'حد ہو گئی‘... اسی کو کہتے ہیں۔ اُس سیاسی نظام کے بارے میں کیا لکھا جائے جو اپنے اخلاقی افلاس کا اشتہار بن چکا ہو؟ بس یہی کہا جا سکتا ہے: حد ہو گئی!
ضمنی انتخابات میں جو کچھ ہوا‘ اس کو دیکھنے کے بعد‘ اگر کوئی بضد ہو کہ دیانت و امانت حکومت کے نزدیک کوئی قدر ہے تو اس کے ساتھ کوئی مکالمہ نہیں ہو سکتا۔ دن کو رات کہنے والے کے ساتھ کیا بات ہو سکتی ہے؟ میں پہلے بھی لکھ چکا کہ کرپشن اور دیانت کی نئی تعریف کے لیے ایک لغت تراشی گئی ہے جس کے مطابق‘ ڈسکہ جیسے واقعات کے باوجود کوئی حکومت دیانت دار مانی جا سکتی ہے۔ مکالمے کے لیے پہلے یہ لغت سیکھنا پڑے گی جس کے لیے مروجہ اخلاقی اقدار سے اظہارِ لا تعلقی ضروری ہے۔
یہ فرشتوں کا معاشرہ نہیں۔ انتخابات میں وہ شفافیت ممکن نہیں ہوتی جو کتابوں میں بیان ہوئی ہے۔ ہر زورآور اثر انداز ہوتا ہے۔ تاریخ یہی ہے لیکن ایک حد کو بہرحال قائم رکھا جاتا تھا۔ ایسے واقعات تو 1977ء کے انتخابات میں بھی رپورٹ نہیں ہوئے جن کی تاریخی شہرت ہی دھاندلی ہے۔ ایسا کب ہوا ہے کہ ایک حلقے میں بیس سے زیادہ پولنگ سٹیشنز کا عملہ ہی غائب ہو جائے۔ الیکشن کمیشن پوچھتا رہ جائے اور انتظامیہ کا کوئی ایک ذمہ دار جواب دینے کو موجود نہ ہو۔ یہ بھی ایک ایسے دور میں جب ابلاغ کے ایک سے زیادہ اور تیز ترین ذرائع میسر ہوں۔ اس نظام پر اس کے علاوہ کیا تبصرہ کیا جا سکتا ہے کہ 'حد ہو گئی‘۔
نظام کے مرثیے کو یہیں ختم کرتے ہیں کہ مزید کچھ کہنا تحصیلِ لا حاصل ہے۔ ان واقعات سے لیکن ایک ایسا خیر برآمد ہوا جس نے امید کا ایک چراغ روشن کردیا ہے۔ یہ خیر آئندہ انتخابات کی شفافیت کا ضامن بن سکتا ہے۔ جمہوریت کی روح کو زندہ کر سکتا ہے۔ جب سیاست‘معیشت‘ معاشرت‘ ہر سمت سے آنے والی خبریں مایوسی کے سوا کچھ نہ دیں‘ اس خیر کا ظہور ایک نعمت سے کم نہیں۔؎
یوں تو ہے رنگ زرد مگر ہونٹ لال ہیں
صحرا کی وسعتوں میں کہیں گلستاں تو ہے
یہ خیر‘ عوام میں اپنے ووٹ کے بارے میں پیدا ہونے والی حساسیت ہے۔ عوام نے جس طرح اپنے ووٹ کی حفاظت کی‘ اس کی عزت کی پامالی کو روکا‘ یہ پاکستانی سیاست میں ہوا کا خوشگوار جھونکا ہے۔ جہاں لوگوں کو ووٹ پول کرنے سے روکا گیا اور پولنگ کو دانستہ سست کیا گیا‘ وہاں عوام نے احتجاج کیا اور اپنے حقِ رائے دہی کے لیے آواز اٹھائی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ نواز شریف صاحب کا بیانیہ عوام میں سرایت کرتا جا رہا ہے۔ عوام کو اندازہ ہونے لگا ہے کہ کس طرح ان سے یہ حق چھینا جاتا رہا ہے اور کیسے جمہوریت کے نام پر ایسے لوگ ان پر مسلط ہو تے رہے ہیں جو ان کا انتخاب نہیں تھے۔ عوام نے خوف کی فضا میں جینے سے انکار کیا ہے۔ ہمیں جس تبدیلی کی ضرورت ہے وہ یہی ہے۔ عوام اگر اپنے حقوق کے بارے میں حساس ہو جائیں تو کسی کا ووٹ چوری نہ ہو۔ ملک میں سیاسی استحکام آ جائے۔
سماجی تبدیلی رات دن کے الٹ پھیر کی طرح نہیں ہوتی کہ پانچ بج کر چالیس منٹ پر رات کا آغاز ہو جائے اور سات بج کر دو منٹ پر دن نکل آئے۔ سماجی تبدیلی دھیرے دھیرے سرایت کرتی ہے کہ اس کو ماپنا مشکل ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ کوئی واقعہ ہوتا ہے اور سماج اپنے ردِ عمل سے تبدیلی کا اعلان کر دیتا ہے۔ سماجی علوم کے ماہرین ایسے واقعات کو پیمانہ مانتے ہوئے تجزیہ کرتے اور یہ بتاتے ہیں کہ تبدیلی کب شروع ہوئی اور کب بلوغت کو پہنچی۔
