ہم قبائلی معاشرت کی طرف لوٹ رہے ہیں، جہاں ایک گروہ کی بقا، دوسرے کی فنا میں مضمر ہوتی ہے۔
یہ اُس تبدیلی کی دَین ہے جس نے اس ملک کی سیاسی بنیادوں میں انتہا پسندی کا بارود بھردیا۔ نوجوانوں کو مسلسل ہیجان میں مبتلارکھا، یہاں تک کہ انہوں نے دوسروں کی عزت و آبرو کو اپنے لیے مباح کرلیا۔ لیڈر نے چن چن کو بے حد بولنے والوں اپنا ترجمان بنایا۔ مخالفین گھروں سے نکلتے تو ان پر آوازے کسے جاتے۔ سوشل میڈیا ایک گٹر میں تبدیل ہوگیا۔ قیادت نے حوصلہ افزائی جاری رکھی، یہاں تک کہ وہ خواتین کے احترام کو بھول گئے۔ مریم اورنگزیب اس وحشت کی تصویر بن گئیں۔
بقا کی جبلت جوابی وار کا تقاضا کرتی ہے۔ مریم نواز نے کہاکہ نون لیگ خیراتی ادارہ نہیں۔ کہنا شاید وہ یہ چاہتی تھیں کہ ن لیگ کوئی دعوتی تحریک نہیں کہ وہ گالیاں اور مارکھا کر بھی بدمزہ نہ ہوں۔ کہا: جو ایک مارے گا، اسے دس ماری جائیں گی۔ بات پھر مار تک کہاں محدود رہتی ہے‘ مغلظات کا مقابلہ بھی ہوتا ہے۔ افسوس اس قوم کے مقدر پر جس کی سیاسی اور مذہبی قیادت انتہا پسندوں کے حوالے کر دی گئی۔
معاشرے کبھی یک رنگ نہیں ہوتے۔ مذہب، سیاست، اخلاقیات‘ ہر میدان میں خیالات کا تنوع ہے۔ اختلاف ہے اور بے پناہ۔ عالم کے پروردگار نے بتایاکہ اس نے اس کائنات کو تنوع کے اصول پر بنایا ہے۔کائنات ہی کو نہیں، انسان کو بھی۔ قرآن مجید میں ایک سے زیادہ مقامات پر یہ کہا گیا کہ خدا چاہتا توسب انسانوں کوایک امت بنا دیتا۔ اس نے ایسا نہیں کہ زندگی کو آزمائش کے لیے بنایا گیا ہے اور انسان کو اختلاف کا حق دیاگیا ہے۔ اب کون صحیح ہے اور کون غلط، خدا کہتا ہے کہ میں اس کا فیصلہ اُس وقت سناؤں گا جب تم اس آزمائش سے گزر کر میرے پاس پہنچو گے (بحوالہ المائدہ ۵:۴۸)۔
یہی نہیں، خدایہ بھی کہتا ہے کہ وہ انتہا پسندی کو ایک حد تک ہی گوارا کرتا ہے۔ کوئی دوسروں کو مٹانے کے درپے ہوتو وہ اسے مٹا دیتا ہے۔ ایک کے ہاتھوں دوسرے کو دفع کرتا ہے۔ وہ اگر ایسا نہ کرتا تو تم دیکھتے کہ اس زمین پر کوئی گرجا ہوتا نہ کنیسہ‘ کوئی مسجد نہ کوئی معبد (بحوالہ الحج۲۲:۴۰) یہ مذہبی جبر کا معاملہ ہے جسے گوارا نہیں کیا گیا۔ مذہبی جبر کو قرآن مجید نے فتنہ کہا اور اس کے خلاف تلوار اٹھانے کو جائز قرار دیا (بحوالہ البقرہ ۲:۱۹۰۔۱۹۳)۔ جو دین مذہب کے باب میں جبر کو گوارا نہیں کرتا، اس کا سیاست کے بارے میں کیا نقطہ نظر ہو گا۔
جس معاشرے نے اس خدائی سکیم کو سمجھ لیا اور خود کو اس سے ہم آہنگ بنالیا، اس نے بقا کا راز جان لیا۔ افسوس کہ جنہوں نے اس خدائی راز کو پایا، وہ سیکولر کہلائے۔ سیکولر، جس کا ترجمہ ہم نے 'لادینیت‘ کیا ہے‘ حالانکہ مذہبی وسیاسی تنوع کا احترام عین دینداری ہے۔ اسی کا نام رواداری ہے۔ یہ خیال جب سیاست میں اپنایا گیا تو جمہوریت کا تصور وجود میں آیا۔
جمہوریت کیا ہے؟ اختلافِ رائے کا احترام۔ دوسروں کے وجود کو تسلیم کرنا۔ اس امرِ واقعہ کا اعتراف کہ اس دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو آپ کی رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ آپ جسے غلط کہتے ہیں، دوسرے اسے صحیح سمجھتے ہیں۔ آپ جسے کرپٹ مانتے ہیں، دوسرے اسے دیانتدار قرار دیتے ہیں۔ نہ تو آپ وحی کی زبان بول رہے ہیں اور نہ دوسرا۔ آپ کو حق ہے کہ اپنی بات کہیں اور اس کی دلیل بیان کردیں۔ دوسرے کو حق ہے کہ وہ اپنی بات دلیل کے ساتھ کہہ ڈالے۔ دوسرے کو مٹانے کا حق آپ کو نہیں دیاگیا۔
