے نہیں جاتا۔ بھٹو اور بے نظیربھٹو نے بھی اقتدار کی سیاست کی۔انہوں نے لیکن اپنی حدود کا تعین کیا۔دونوں جانتے تھے کہ انہوں نے جو راہ اپنائی ہے‘اس میں جان بھی جا سکتی ہے۔اس کے باوصف انہوں نے اس پُر خطر راستے کاانتخاب کیا اورجان دے دی۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے عزیمت کاراستہ اپنایا۔بھٹو صاحب نے بھی اپنابیانیہ نہیں چھوڑا اور بے نظیر بھی مصلحت کے راستے پر ایک خاص حد سے آگے جانے پر آمادہ نہ ہوئیں۔ایسا نہیں ہے کہ وہ مصلحت کے خلاف تھیں۔ایک مرحلے پر بے نظیر بھٹو نے جنرل اسلم بیگ کو تمغۂ جمہوریت سے بھی نوازا۔طاقت کے مراکزکے ساتھ ربط پیدا کیا؛تاہم دہشت گردی اور انتہا پسندی کو مستردکیااور قومی مفاد کے نام پر اس پالیسی کی مخالفت کی‘ریاست جسے جاری رکھے ہوئی تھی۔وہ جانتی تھیں کہ اس مخالفت کی ایک قیمت ہے ا وروہ یہ قیمت دینے پر تیار ہوگئیں۔آصف زرداری صاحب نے اول و آخر اقتدار کی سیاست کی۔انہوں نے بطورِ صدر اچھے کام بھی کئے لیکن مقتدر قوتوں کی حاکمیت کو چیلنج نہیں کیا۔ایک آدھ دفعہ جب تصادم کی کیفیت پیدا ہو ئی تو انہوں نے گریز کا راستہ اپنایا۔اس کے بعد انہوں نے ایسی قوتوں سے ساز باز کو ایک مستقل حکمتِ عملی کے طور پر اپنا لیا۔اس کے پیچھے یہ سوچ کارفرما تھی کہ پاکستان میں اقتدار تک پہنچنے کا واحد راستہ یہی ہے۔یہ بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں۔حالات نے عمران خان صاحب کو بھی اس نتیجے تک پہنچایا۔
زرداری صاحب کو تاریخ میں زندہ رہنے کا کوئی شوق نہیں۔جنہوں نے یہ شوق پالا‘ان کا انجام سامنے ہے۔وہ اس حکمتِ عملی کی ایک اور توجیہ بھی کرتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ جمہوریت کے لیے پیپلزپارٹی نے جو قربانیاں دینا تھیں‘وہ دے چکی۔دوسروں کو بھی یہ سعادت ملنی چاہیے اور اب یہ اعزاز شریف خاندان کو منتقل ہو جانا چاہیے۔اپنے دورِ صدارت میں وہ اپنے ملا قاتیوں سے اکثر یہ بات کہتے تھے۔وہ آج بھی اسی سیاست کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔انہیں اس نظام کے خاتمے سے کوئی دلچسپی نہیں‘ اگر انہیں شریکِ اقتدار رکھا جا ئے۔اگر سندھ حکومت باقی رہتی ہے‘ ان کے خلاف احتساب کے نام پر وہ سختی نہیں ہوتی جو نون لیگ کے ساتھ روا رکھی جا رہی ہے اور سینیٹ میں بھی ان کی حیثیت باقی رہتی ہے تو ان کے خیال میں یہ سودا مہنگا نہیں۔ اس کے لیے وہ آج بھی مقتدر حلقوں سے سودا بازی کے لیے تیار ہیں‘ جس طرح چیئرمین سینیٹ کے معاملے میں انہوں نے کی۔ کیایہ سیاست کامیاب رہے گی؟اگر زرداری صاحب کے فلسفے ہی کو سامنے رکھتے ہوئے اس سوال کا جواب تلاش کیاجا ئے تو میرا خیال ہے کہ اس بار یہ حکمتِ عملی زیادہ کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دیتی۔میری اس رائے کی بنیاددوحقائق پرہے‘ایک حقیقت سماجی ہے اور ایک سیاسی۔
سماجی حقیقت یہ ہے کہ اب کچھ پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔کوئی رابطہ اب خفیہ نہیں رہتا۔سات پردوں میں ہونے والی ملاقاتیں بھی طشت ازبام ہو جاتی ہیں۔یہ تو ویسے بھی بے حجابی کا دور ہے۔پیپلزپارٹی آج کس طرح پی ڈی ایم کی اجتماعی رائے کے برخلاف جارہی ہے اور کیوں‘اس کے اسباب ظاہر وباہر ہیں۔اگر الیکٹرانک میڈیا کچھ چھپاتا ہے تو سوشل میڈیا ظاہر کر دیتا ہے۔اس لیے اگر پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ وہ مقتدرحلقوں سے ساز باز کوپوشیدہ رکھتے ہوئے‘جمہوریت پسندی کا بھرم قائم رکھ پائے گی تو اب یہ ممکن نہیں ہو گا۔یہ سماجی تبدیلی ہے۔