ریاست مدینہ میں، کیا وہ کچھ ہو سکتا تھا جو آج پاکستان کی سیاست میں ہو رہا ہے؟
ہم نے سیاست کو مسلمان بنانے کی کوشش کی مگر اہلِ سیاست کو 'مسلمان‘ بنانا ضروری نہیں سمجھا۔ ریاست کو اسلامائز کیا مگر حکمرانوں کی شخصیت کو اسلامی نہ بنا سکے۔ ریاست نے کلمہ پڑھ لیا مگر یہ کلمہ اہلِ اقتدار کے حلق سے نہیں اتر سکا۔ ہم نہیں جان سکے کہ چنگیزی سیاست میں نہیں، اہلِ سیاست میں ہوتی ہے۔ دین سیاست سے جدا نہیں ہوا لیکن اہلِ سیاست سے دور رہا۔ اب چاروں طرف چنگیزی کے مناظر ہیں۔ لوگ ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں مگر اطوار وہی چنگیزی ہیں۔
دو غلط فہمیوں نے ہمیں ابتدا ہی سے اپنی گرفت میں لے رکھاہے۔ ایک یہ کہ پاکستان کا قیام کسی الٰہی سکیم کا حصہ ہے۔ نتیجہ یہ برآمد ہواکہ اس کی حفاظت اور دفاع خدا کی ذمہ داری ہے اور وہ غیب سے مدد فرمائے گا۔ دوسرا یہ کہ یہ ریاست ہے جسے مسلمان بنانا چاہیے۔ ریاست قانون کا نام ہے، اس لیے ساری توانائیاں صرف کردی گئیں کہ یہاں قوانین اسلامی ہو جائیں۔ ہم نہیں جان پائے کہ ریاست نہیں، یہ اہلِ اقتدار ہیں جو مسلمان ہوتے ہیں تو دین کا جلال و جمال ظہور کرتا ہے۔
اس زمین پر صرف دو مقامات ہیں جنہیں عالم کے پروردگار نے اپنے لیے خاص کیا: ایک سرزمینِ عرب جہاں اللہ کا پہلا گھر تعمیر ہوا۔ دوسرا مقام فلسطین اور یروشلم، جہاں بیت المقدس تعمیر ہوا۔ بنی اسرائیل کو حکم ہواکہ وہ اس خطہ زمین کو شرک سے پاک رکھیں جہاں بیت المقدس ہے۔ بنی اسماعیل کو حکم دیا گیاکہ سرزمینِ عرب میں مشرک اور شرک نہ رہنے پائیں جو بیتِ عتیق ہے۔ اس زمین پر خدا کاقدیم اور پہلا گھر۔
ان دومقامات کے لیے اللہ کا قانون الگ ہے۔ باقی ساری زمین خداکی نظر میں ایک جیسی ہے اور اس کیلئے قانونِ الٰہی بھی ایک جیسا ہے۔ سرزمینِ عرب پر دو ادیان جمع نہیں ہو سکتے‘ لیکن یہ پابندی دوسرے علاقوں کیلئے نہیں ہے۔ وہاں کوئی شرک کرنا چاہے تو خدا کی ہدایت اسے انجام سے باخبر تو کرتی ہے مگر بالجبر شرک سے روکتی نہیں۔
پاکستان بھی زمین کے اسی حصے پر واقع ہے۔ یہاں بھی خدا کی وہی سنت جاری و ساری ہے جو باقی علاقوں کیلئے ہے۔ ہم اپنی ذمہ داری ادا کریں گے تو امن اور خوشحالی ملے گی۔ اگر تساہل برتیں گے اور اپنے فرائض سے روگردانی کریں گے توپھر قانونِ قدرت کے تحت محروم کر دیے جائیں گے۔ پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان یا کچھ اور رکھ دینے سے اسے کوئی تقدس حاصل نہیں ہو جائے گا۔
اسی طرح ریاست کو مسلمان بنانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اصل یہ ہے کہ حکمران مسلمان بنیں۔ مدینہ کی ریاست اس لیے وجود میں نہیں آئی کہ قانون اسلامی تھا۔ وہ اس لیے ریاست مدینہ ہے کہ اس کے حکمران صدیق ‘ عمر‘ عثمان اور علی تھے‘ رضی اللہ عنہم‘ ورنہ قانون تو بعد کے دور میں بھی وہی تھا جسے یہ امت بالاجماع خلافتِ راشدہ ماننے سے انکار کرتی اور اسے ملوکیت یا بادشاہت کہتی ہے۔ریاست کو مسلمان بنانے کی کوشش کا یہ نتیجہ نکلا کہ سیاست کو مذہبی اصطلاحوں سے بھر دیا گیا مگر نظام کی روح پہلے جیسی رہی۔ ہر دلکش نعرہ اور پاکیزہ اصطلاح ہم نے استعمال کی‘ اس سے جو کچھ برآمد ہوا وہ ہم سب اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے۔ نوازشریف صاحب نے بھی شریعت بل منظور کرا دیا مگر اسلوبِ حکومت وہی پرانا رہا۔
اس وقت ریاستِ مدینہ کا غلغلہ ہے مگر حکومت کس طرح چلائی جا رہی ہے؟ وہی پرویزی حیلے ہیں۔ وہی میکیاولی کی سیاست ہے۔ وہی دجل و فریب ہے جو سیاست میں مدت سے رائج ہے۔ خان صاحب عوام سے مخاطب ہوتے ہیں تو مطالبہ کرتے ہیں کہ فارن فنڈنگ مقدمے کی روداد ٹی وی پر دکھائی جائے‘ ان کا وکیل عدالت میں پیش ہوتا ہے تو اس کے خلاف موقف اختیار کرتا ہے۔ پارٹی کا سیکرٹری مالیات ایک بیان دیتا ہے اور عدالت میں پارٹی اس سے مکر جاتی ہے۔ کیا ریاست مدینہ میں یہ ہو سکتا ہے؟