یہ عجیب بات ہے کہ کوئی یہی رویہ مذہب میں استعمال کرے تواسے مذہبی انتہا پسند کہا جا تا ہے‘ حالانکہ مذہب کے باب میں حق و باطل کا فیصلہ دیگر امور سے کہیں اہم ہے۔ اگر مذہبی معاملات میں انتہا پسندی گوارا نہیں تو سیاسی معاملات میں کیسے ہو سکتی ہے؟ انتہا پسندی مذہب میں ہو یا سیاست میں، اس کے سماجی اثرات ایک جیسے ہیں۔ یہ اختلاف کی بنیاد پر ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے خون کا پیاسا بنا دیتی ہے۔ اس ملک کی سیاسی قیادت نے بات یہاں تک پہنچا دی ہے۔ سیاسی انتہا پسندی کو گلی گلی پھیلا دیا گیا ہے۔
ایک جمہوری معاشرے میں یہ ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے کہ وہ ملک کو مذہبی ہی نہیں، سیاسی انتہا پسندی سے بھی بچاتی ہے۔ وہ مشترکہ امور کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کو قریب لاتی ہے۔ کاش کوئی خدا کی آخری کتاب کی طرف رجو ع کرتا۔ وہ اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ اس کے باوجود وہ اہلِ کتاب کو قریب لاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نبیﷺ کو مخاطب کرتے ہیں کہ ان اہلِ کتاب سے کہیں: آؤ اس بات کی طرف جو تمہارے اور ہمارے درمیان سانجھی ہے۔ (بحوالہ آل عمران۳:۶۴)
کتنی باتیں ہیں جن پراتفاق ہو سکتاتھا بلکہ یہ اتفاق ہماری ناگزیر ضرورت تھی۔ سب سے بڑی ضرورت سیاسی استحکام۔ پھر معاشی بحالی کا ایک پروگرام۔ پھر انتخابی اصلاحات پر اتفاق رائے۔ ایک شفاف سیاسی کلچر کی طرف پیشرفت۔ حیرت ہے کہ یہ سب تجاویز اپوزیشن کی طرف سے سامنے آئیں۔ آصف زرداری اور شہباز شریف دونوں نے قومی اسمبلی میں میثاقِ معیشت کی بات کی اور دستِ تعاون دراز کیا۔ حکومت نے تکبر کے ساتھ اسے جھٹک دیا۔
ایک عام شہری حیرت سے سوچتا ہے کہ تکبر کس بات کا؟ کوئی عقلی فضیلت؟ کوئی اخلاقی برتری؟ بلوچستان سے ایک ارب پتی کو سینیٹ کے لیے پارٹی ٹکٹ جاری ہوتا ہے۔ پارٹی سراپا احتجاج بن جاتی ہے۔ ٹکٹ واپس لے کر اسے مشورہ دیا جاتا ہے کہ آزاد کھڑا ہو جائے۔ پارٹی کے اراکینِ اسمبلی کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اسے ووٹ دیے جائیں۔ وہ صاحب پی ٹی آئی اور باپ کی ووٹوں سے آزاد جیت جاتے اور دو دن بعد تحریکِ انصاف میں شمولیت کا اعلان کر دیتے ہیں۔کیا اس کا نام انتخابی شفافیت ہے؟ کیا یہ ہے وہ اخلاقی برتری جس کی دُھائی دی جاتی ہے؟ چھاج چھلنی کو کیا طعنہ دے سکتا ہے؟
خان صاحب نے جس انتہاپسندانہ رویے کو اپنایا، اب وہ سیاسی کلچر بن چکا۔ دوسری جماعتیں بھی اب اس نتیجہ تک پہنچی ہیں کہ اگر یہ ہیں تو پھر ہم نہیں۔ یہ بقا کی جبلت کا ظہور ہے۔ اگر ایک کی زندگی دوسرے کی موت پر منحصر ہے تو سب ایک دوسرے کی جان کے درپے ہوں گے۔ چند روز پہلے خان صاحب نے اسمبلی سے خطاب کیا؟ کیا کسی جملے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پاکستانی قوم کے نمائندے ہیں؟
جمہوریت میں آپ کو اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہے۔ یہ حق دوسروں کو بھی اسی طرح میسرہے۔ اس کا عملی اعتراف ہی ہمیں عدم استحکام سے بچا سکتا ہے۔ سیاست میں یہ فیصلہ لوگ کرتے ہیں کہ کس کی قیادت ان کے مفاد میں ہے۔ جمہوریت تنوع کے احترام کا نام ہے۔ اس ملک میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد تحریکِ انصاف کی مخالف ہے۔ ان کے اس حق کو تسلیم کر نا پڑے گا کہ یہی جمہوریت ہے۔
یہ خامہ فرسائی، میں جانتا ہوں کہ کسی کام کی نہیں۔ جہاں ایک وفاقی وزیر یہ اعلان کرے کہ دوسرے غیر قانونی حرکتیں کریں گے تو ہم بھی کریں گے، وہاں قانون کے احترام کی بات مضحکہ خیز ہے۔ یہ بات سوچنے کے لیے مگر لوگوں کو موقع نہیں دیا جاتا۔ انہیں مسلسل ہیجان میں مبتلا رکھا جاتا ہے۔ یہ ہیجان اب سیاسی کلچر بنتا اور دوسری جماعتوں میں سرایت کرتاجا رہا ہے۔ بقا کا بے رحمانہ کھیل اپنے عروج پر ہے۔