عمران خان صاحب سے مایوس خلقِ خدا کی اگلی منزل کون سی ہے؟خدا سے مایوسی کفر ہے مگر انسانوں کا معاملہ دوسرا ہے۔اُن سے توقعات باندھی جاتی ہیں اورامیدیں وابستہ کی جاتی ہیں۔توقعات پورا نہ ہوں تو مایوسی گھیر لیتی ہے۔یہی انسان کی فطرت ہے۔انسان میں پوشیدہ امکانات محدود ہیں۔ایک وقت آتا ہے کہ اس کے سوتے خشک ہو جاتے ہیں۔وہ زبانِ حال سے پکار اٹھتا ہے کہ اس کا دامن خالی ہو چکا۔
مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی کے فکر کے شناور‘ایک صاحبِ علم نے مجھ سے اپناایک تاثر بیان کیا۔ان کے خیال میں مولانا مودودی کوجو کہنا تھا 1950ء کی دہائی کے اختتام تک انہوں نے کہہ ڈالاتھا۔اس کے بعد انہوں نے جو لکھاوہ اپنی کہی ہوئی باتوں کا بیان اورشرح تھی۔یہ تاثر ایک ایسی شخصیت کے بارے میں ہے جس کا علمی کام بیسویں صدی کے مسلم فکر کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے۔
خان صاحب کے پاس جوکچھ تھا‘وہ سامنے آچکا۔اب ان کا کیسہ خالی ہے۔ان کا فکری واخلاقی اثاثہ اور قوتِ عمل‘ ظاہر ہوچکے۔ وہ زندگی‘ مذہب‘ سماج اور ریاست کو کتنا سمجھتے ہیں‘سب جان چکے۔ان میں سیکھنے کی صلاحیت کتنی ہے‘اس بارے میں بھی کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔یوں بھی عمر کے اس مرحلے پرزوال ڈیرے ڈال دیتا ہے۔ انہوں نے اس معاشرے کو جو دینا تھا‘دے چکے۔ یہ بات ان کے وہ غالی معتقد بھی جان گئے ہیں جنہوں نے رومان میں بھی اپنے شعور کی آنکھ کو کھلا رکھا ہے۔
ان مایوس لوگوں کا معاملہ مگر یہ ہے کہ روایتی سیاست دانوں کو بھی قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔عمران خان صاحب میں ان کے لیے اصل کشش یہی تھی کہ وہ روایتی سیاست دان نہیں تھے۔انہوں نے خان صاحب سے یہ امید باندھ لی تھی کہ وہ سیاست کو روایتی خامیوں سے پاک کردیں گے۔گمان یہی ہے کہ اکثریت نے یہ امیدیں اخلاص کے ساتھ قائم کیں۔روایتی سیاست کے مسائل بھی کم تکلیف دہ نہیں تھے؛ تاہم سب کچھ کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھنے کے بعد بھی کوئی خان صاحب سے امیدیں وابستہ رکھتا ہے تو پھر یہ ایک ایسا اخلاص ہے جس کوعقل سے کوئی راہ ورسم نہیں۔ مولانااشرف علی تھانوی نے ایک موقع پر اپنے مرید سے کوئی کام کہا۔اس نے کام تو کیامگرعقل کے بجائے اخلاص سے۔ مولانا تھانوی مریدِ سادہ کی حرکت پر مسکرائے اور کہا کہ بعض لوگوں کے دماغ میں بھی عقل کے بجائے اخلاص بھرا ہوتا ہے۔جو آج بھی خان صاحب سے امید رکھتاہے‘اس کا معاملہ مولانا تھانوی کے مرید جیسا ہی ہے۔
میں ان لوگوں کا ذکر نہیں کر رہا جو خان صاحب سے کسی ذاتی مفاد کے لیے وابستہ ہوئے۔ان کا معاملہ دوسرا ہے۔ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جنہیں آج عمران خان میں جومسیحادکھائی دے رہاہے‘وہی مسیحاکل زرداری صاحب میں بھی نظر آ رہا تھا۔پوراامکان ہے کہ آنے والے کل میں پھر اُن میں دکھائی دینے لگے۔میں ایسے لوگوں کا نہیں‘عوام کا ذکر کر رہاہوں جو بہتری کی امید میں خان صاحب سے آس لگا بیٹھے تھے اور جن کا کوئی شخصی مفاد براہ راست ان سے وابستہ نہیں تھا۔
پھر بعض لوگوں میں‘ایک وقت کے بعد وابستگی عصبیت میں ڈھل جاتی ہے۔وہ ہر ناکامی کی توجیہ تلاش کرنے لگتے ہیں۔ان کا دل یہ ماننے پر آمادہ نہیں ہو تا کہ ان کا رومان جھوٹا تھا۔وہ خود کو تسلیاں دیتے اور تنکوں کا سہارا ڈھونڈتے ہیں۔رومان کا مرنا کتنا تکلیف دہ ہوتاہے‘ اپنے فکری سفر میں‘برسوں پہلے میں خود اس منزل سے گزرا اوراس درد کو اب تک محسوس کرتاہوں۔ رومان شخصی ہو یا فکری وسیاسی‘ا س کا ٹوٹنا ایک بڑا المیہ ہے۔اس سے گزرنے کے لیے حوصلہ چاہیے کہ اس کا سامنا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو تا۔