نواز شریف صاحب نے ووٹ کی عزت کی بات کی تو لوگ ان کی تائید میں نکلے مگر اس طرح نہیں کہ اسے سماجی انقلاب کہا جا سکتا۔ اس سے یہ نتیجہ برآمد کیاگیا کہ عوام کو ان کے بیانیے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ان ضمنی انتخابات سے مگر یہ معلوم ہوا کہ نواز شریف کی آواز صدابصحرا نہیں تھی۔ عوام میں اپنے حقوق کا شعور پختہ ہوا۔ انہیں ووٹ کی عزت کا احساس ہوا۔ ان کو اندازہ ہوا ہے کہ کیسے انتخابات کے نام پر ایک کھیل کھیلا جاتا ہے جس کا ان کی رائے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
یہ کہا جاتا ہے کہ عوام کا مسئلہ مہنگائی ہے۔ وہ اگر نکلتے ہیں تو یہ آٹے چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف ان کا احتجاج ہوتا ہے۔ یہ بات درست ہونے کے باوجود پہلی بات کی نفی نہیں۔ عوام کے باہر نکلنے کے اسباب ایک سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔ مہنگائی بلاشبہ عوامی بے چینی کا ایک بڑا سبب ہے مگر ضمنی انتخابات میں اپنے ووٹ کے لیے اصرار اور خوف کو قبول کرنے سے انکار ایک اور سبب کی طرف اشارہ کر رہا ہے اور یہ اپنے ووٹ کے بارے میں عوام کی حساسیت ہے۔
سندھ میں پیپلزپارٹی کی جیت بھی بتا رہی ہے کہ عوام نئے نظام کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ وہ کسی جبری تبدیلی کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ انسان کی نفسیات یہ ہے کہ اس سے زبردستی کوئی بات نہیں منوائی جا سکتی۔ جمہوریت کا کمال یہی ہے کہ وہ پسند و ناپسند کو فطری اور عقلی بنیادوں پر استوار کرتی ہے۔ بڑے بڑے سیاسی خاندان اور شخصیات اسی جمہوری عمل کے نتیجے میں قصۂ پارینہ بنے۔ غلام مصطفی جتوئی کی سیاسی وراثت آج کہاں ہے؟ غلام مصطفی کھر کا سیاسی وارث کون ہے؟ آج انہیں کوئی نہیں جانتا۔ اسی کا نام جمہوریت ہے۔
عوام کو اگر فیصلہ کرنے کا حق ملے توسیاست اسی طرح نتھرتی چلی جائے۔ جو سیاست دان ان کے دل سے اتریں‘ وہ انتخابات میں بھی مسترد ہو جائیں۔ جب اس عمل کو مصنوعی طور پر روکا جا تا ہے توپھر سماج کا ارتقا بھی رک جاتا ہے۔ جب ملک کی باگ غیر سیاسی ہاتھوں میں چلی جاتی ہے توان کی سیاسی حرکیات سے عدم واقفیت قوموں کو بحران میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ہم سات سال سے ایک بارپھر اس ناسمجھی کا شکار ہیں۔
ضمنی انتخابات کے نتائج بتا رہے ہیں کہ جو لوگ نوازشریف کی سیاسی موت کا اعلان کر رہے تھے‘ ان کے تجزیے زمینی حقائق سے کتنا دور تھے۔ ایک لیڈر کی سیاسی زندگی اور موت عوام کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ انتخابی نتائج تبدیل کر دینے سے دل تبدیل نہیں ہوتے۔ نواز شریف کا عروج و زوال خدا کے بعد عوام کے فیصلے پر منحصر ہے‘ سیاسی فتووں اور جبر پر نہیں۔
نوشہرہ میں دو بھائیوں کے اختلاف نے نتائج کو متاثر کیا۔ انتخابات میں ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ میرا کہنا یہ ہے کہ ایسا ہی ایک عامل 'سیاسی حرکیات‘ کی تبدیلی ہے۔ اس کو بھی سمجھنا چاہیے۔ جمہوریت نے پُرامن طریقے سے وہ تبدیلی پیدا کی جو جبر سے نہیں ہو سکی۔ ایک طرف کرپشن کا بیانیہ تھا جسے قوت کے زور پر پھیلانے کا اہتمام کیا گیا۔ دوسری طرف نواز شریف کا بیانیہ تھا جس کو جمہوری طریقے سے عوام تک پہنچایا گیا؛ اگرچہ اس کے پھیلاؤ کو طاقت سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ ڈسکہ وغیرہ میں لوگوں نے جس طرح اپنے ووٹ کا پہرہ دیا اور اس کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوئے‘ یہ بتا رہا ہے کہ نوازشریف کا بیانیہ پھیل چکا۔
ضمنی انتخابات کے نتائج اس عوامی حساسیت کو ظاہر کر رہے ہیں جو ووٹ کے لیے پیدا ہو رہی ہے۔ یہ حساسیت نوازشریف کی جدوجہد کی دین ہے۔ یہ مریم نواز کی جرأت اور بے خوفی کا ثمر ہے۔ جمہوریت پسندوں کو نوید ہو کہ یہ بیانیہ عوام میں سرایت کر چکا :ع
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے