مشاہداللہ خان کا جسدِ خاکی سپردِ خاک ہوا۔ انسان مگر محض پیکرِ گِل تو نہیں۔ اس کے سوا بھی بہت کچھ ہے جو کبھی نہیں مرتا۔
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے
بے پناہ اداسی ہے اور مایوسی کا گہرا احساس۔ آج پارلیمان میں کوئی دوسرا مشاہداللہ نہیں ہے۔ ایسی قدرتِ کلام‘ ایسا دبنگ لہجہ‘ قسامِ ازل نے کسی دوسرے کو ارزاں نہیں کیا۔ اس پہ مستزاد غیر معمولی حافظہ۔ دیوان کے دیوان یادداشت میں اس طرح محفوظ تھے کہ ایک دریا بہتا چلا جاتا تھا۔ اشعار کا انتخاب ایسا کہ ابتذال سے دور۔ پھر جرأتِ اظہار ایسی کہ اسلاف کی یاد تازہ کر دے۔
مشاہداللہ خان نے جماعت اسلامی کی آغوشِ تربیت میں آنکھ کھولی۔ ماں باپ دونوں جماعت سے وابستہ تھے۔ وابستگی بھی ایسی کہ ان کا گھر راولپنڈی میں جماعت کا دوسرا دفتر بن گیا۔ سب بھائی دورِ طالب علمی ہی میں طلبا سیاست میں متحرک تھے۔ یہ خود اسلامی جمعیت طلبہ کا حوصلہ تھے اور ان کا گھر جمعیت کے نوجوانوں کے لیے پناہ گاہ۔ اس تربیت اور پس منظر کے ساتھ عملی سیاست میں قدم رکھا۔
اسلامی جمعیت طلبہ نے مسلم لیگ کو بھی کم رجالِ کار فراہم نہیں کیے۔ مشکل کے دنوں میں نون لیگ کا بھرم قائم رکھنے میں ان کا کردار مرکزی ہے۔ جاوید ہاشمی‘ احسن اقبال‘ صدیق الفاروق اور مشاہداللہ۔ پرویز رشید بھی ان میں شامل ہیں مگر وہ دائیں طرف سے نہیں‘ بائیں سمت سے آئے تھے۔ قدرِ مشترک اگر کوئی تھی تو وہ نظریاتی پختگی۔
موجودہ پارلیمان اسی سیاسی کلچر میں ڈھل گئی‘ اکثریتی جماعت نے جسے ملکی سیاست میں فروغ دیا۔ صبح شام 'چور چور‘ کی تکرار جو متوازن سے متوازن آدمی کو زچ اور اسے ردِ عمل پہ مجبور کر دے۔ سینیٹ کے لیے کسی مخصوص فرد کے ٹکٹ پر اصرار سے ایک بار پھر واضح ہو گیا کہ پارٹی لیڈر اسی کلچر کا غلبہ چاہتا ہے۔ اکثریتی پارٹی کے اراکینِ پارلیمنٹ اگر لیڈر کی نظر میں قابلِ التفات ہو سکتے ہیں تو ان کے پاس یہی ایک راستہ ہے کہ بیان و کلام میں بھی اسی فرد کو امام مان لیں۔ شاہ محمود قریشی صاحب کو بھی اس التفات کے لیے برسوں کے سیکھے رکھ رکھاؤ سے دست بردار ہونا پڑا۔
آدمی پیالہ و ساغر نہیں ہوتا۔ وہ ایک حد تک ہی برداشت کر سکتا ہے۔ اپوزیشن کے اراکین کوبھی جواباً وہی کلچر اپنانا پڑاکہ سیاست دان داعی اور صوفی بھی نہیں ہوتا۔ اُس سے پارٹی اور قیادت توقع رکھتی ہے کہ فریقِ مخالف کو کسی میدان میں فاتح نہ بننے دے۔ مشاہداللہ خان کی سنجیدگی اور تربیت پربھی کبھی کبھی ردِ عمل کا غلبہ ہو جاتا۔ امرِ واقعہ یہی ہے کہ پھر کوئی ان کا سامنا نہ کر سکتا۔ شعر تو خیر دور کی بات‘ نثر میں بھی نہیں۔ ان کے سامنے حکومتی جماعت بے بسی کی تصویر بن جاتی جس کا اظہار بے معنی شورو غوغا سے ہو تا تھا۔
مشاہد اللہ خان نے طلبا سیاست کی‘ مزدور تنظیموں میں رہے اور عوامی سیاست بھی کی۔ وہ نظریاتی سیاست کا علم اٹھائے رہے اور اقتدار کی سیاست بھی کرتے رہے۔ میرا احساس ہے کہ انہوں نے کبھی اپنا وقار مجروح نہیں ہو نے دیا۔ وہ وزیر ہوکر بھی فقیر ہی رہے۔ میں نے یہ خوبی ان کے علاوہ پرویز رشید میں دیکھی‘ تاہم میرا مشاہدہ اس باب میں بہت محدود ہے۔ شنید سے البتہ میرے مشاہدے کی تصدیق ہوتی رہی۔
وہ وزیر تھے توپارٹی قیادت کی طرف سے انہیں وزارت چھوڑنے کے لیے کہا گیاکہ کسی برتر قوت کو ان کا ایک انٹرویو پسند نہیں آیا۔ 'ان‘ کی خوشی کے لیے نوازشریف صاحب نے انہیں وزارت سے ہٹا دیا۔ بطور جملہ معترضہ‘ کسی کے مطالبے پر نوازشریف صاحب نے دو دفعہ اپنے سب سے بااعتماد ساتھیوں مشاہداللہ اور پرویز رشید کو وزارتوں سے الگ کیا‘ اس کے باوجود قابلِ قبول نہ ہو سکے۔ الزام پھربھی انہی پر آیا کہ ہمہ وقت تصادم پر آمادہ رہتے ہیں۔ مشاہد اللہ نے بغیر کسی تردد کے وزارت چھوڑ دی۔ اَناکا مسئلہ بنایا نہ کسی ناراضی کا اظہار کیا؛ تاہم ان کے نقطہ نظر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ سینیٹ میں وہ اپنی بات کہتے رہے اوراس باب میں کبھی کسی مداہنت اور کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ سب گواہ ہیں کہ تادمِ مرگ وہ نوازشریف صاحب کے بیانیے کے پُرزور حامی رہے۔ان کے لہجے میں کوئی ضعف آیا نہ ان کی آوازہی مدہم ہوئی۔