مولانا وحیدالدین خان ایک عرصہ فکرِ مودودی کے رومان میں مبتلا رہے۔ایک وقت آیا کہ یہ رومان ٹوٹا اور اس کی کرچیاں ان کے دل میں اُتر گئیں۔جب انہوں نے اس رومان کے ٹوٹنے کی داستان‘ ''تعبیر کی غلطی‘‘ کے عنوان سے لکھی تو اس کا آغازاس جملے سے کیا: ''اس کتاب کی اشاعت میرے اوپر کتنی سخت ہے‘اس کا اندازہ آپ اس سے کر سکتے ہیں کہ میرا جی چاہتا ہے کہ اس کے شائع ہونے کے بعد میں کسی ایسی جگہ جاکر چھپ جاؤں جہاں کوئی شخص مجھے نہ دیکھے اور پھر اسی حال میں مر جاؤں‘‘۔
مولانا نے لیکن اس حقیقت کاسامنا کیا اور اپنے لیے ایک نئی راہ کاانتخاب کیا‘جس پر وہ کم وبیش ساٹھ سال سے پورے استقلال کے ساتھ چل رہے ہیں۔یہی مثبت رویہ ہے۔امیدیں باقی نہیں رہتیں مگر آدمی کوباقی رہناچاہیے۔وہ جب تک زندہ ہے‘اپنے فکر اور عمل کا جائزہ لیتا رہے اورجب ضرورت پڑے ‘ اصلاح پر بھی آمادہ رہے۔عمران خان صاحب سے مایوس لوگوں کے پاس ایک ہی راستہ ہے:سب سے پہلے انہوں نے غور کرنا ہے کہ خرابی راہ میں تھی یا راہنمامیں؟راہ کی خرابی سے مراد یہ ہے کہ منزل تک پہنچنے کیلئے جو طریقہ اختیار کیا گیا تھا ‘وہ غلط تھا۔راہنما کی خرابی سے مراد یہ ہے کہ طریقہ یا سوچ تو درست تھی مگر راہنما میں یہ صلاحیت نہیں تھی کہ منزل تک لے جاتا۔
میں اپنی بات کوایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔ خان صاحب نے بتایا کہ اصل مسئلہ قیادت کی خرابی ہے۔ اگر حکومت کا قائد‘ یعنی وزیر اعظم دیانت دار ہو تو سارامعاشرہ دیانت دارہو جاتا ہے۔ جو خان صاحب کو دیانتدار مانتے ہیں انہیں سوچنا چاہیے کہ تین سال کے ا س تجربے سے کیا ثابت ہوا؟ کیامعاشرہ کرپشن اور بد دیانتی سے پاک ہو گیا؟اگر نہیں ہوا اور یقیناً نہیں ہواتو پھر اس کا ایک جواب یہ ہو سکتا ہے کہ یہ مفروضہ یعنی راستہ ہی غلط تھا۔اصلاح اس طرح نہیں ہوتی۔اس کے لیے کوئی دوسرا راستہ تلاش کرنا پڑے گا۔
دوسراجواب یہ ہو سکتا ہے کہ راستہ یہی درست ہے مگر سربراہ حکومت کے پاس وہ اخلاقی اور فکری اثاثہ ہی موجود نہیں تھاجو قافلے کو منزل تک لے جاتا۔ غلطی راستے میں نہیں‘ راہنما میں ہے۔ خان صاحب سے مایوس لوگوں کو اس سوال پر غور کرنا ہوگا اورپھر ان کا جونتیجہ فکر ہو‘اس کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل اختیار کرناہوگا۔یہ بھی ممکن ہے کہ بیک وقت دونوں باتیں درست ہوں۔راہ غلط ہو اور راہنما بھی۔
عمران خان صاحب سے اب یہ امید نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ خود کو بدلیں گے۔اس عمر میں شخصیت میں بنیادی تبدیلی مشکل سے آتی ہے۔اس سوال پر غور کرنے کے بعد‘دو ہی راستے ہیں۔ایک یہ کہ ان مایوس لوگوں میں جو زیادہ باہمت ہیں‘وہ نئی صف بندی کریں اور اس تجربے سے سیکھتے ہوئے‘ایک نئے لائحہ عمل کے ساتھ جد و جہد پر آمادہ ہوں۔اس میں ان فکری اور سیاسی غلطیوں کو نہ دہرایاجائے جن کا تحریکِ انصاف کے معاملے میں ارتکاب کیا گیا۔
موجود سیاسی قوتوں میں سے کسی کا ساتھ دینے میں شاید ان لوگوں کو مشکل پیش آئے کہ ان سے مایوسی ہی انہیں عمران خان کی جماعت میں لے گئی تھی۔تاہم وہ چاہیں تو ایک بار پھر سیاسی قیادت کے طرزِ عمل پر نظر ڈال سکتے ہیں۔وہ اس پر غور کر سکتے ہیں کہ روایتی سیاست دانوں میں سے کیا کسی سے کوئی امید باندھی جا سکتی ہے؟کیا ان میں کوئی ایساہے جس کا آج اس کے کل سے بہتر ہے؟
میرا اندیشہ یہ ہے کہ خان صاحب سے مایوسی ایسے مخلص لوگوں کو بے عمل نہ بنا دے۔انہیں اپنا کردار ضرور ادا کرنا چاہیے‘یہ سوچ کر کہ مایوسی انسانوں سے ہوتی ہے‘ خدا سے نہیں جوکسی وقت نئے امکانات پیدا کر سکتا ہے۔پھر یہ کہ سیاست میں رومان نہیں ہوتا۔