عمر بن عبدالعزیز نے ایک دفعہ نہیں کہا کہ میں ریاست مدینہ بنانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے صرف ایک کام کیا‘ خلفائے راشدین کا اسوہ اپنا لیا۔ وہ سادگی اور اخلاص اقتدار کے ایوانوں میں پھر سے دیکھے گئے جو شیخین کے دور میں تھے۔ لوگوں کو محسوس ہواکہ خلافتِ راشدہ کے ایام لوٹ آئے ہیں۔ تاریخ نے انہیں عمرِ ثانی قرار دیا۔ بعض اہلِ علم نے توجہ دلائی کہ روایات میں جس خلافت علیٰ منہاج النبوہ کی پیشگوئی کی گئی تھی، عمر بن عبدالعزیز کی خلافت ہی اس کا مصداق ہے۔
نعرے عوام کے جذباتی استحصال کیلئے ہوتے ہیں۔ اب تو یہ سائنس بن چکی کہ عوام کے جذبات سے کس طرح کھیلا جا سکتا ہے۔ جس طرح اہلِ سرمایہ اپنا مال بیچنے کیلئے اشتہاری مہم چلاتے ہیں، اسی طرح سیاست میں بھی مال بیچنے کیلئے اشتہاری مہم چلائی جاتی ہے۔ اہلِ دانش کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو اس کی حقیقت سے باخبر رکھیں۔ عوام کا سیاسی شعور جتنا بہتر ہوگا، ان کا استحصال اتنا ہی مشکل ہو جائے گا۔
ایک سرمایہ دار کو معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کے بال گررہے ہیں۔ وہ اس کمزوری کو اپنا تیل اور شیمپو بیچنے کیلئے استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح سیاستدانوں کو معلوم ہے کہ مذہب عوام کی کمزوری ہے، اس لیے وہ شریعت بل اور ریاست مدینہ جیسی اصطلاحوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنا سیاسی تیل بیچتے ہیں۔ جب سوشلزم زندہ تھا تو ایک تیل اس نام پر بھی سیاسی بازار میں فروخت ہو رہا تھا۔
جدید علمِ سیاست نے بتایا ہے کہ حکومتوں کی کارکردگی ماپنے کے پیمانے دوسرے ہیں۔ گورننس کیسی ہے؟ بنیادی حقوق کو کتنا تحفظ حاصل ہے؟ شفافیت کا معیار کیا ہے؟ حکومت کو پرکھنے کے اصل پیمانے یہ ہیں۔ اہم یہ نہیں کہ ریاست کا نام، اسلامی جمہوریہ ہے یا عوامی جمہوریہ، سوال یہ ہے کہ ان پیمانوں پر اس کی کارکردگی کیسی ہے؟ عالمی ادارے ان معیارات پر حکومتوں کو پرکھتے اور اپنی رپورٹس جاری کرتے ہیں۔
آج دنیا نظریاتی ریاست کے واہمے سے نکل آئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ نظریے کو بھی بیسوی ںصدی میں عوام کے استحصال کیلئے استعمال کیا گیا۔ ہر نظریاتی ریاست ایک جابرانہ ریاست کی صورت میں نمودار ہوئی جس نے نظریے کے نام پر عوام کے بنیادی حقوق کو سلب کیا۔ آزادی رائے کو ختم کیا اور ان کی سوچ پر پہرے لگائے۔ جس نے خلاف ورزی کی، سخت گیر قوانین سے اس کی زبان اور سانسیں بند کر دی گئیں۔
پاکستان کو اگر ایک فلاحی ریاست بننا ہے تو لازم ہے کہ مذہب و نظریے کے نام پر عوامی استحصال کا سلسلہ خاتمہ ہو۔ اس کے لیے لازم ہے کہ عوام کی شعوری سطح بلند ہو۔ انہیں معلوم ہوکہ حکمرانوں کی کارکردگی کا انحصار اس پرنہیں کہ وہ نعرہ کیا لگا رہے۔ ان کو پرکھنے کا پیمانہ یہ ہے کہ وہ عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کر پائے ہیں یا نہیں؟ صحت و تعلیم کی سہولتیں ملی ہیں یا نہیں؟ قانون کی حکمرانی ہے یا نہیں؟
ریاست مدینہ، چینی ماڈل، جیسے نعرے دراصل وہ پناہ گاہیں ہیں جو حکمرانوں نے اپنے فرار کے لیے تعمیر کررکھی ہیں۔ اگر عوام باشعور ہوں اور حکمرانوں کو ان پناہ گاہوں میں چھپنے کا موقع نہ دیں تو استحصال کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند ہوجائے۔ ریاست و حکومت عوام کی خدمت کے لیے ہوتے ہیں۔ اگر وہ یہ کام نہ کریں توپھر یہ بات بے معنی ہے کہ ان پرکیا لیبل لگا ہے۔ ہماری تاریخ یہ ہے کہ حاکمِ وقت کو خلیفہ کہہ دینے سے، ملوکیت خلافت نہیں بن جاتی۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں وہ Arab Imperialism ہی رہتی ہے۔