تادمِ آخر‘ اُن کی شخصیت کا نظری ڈھانچہ بھی وہی رہا جو جماعت اسلامی میں بنا۔ ریاست کی اسلامی شناخت کے بارے میں وہ ہمیشہ یک سو رہے۔ ایک دو بار ان سے ریاست کے نظری تشخص پر بات ہوئی تو مجھے اندازہ ہو اکہ وہ اس باب میں کسی مفاہمت کے قائل نہیں۔ مجھے ان کی اس خوبی نے متاثر کیا کہ وہ پختہ سیاسی شعور رکھتے ہیں جس کے لیے سیاست اقتدار کے علاوہ بھی کچھ ہے۔
نظریاتی سیاست نے ہماری سیاسی جماعتوں کو جو افرادِکار دیے‘وہ کردار اور شعور کے اعتبار سے دوسروں سے بہتر ثابت ہوئے۔ انہوں نے سیاست کے وقار کو مجروح نہیں ہونے دیا یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ غیر نظریاتی لوگوں کے مقابلے میں زیادہ استقامت اور کردار کا مظاہرہ کیا۔ نظریاتی سیاست کے خاتمے کے بعد سیاسی جماعتیں تربیت کا کوئی متبادل نظام فراہم نہ کر سکیں۔ سیاست میں نمایاں ہونے والے نئے کرداروں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی اس غفلت کی کتنی بھاری قیمت قوم کو ادا کرنا پڑی۔ ان نوواردانِ سیاست نے ملک کو شرمندگی کے سوا کچھ نہیں دیا۔
مشاہد اللہ خان کی طرح کے پختہ کار لوگ اب رخصت ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی جگہ لینے والے ان کے اوصاف سے خالی ہیں۔ ان کو وہ تربیت گاہیں میسر نہیں جہاں تعمیرِ کردار ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی کے علاوہ‘ میں نے قوم پرست جماعتوں کو دیکھا ہے کہ ان کے وابستگان کا سیاسی شعور دوسروں سے بہتر ہوتا ہے۔ کتاب اور علوم سے کوئی تعلق ہوتا ہے‘ کمزور ہی کیوں نہ ہو۔ نون لیگ اور پیپلزپارٹی سمیت‘ تمام قومی جماعتوں میں اس کا کوئی احساس موجود نہیں کہ ان کے پاس مشاہد اللہ خان جیسے لوگوں کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔
نون لیگ سوشل میڈیا کے جتنے رضاکار تیار کر لے‘ واقعہ یہ ہے کہ وہ سب اپنی افادیت کے باوجود‘مشاہد اللہ خان کا متبادل نہیں بن سکتے۔سیاسی جماعتوں کو ہر محاذ پر رجالِ کار کی ضرورت ہوتی ہے۔سرِ بازار اپنا گریبان چاک کرنے والے مشاہد اللہ آسانی سے میسر نہیں آتے۔اس کے لیے برسوں کی ریاضت ا ورکردار کی بلندی چاہیے۔نون لیگ کی یہ کمزوری رہی ہے کہ اس نے کوئی ایسا ٹکسال نہیں بنایا جہاں مشاہد اللہ ڈھلتے ہوں۔
مشاہد اللہ خان اپنا کردار ادا کر کے رخصت ہو چکے۔وہ اپنے وسائل کے زور پر نہیں‘نصب العین کے ساتھ اپنی وابستگی کی طاقت سے سیاست میں نمایاں ہوئے۔یہی لوگ سیاست کی آبرو ہوتے ہیں۔سیاست کا بھرم ان ہی کے د م سے قائم ہو تا ہے۔وفات سے کچھ دن پہلے میں نے وٹس ایپ پر حال پوچھا تو بتایا: پہلے سے بہتر ہے۔ اللہ کر ے کہ ان کی آئندہ کی زندگی یہاں کی زندگی سے بہت بہتر ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کی کمزوریوں سے درگزر فرمائے اور انہیں مغفور بندوں میں شامل کرے۔ مشاہد اللہ کی آواز ہمارے کانوں میں گونجتی رہے گی اور ان لوگوں کو حوصلہ دیتی رہے گی جو عام آدمی کے غم میں جیتے اوران کے شب وروز کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔
مشاہد اللہ کا جسدِ خاکی پیوندِ خاک ہوا مگر انسان اس کے سوا بھی بہت کچھ ہے جس سے موت کا فرشتہ دور رہتا ہے۔