سیاسی حقیقت یہ ہے کہ آج مقتدرحلقوں میں پیپلزپارٹی سمیت کسی سیاسی جماعت کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں ہے۔تحریکِ انصاف یا ق لیگ کااستثناہے اور اس کی وجہ سب کومعلوم ہے۔آج یا کل‘پیپلزپارٹی کے ساتھ وہی سلوک ہونا ہے جو نون لیگ کے ساتھ روا رکھاجارہا ہے۔اب حکومت نے سرے محل اور سوئس اکاؤنٹس کوکھولنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔سیاسی جماعتوں کو دھوکہ دیاجاتا ہے کہ یہ سب خان صاحب کا کیادھرا ہے۔یہ خلافِ واقع ہے۔مجھے اس معاملے میں کبھی شبہ نہیں ہوا کہ قوت کے تمام مراکز احتساب کے اُس عمل میں شریک اور ہم خیال ہیں جو اس وقت جاری ہے۔نہ تو شہبازشریف صاحب کے خلاف احتساب خان صاحب کا انفرادی فیصلہ ہے اور نہ سرے محل کاقصہ کھولنے کا۔مولانا فضل الرحمن صاحب اس دھوکے میں مبتلا ہوئے اور وعدے پر اعتبار کیا۔شہباز شریف کے ساتھ بھی یہی ہوا۔یہ ہو نہیں سکتا کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ مختلف معاملہ ہو۔مقتدرحلقوں کے پیشِ نظر جو سیاسی مستقبل ہے‘اس میں نون لیگ یا پیپلزپارٹی کے لیے کوئی کردار نہیں ہے۔اب مستقبل میں کیا ہو گا‘یہ کوئی نہیں جانتا۔تاہم لوگ ارادہ کرتے ہیں اور میں بھی ایسے ہی ایک ارادے کاذکررہاہوں۔صدارتی نظام سمیت بہت سے امکانات پر کام ہو رہا ہے اورمتبادل سوچے جارہے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کا ایک مضبوط اتحاد ہی ان عزائم کا راستہ روک سکتا ہے۔طاقتور حلقے اس سے باخبر ہیںا وراس لیے ان کی پوری کوشش ہے کہ سیاسی جماعتوں میں کوئی مضبوط اتحادوجود میں نہ آئے۔مولانا فضل الرحمن جب نکلے تو نون لیگ اور پیپلزپارٹی کو سہانے خواب دکھا کر ان سے دور رکھا گیا۔یوں ان کا لانگ مارچ حکومت کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر ختم ہو گیا۔پی ڈی ایم کی تحریک اٹھی تو پیپلزپارٹی کو لالچ دیا گیا اور وہ اس جال میں آگئی۔اس سے پی ڈی ایم کی تحریک کو ضعف پہنچا۔
اگر پی ڈی ایم کی تحریک اپنے نتائج حاصل کیے بغیر ختم ہو گئی تواس سیاسی منظر نامے میں رنگ بھرنا آسان ہو جائیں گے جس میں مقتدر حلقوں کی سوچ کے مطابق‘نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ پیپلزپارٹی آج جس سندھ حکومت کو بچاناچاہتی ہے‘اس نے بھی ختم ہو جا نا ہے۔یوں پیپلزپارٹی اقتدار سے بھی جائے گی اور عوام کی نظروں میں بھی ناقابلِ اعتبار ٹھہرے گی۔کیا پیپلزپارٹی یہ سودا کرنے کے لیے تیار ہے؟
میرا تجزیہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم کا اتحاد سب سے زیادہ پیپلز پارٹی کے لیے مفید ثابت ہوا۔اس نے پیپلزپارٹی کو یہ موقع دیا کہ وہ ایک بار پھر ملک گیر جماعت بن سکے۔ ایک طویل مدت کے بعد پنجاب میں اس جماعت نے انگڑائی لی اور اس میں زندگی کے آثار پیدا ہوئے۔ پیپلز پارٹی اگر اپنی گرم جوشی برقرار رکھتی تواپنے کھوئے ہوئے حلقے کو اپنی طرف متوجہ کر سکتی تھی۔پارٹی کی غیر فعالیت یا کسی اور سبب سے جو لوگ تحریک انصاف میں گئے تھے‘وہ واپس آ سکتے ہیں۔ندیم افضل چن اکیلے نہیں ہیں۔ایسے بہت سے ہیں جوتحریکِ انصاف سے بیزار ہیں مگر نون لیگ میں نہیں جاناچاہتے۔اگر پیپلزپارٹی کا پنجاب میں احیا ہوتا ہے تویہ سب لوگ واپس آ سکتے ہیں۔
یہ احیا اسی وقت ہو گاجب پیپلزپارٹی بھٹوصاحب اور بے نظیر کی وراثت کو اپنا لے۔یوں بھی زرداری صاحب کی خواہش پوری ہوچکی اور اب قربانیوں کی سعادت شریف خاندان اور نون لیگ کو منتقل ہو چکی۔پیپلزپارٹی کو اب کوئی بڑی قربانی دیے بغیر‘بہت کچھ مل سکتا ہے۔''فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے:دل یا شکم‘‘؟