لفظ اور ابلاغ کا اجتماع تحریر کی شکل میں ظہورکرتا ہے یا پھر تقریر کی صورت میں۔ تحریر اور تقریر کسی صاحبِ ریاضت کی صحبت میں سلوک کی منازل طے کرتے ہیں تو ادب اور فنون وجود میں آتے ہیں۔خطابت کا فن، تقریر کامنتہائے کمال ہے۔مقرر اورخطیب میں فرق ہوتا ہے۔جس طرح ہر موسیقارتان سین نہیں ہوتا اسی طرح ہر مقرر خطیب نہیں ہوتا ۔قدرت اس باب میں بہت فیاض نہیں۔خطیب ہر عہد میں اتنے ہی ہوتے ہیں کہ بس انگلیوں پہ گنے جا سکیں۔
ہر فن کی طرح خطابت کے بھی بہت سے اجزائے ترکیبی ہیں۔با کمال خطیب شورش کاشمیری نے اپنی کتاب '' فنِ خطابت‘‘ کے آغاز میں ان اجزا کی ایک فہرست مرتب کی ہے اور ان کا تناسب بھی بیان کیا ہے۔ جیسے آواز خطابت کا اہم جزو ہے مگرہر بلند آہنگ خطیب نہیں ہوتا۔ آواز اپنی حدودسے تجاوز کرجائے تو نتیجہ صرف سر کادرد ہے۔ تناسب ہی کا نام حسن ہے۔ ایک اچھا خطیب ہمیشہ اس کا لحاظ رکھتا ہے۔
مجھے خطابت کے فن سے بچپن ہی سے دلچسپی ہے۔مذہبی پس منظر کی وجہ سے علما کی تقریریں سننے کا چسکا رہا ہے۔فکری ارتقاجب ایک مرحلے میں جماعت اسلامی تک لے آیا تواپنے اس ذوق کی تسکین کا سامان یہاں میسر نہیں تھا۔ اس مشکل گھڑی میں دو شخصیات نے ہاتھ تھاما۔ ایک مولانا گلزار احمد مظاہری، دوسرے علامہ عنایت اللہ گجراتی۔ برادرم فرید احمد پراچہ نے صحیح لکھاہے کہ ''ایسے خطیب کہ مجمع جن کی مٹھی میں بند ہو، جماعت اسلامی میں دو ہی تھے: مولانا گلزار احمد مظاہری اورعلامہ عنایت اللہ گجراتی‘‘۔ مولانا مظاہری کو کم سننے کا موقع ملا کہ میں نے شعور کی عمر میں قدم رکھاتو ان کی خطابت کا شباب ڈھل رہاتھا۔ علامہ صاحب سے البتہ بہت گہرا تعلق تھا جوان کی وفات تک قائم رہا۔
مولانا گلزاراحمد مظاہری پر انکے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر حسین احمد پراچہ کی کتاب ملی۔ مطالعہ شروع کیا توایک پورادور یادداشت کے نہاں خانے سے نکل کرآنکھوں کے سامنے آکھڑا ہوا۔کتاب ختم کی تو ایک احساسِ زیاں کو ہم نشیں پایا۔نعمتیں چھن جاتی ہیں مگرقدرت ہمیں نعم البدل کا مستحق نہیں سمجھتی۔ شاید یہ اس ناشکری کی سزا ہے کہ ہم اچھے لوگوں کی قدر نہیں کرتے۔ مولاناایک باغ وبہار شخصیت تھے‘ جہاں موجود ہوتے، گلاب کھل اٹھتے۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ مولانا محض خطیب نہیں تھے، اجتہادی ذہن رکھنے والے عالم،دردِ دل کے مالک ایک داعی اور ایک صاحبِ عزیمت شخصیت بھی تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک مذہبی خطیب ان اوصاف سے خالی ہو تواُس میں اور سٹیج فنکار میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔
مسالک کو سماجی سطح پر خطیبوں اور ذاکروں ہی نے زندہ رکھا ہوا ہے۔ روایتی مذہبی حلقوں میں ایک خطیب کو جو پذیرائی ملتی ہے،جماعت اسلامی میں اس کا کوئی تصور نہیں۔ جو خطیب اس ماحول کو چھوڑ کر شعوری طور پر جماعت اسلامی کا انتخاب کرتا ا ور نا قدری کوگوارا کرتاہے ،وہ اس کے اخلاص کا مظہر اور اس بات کی دلیل ہے کہ مقصدِ حیات کو اپنی ذات سے اہم تر سمجھتاہے۔مولانا مظاہری نے نہ صرف روایتی ماحول کو چھوڑا،اپنے خاندانی کاروبار کو بھی طلاق دی اور آسودگی پرعسرت کو ترجیح دی۔
مولانا کا ایک اہم کارنامہ جمعیت اتحاد العلما کا قیام ہے۔ہمارے ہاں علما کے جو جماعتیں اور تنظیمیں،اس سے پہلے موجود تھیں،وہ سب مسلکی تھیں۔ مولانا مظاہری نے علما کو مسلک سے ماورا جمع کرنے کا کام کیا۔اس سے ان معنوں میں جماعت اسلامی کو بھی فائدہ پہنچا کہ اس کی دعوت بھی مسلکی تقسیم سے ماورا ہے۔اس فورم پرمولانا انور شاہ کاشمیری کے شاگردِ رشید مولانا محمد چراغ،مفتی سیاح الدین کاکاخیل اورعلامہ عنایت اللہ گجراتی جیسے علما اور خطیب جمع ہوئے۔اسی کے ساتھ علما اکیڈمی کا قیام ہے جس کے پیش نظر دین کے عالم تیار کرنا تھا نہ کہ کسی خاص مسلک کے مبلغ۔
