اپنی پاکی ٔداماں کی حکایت‘خان صاحب نے ایک مرتبہ پھر دہرائی۔جیسے وہ سیاست میں اخلاقیات کے اکلوتے نمائندہ ہیں۔ عوام کی یادداشت کے بارے میں اہلِ سیاست کبھی خوش گمان نہیں رہے۔اُن کایہ گمان کسی حد تک درست ہو سکتا ہے مگر اب ایسا بھی نہیں کہ لوگ ہفتہ دس دن پہلے کی بات بھول جائیں۔ڈسکہ کے ضمنی انتخابات کو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے۔اس حلقے پر چھائی ہوئی دھند ابھی چھٹی نہیں۔18مارچ تک تو یہ قصہ تازہ رہے گا کہ اس تاریخ کو اس حلقے میں دوبارہ انتخاب ہوگا۔یہاں پنجاب انتظامیہ نے کیا کیا؟بیس پولنگ سٹیشنز پر بطورِ خاص کیا معاملہ ہوا؟ الیکشن کمیشن کے فیصلے نے سب بتا دیا۔
اگر یہ فیصلہ نہ آتا توبھی سب ظاہر وباہر تھا۔لوگوں نے سب بچشمِ سر دیکھ لیا تھا۔اس کے بعدبھی کسی کی پیشانی پر عرقِ انفعال کا کوئی قطرہ نہیں دیکھا گیا۔ نہ پنجاب میں نہ مرکز میں۔ اور پھر ان کے دوست کا قصہ تو دو دن پرانا ہے؟کم و بیش دو سال تک وہ عدالت سے بھاگتے رہے۔کبھی خود غیر حاضر‘ کبھی وکیل غائب۔یہاں تک کہ مزید تاخیر ممکن نہ رہی۔ نااہلی کی تلوار عین سر پہ تھی کہ خان صاحب نے سینیٹ بھیج دیا کہ پارلیمان اس نابغہ سے محروم نہ رہے۔گویا جو قومی اسمبلی کے لیے نااہل ہے‘وہ خان صاحب کی نظرمیں سینیٹ کے لیے اہل ہے۔ یہ سیاسی اخلاقیات اور پھر یہ بھاشن؟ اپنے منہ میاں مٹھو۔
الیکشن کمیشن پر طیش بھی کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔انہیں اس پہ تو کبھی غصہ نہیں آیا کہ فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے میں اتنی تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟ ان کے مذکورہ بالا دوست کے مقدمے میں فیصلہ کیوں نہیں سنا یا جا رہا؟ خان صاحب نے کبھی یہ سوالات نہیں اٹھائے۔اب خود کو چوٹ لگی تواس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ وہ ملک کے وزیراعظم ہیں‘ الیکشن کمیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔
واقعہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے اپنا کردار بہت اچھی طرح نبھایا اور یہ ادارہ آئین کے محافظ کے طور پر سامنے آیا۔سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن نے ایک موقف اختیار کیا کہ آئین کی رو سے رائے شماری خفیہ ہی ہو سکتی ہے۔سپریم کورٹ نے بھی یہی فیصلہ دیا۔ جو اضافی بات عدالتِ عظمیٰ نے کہی‘ اس کیلئے عدالت سے رجوع ہی نہیں کیا گیا تھا۔ پھر یہ کہ اس کی نوعیت ایک ہدایت کی تھی جس پر عمل درآمد کے امکانات کیلئے کمیشن نے کمیٹی بنا دی۔ یہ واضح ہے کہ دو دن میں کوئی نیا طریقہ اختیار کرنا ممکن ہی نہ تھا۔
الیکشن کمیشن نے آئین کے مطابق کردار ادا کرنا تھا۔اس کا کام لوگوں کے دلوں میں جھانکنا نہیں۔ اگر حکومت اعلانیہ ووٹ کے لیے سنجیدہ ہوتی تو اپوزیشن سے بات کرتی اور آئینی ترمیم کے لیے بروقت مشاورت کرتی۔خان صاحب کو اس وقت تو اس کی ضرورت محسوس نہ ہوئی‘ جب تحریکِ انصاف کے موجودہ امیدوار برائے چیئرمین سینیٹ‘ پہلی بار اس منصب پر فائز ہوئے۔ یہ کیسا اصولِ سیاست ہے جو بوقت ضرورت ہی یاد آتا ہے؟
عمران خان صاحب گزشتہ سات سال میں کوئی ایک ایسی دلیل فراہم نہیں کر سکے جس سے یہ ثابت ہوکہ اصولی سیاست سے ان کو کوئی علاقہ ہے۔بے اصولی کی اتنی طویل داستان ہے کہ اب تو ہر پاکستانی کو ازبر ہو چکی۔کیا یہ دلچسپ بات نہیں کہ جن سولہ اراکینِ اسمبلی کے بارے میں وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ بک گئے‘آج ان ہی سے اعتماد کا ووٹ بھی لیں گے؟ان کاا عتماد کیا کوئی معنی رکھتا ہے؟کیا یہ کھلا تضاذ نہیں ہے؟
اب آئیے اس سوال کی طرف کہ حفیظ شیخ صاحب کو کیوں شکست ہوئی؟تمام سنجیدہ تجزیہ کار اور مبصر متفق ہیں کہ اس کے اسباب ایک سے زیادہ ہیں۔مثال کے طور پرتحریکِ انصاف کے ارکانِ پارلیمنٹ اپنی حکومت سے ناراض ہیں۔اس کی وجہ ذاتی بھی ہے اور سیاسی بھی۔پھر منتخب لوگوں کو یہ بھی غصہ ہے کہ غیر منتخب ان پر سوار کر دیے گئے۔ تیسرا یہ کہ حفیظ شیخ اس معاشی پالیسی کے معمار ہیں جس نے عوام کو مہنگائی کے سمندر میں غرق کر دیا ہے۔جس رکن اسمبلی نے عوام کے پاس جانا ہے‘وہ ان کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔
ایک بڑی وجہ تحریک انصاف کی سیاسی آداب سے ناآشنائی بھی ہے۔اس سے پہلے جوڑ توڑ کی ذمہ داری کسی اور نے اٹھا رکھی تھی۔حکومت کو ہر چیز تیار مل جاتی تھی۔ وزیراعظم نے آج تک اپوزیشن سے کوئی ملاقات نہیں کی لیکن حکومت کو اہم آئینی و قانونی امور پراس کی حمایت میسر رہی۔ظاہر ہے کہ کوئی تھا جو حکومت کی طرف سے اپوزیشن سے رابطے میں تھا۔اس بار سنتے ہیں کہ ابتدا ہی میں سرپرستی سے معذرت کر لی گئی اورخان صاحب سے کہہ دیا گیاتھا کہ اپنا بوجھ خود اٹھائیں۔انہوں نے کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔ یہاں تک کہ پانی سر تک آ پہنچا۔اس کے بعد سرپرستوں کو مدد کے لیے پکارا گیا۔وہ آئے مگر تاخیر ہو چکی تھی۔ان کی مدد سے بات بیس سے پانچ ووٹ کی برتری تک تو پہنچ گئی مگر یہ برتری ختم نہیں ہو سکی۔
ایک عامل یقینا پیسہ بھی ہو سکتا ہے‘ لیکن جس طرح اسے واحد عامل بتایا جا رہا ہے‘ وہ محض مبالغہ ہے۔اس کا حصہ اتنا ہی ہے جتناہر انتخاب میں ہو تا ہے۔ایک دو نشستوں کے علاوہ کچھ ایسا نہیں ہوا جو غیر متوقع ہو۔پھر یہ بھی قابلِ غورہے کہ تحریکِ انصاف نے کھرب پتیوں کو ٹکٹ دیا جن کا کوئی سیاسی پس منظر ہے نہ تحریک انصاف سے کوئی دیرینہ تعلق۔ان میں صرف ایک معلوم خوبی ہے اور وہ پیسہ ہے۔کیااس خوبی کا کوئی استعمال نہیں تھا؟
پیسے کے حوالے سے پیپلزپارٹی کانام آرہا ہے یا حکومت کا۔حکومت نے ترقیاتی سکیموں کی شکل میں پیسہ نچھاور کیا۔ پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں اس سے دور رہیں۔یہ اچھی خبر ہے۔اس میں البتہ نون لیگ کا ٹکٹ چلا ہے۔ مریم نواز کا اشارہ اسی طرف ہے۔ کہتی ہیں کہ بعض اراکین نے حمایت کے جواب میں اس بات کی ضمانت چاہی ہے کہ آئندہ انتخابات میں انہیں نون لیگ کا ٹکٹ دے دیا جائے۔یہ اس سیاسی پیش منظر کی ایک جھلک ہے جس نے خان صاحب کو پریشان کر رکھا ہے۔
سیاست کو شفاف ہو نا چاہیے۔اس بارے میں دو آرا نہیں ہیں۔سینیٹ کے الیکشن جس طرح گرد آلود رہے یہ جمہوریت کے لیے اچھا شگون نہیں۔بایں ہمہ اس کا درست تجزیہ بھی ضروری ہے اور اس کے لیے مبالغے کے بجائے ہربات کو اتنا ہی وزن دینا چاہیے جس کی وہ مستحق ہے۔آگے بڑھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ حکومت انتخابی نظام میں اصلاحات کے لیے اپوزیشن سے سنجیدہ مشاورت کرے۔اگر وہ چاہے تو اس اتفاق رائے کو آگے بڑھا سکتی ہے جو پچھلی اسمبلی میں وجود میں آیا تھا۔
پاک دامنی کا خالی ڈھول پیٹنے سے چند غالی حامیوں کو تو ساتھ چلا یا جا سکتا ہے‘عوام کو نہیں۔یہ حکایتیں اب سماعتوں کے لیے گراں بار ہیں۔'چھوڑوں گا نہیں‘ جیسے بے مغز جملے وزیرراعظم کے منصب کی توقیرمیں بھی مسلسل کمی کا باعث بنے ہیں۔ اہلِ سیاست کو سمجھناہو گا کہ عوامی سیاست ہی سیاسی عمل کو شفاف بنا سکتی ہے۔جو سیاسی جماعتیں غیر سیاسی سرپرستوں اور جوڑ توڑ پر انحصار کرتی ہیں‘وہ دراصل سیاسی کلچر کو آلودہ کرنے کا راستہ کھول دیتی ہیں۔
آج لازم ہے کہ ووٹ عام شہری کا ہو یا کسی رکن اسمبلی کا‘ سب کو یکساں عزت ملے۔ اس کے لیے حکومت اصلاحات کا پیکیج لائے اور اپوزیشن سے مشاورت کرے۔ پاک دامنی کے قصے لوگوں نے بہت سن لیے۔ اب تو: 'پیش کر غافل‘ عمل کوئی اگر دفتر میں ہے‘۔