یہ کتاب ''مولانا گلزار احمد مظاہری... زندگانی، جیل کہانی‘‘ مولانا کی وہ ڈائری ہے جس کا بڑاحصہ جیل میں لکھا گیا۔ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے اس پرمفید مضامین کا اضافہ کرکے، اسے مولانا مظاہری کی حیات اور شخصیت پر جامع کتاب میں بدل دیا۔ کتاب میں شامل پروفیسر خورشید احمد،جناب مجیب الرحمٰن شامی، ڈاکٹر خورشید رضوی اور ڈاکٹر فرید پراچہ کے مضامین نے اس کی افادیت میں اضافہ کردیا۔ یہ ایوب خان کے عہدِ ستم کی داستان ہے۔ یہ وہ دن ہیں جب جماعت اسلامی پر پابندی لگی۔ ساتھ ہی صدارتی انتخابات کی مہم بھی جاری ہے۔ جماعت اسلامی کی تمام مرکزی قیادت بشمول مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی گرفتار ہیں۔ اس ڈائری میں ان دنوں کی روداد بھی شامل ہے جب مولانا مظاہری کو لاہور جیل لایا گیا اور انہیں مولانا مودودی کی رفاقت میسر رہی۔ دل چاہتا ہے کہ اس ڈائری کے چند اوراق کے مطالعے میں آپ کو بھی شریک کروں۔چند اقتباسات دیکھیے:
''٭ آج مولانا (مودودی) سے قرآن پاک کا درس لینا شروع کیا۔ مولانا نے سورہ مومن کے تین رکوع کا خلاصہ بیان کیا اور میں نے مختصر نوٹس لیے۔ میں نے مولانا سے پوچھا کہ قرآن مجید کا یہ نسخہ آپ کے پاس کب سے ہے؟ فرمایا: بتیس سال سے۔
٭ میں نے مولانا سے عرض کیا کہ بعض اوقات نامساعد حالات یہ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ ہمیں انقلابِ قیادت کے لیے دوسرے راستوں پر بھی غور کرنا چاہیے۔ مولانا نے کہا کہ راستہ تو یہی جمہوری،انتخابی اور قانونی درست ہے اور ان شااللہ جب بھی تبدیلی آئے گی،اسی راستے سے آئے گی۔میں نے کہا: تاریخ میں نظمِ مملکت کو تبدیل کرنے کی اجتماعی کوشش بہت کم نظر آتی ہے۔اس سوال پر مولانا خاموش رہے۔
٭ نمازِ فجر کے بعد مختصر درس کا سلسلہ کامیابی سے چل رہا ہے۔ آج بتایا کہ اسلام اور اس پر عمل کے اعتبار سے چار درجے ہیں: اسلام، ایمان، ایقان،احسان۔ اسی طرح مسلمانوں کے بھی چار درجے ہیں: مسلم، مومن، موقن، محسن۔
٭ نمازِ فجر میں پوری سورہ بقرہ پڑھنے میں ایک گھنٹہ سے زائد وقت لگ سکتا ہے۔ پھر یہ فجر کی نمازمیں کیسے ممکن ہے؟ احادیث کے مجموعے دیکھے تو معلوم ہوا کہ یہ روایت نبی ﷺ کے بارے میں تو نہیں۔آپ کے بارے میں سو آیات تک پڑھنے کی روایت ہے؛البتہ بعض روایات حضرت ابوبکرؓ کے بارے میں آتی ہیں۔
٭ اس وقت جماعت(اسلامی) بھی دوراہے پر کھڑی ہے۔ اگر عورت ہونے کی بنا پر محترمہ فاطمہ جناح کی مخالفت کرے تو پھر ہم پر فوجی آمریت کی حمایت کا الزام لگے گا اور حقیقت یہ ہے کہ ایوب خان کے غیر اسلامی، غیر جمہوری اور غیراسلامی اقدامات کے بعد اس کی بالواسطہ حمایت بھی غیر شرعی ہوگی‘ اور اگر اس کے بعد سپریم کورٹ نے ہمیں بحال کر دیاتو الزام یہی لگے گا کہ یہ سب کچھ اسی فیصلے کی وجہ سے ہوا۔
اس کتاب کا ایک حصہ خان عبدالصمد اچکزئی کے ساتھ دلچسپ مکالموں پر مشتمل ہے جو مولانا کے ساتھ قید تھے۔ اس کے علاوہ تفسیر، حدیث، فقہ، تصوف، ذکراور سیاست پربہت کچھ ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
یہ ڈائری ایک عہد کی داستان ہے اوریہ کتاب ایک شخصیت کی۔پراچہ برادران پر یہ فرض تھاکہ وہ اس شخصیت اور اس ڈائری کو دوسروں تک پہنچاتے۔ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے یہ فرض ِکفایہ ادا کر دیا۔انہوں نے نئی نسل کو ایک ''زندہ خطیب‘‘ سے متعارف کرایا جن سے براہ راست استفادہ کرنے والے کم ہوتے جا رہے ہیں۔اس کتاب کو ''قلم فاؤنڈیشن‘‘ لاہورکے زیرِ اہتمام بہت سلیقے کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