26مارچ کا لانگ مارچ ملتوی ہوگیا اوراب 26 مارچ ہی کو مریم نواز طلب کرلی گئیں، ایک پرانے مقدمے میں کہ کچھ نئے شواہد اہلِ احتساب کے ہاتھ لگے ہیں۔ اقتدار کا بے رحمانہ کھیل اسی طرح آگے بڑھتا ہے۔ اس میں نشانیاں ہیں ان کے لیے جو چشمِ بینا رکھتے ہیں۔
میرا گمان یہ تھاکہ اس کھیل کا آخری راؤنڈ 26 مارچ کو شروع ہوگا۔ یہ کسی ایک قوت کے زوال کاآغاز ہوگا۔ میری توقع کے برخلاف یہ 16مارچ ہی کو شروع ہوگیا۔ مولانا فضل الرحمن نے زبانِ حال سے پی ڈی ایم کے خاتمے کااعلان کردیا۔ سانحۂ ارتحال ہوچکا۔ جو دکھائی دیتا ہے، یہ تجہیزوتکفین کی سرگرمیاں ہیں۔ پسِ مرگ بھی چند دن تذکرہ رہتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ تین دن۔ اس کے بعد لواحقین بھی صفِ ماتم اٹھا دیتے ہیں۔
خیال یہ بھی تھاکہ پی ڈی ایم لڑتے ہوئے جان دے گی۔ ہار ہوگی تو 'شہادت‘ کا تمغہ سینے پر سجے گا۔ جاتے جاتے 'شکستِ فاتحانہ‘ جیسی کوئی اصطلاح چھوڑ جائے گی یا شعری روایت کو 'مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا‘ جیسا کوئی مصرع ہی دے جائے گی کہ اہلِ فکر پڑھتے اور سر دھنتے رہیں۔ 1970ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی بری طرح شکست کھا گئی مگر اردو شاعری کو 'مشرق ہار گیا‘ جیسی معرکہ آرا نظم دے گئی۔ سلیم احمد کی اس نظم کا جب تک ذکر ہوتا رہے گا، اس کی شانِ نزول بھی بیان ہوتی رہے گی۔
افسوس کہ اس بار ایسا کچھ نہ ہوسکا۔ 'مشرق ہار گیا‘ مگراس طرح کہ لونڈوں لپاٹوں کو ٹھٹھہ مذاق کیلئے ایک موضوع دے گیا۔ سوشل میڈیا پر ہنگامہ ہے۔ اب ایک دھجی کولیے پھرتے ہیں طفلاں۔ نہیں جانتے کہ یہ کبھی پرچم تھا یاکسی لشکرکا علم۔ خلقِ خدا کوتو تماش بینی کیلئے بہانہ چاہیے۔ اس بار یہ بہانہ پیپلزپارٹی نے فراہم کردیا۔ مشرق ہار گیا مگر زرداری صاحب جیت گئے۔
نواز شریف یا پھر مولانا فضل الرحمن اگر چاہیں کہ اس تنِ مردہ میں دوبارہ جان ڈال دیں تواب ایسا نہیں ہوسکے گا۔ وہ دور گیاکہ کوئی صاحبِ کرامت فسوں پڑھتا تھا اور مردے جی اٹھتے تھے۔ اب سیاست میں کوئی ابنِ مریم نہیں۔ ہاں مریم نواز ضرور ہیں۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ جرأت اگر سیاست میں زندہ ہے تو ان کے دم سے۔ سب پر بھاری ہونا اسے کہتے ہیں۔ یہ معرکہ مریم کواکیلے سرکرنا ہے مگر کیسے؟ انہیں اب یہی سوچنا ہے۔
نون لیگ کواب خوابوں سے نکلنا اور ایک حقیقت پسندانہ حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ پاور پالیٹکس اور اصولی سیاست کے فرق کو سمجھنا ہوگا۔ دونوں کا امتزاج بھی کسی حد تک ممکن ہوتا ہے لیکن اس صورت میں وہ مرحلہ بہرحال آتا ہے جب کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ نون لیگ کیلئے وہ مرحلہ آچکا۔ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ پی ڈی ایم کے فورم سے کوئی اصولی سیاست نہیں کی جا سکتی۔
اکثر نے، مگر پیپلز پارٹی نے بالخصوص، اس فورم کو مقتدر حلقوں کے ساتھ ساز باز کے لیے کامیابی کے ساتھ استعمال کیا۔ پیپلز پارٹی کے لیے بھی لیکن اب ممکن نہیں ہو گا کہ وہ اس فورم سے مزید کوئی مفاد کشید کر سکے۔ یقیناً اس کی صفوں میں بھی اب متبادل راستے پر غور و فکر شروع ہو چکا ہو گا۔ اسی کے لیے اسے مہلت چاہیے تھی جو بظاہر مل گئی۔ پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کی گائے سے جتنا دودھ نکالنا تھا، وہ نکل چکا۔ اب اسے بھی کوئی نئی گائے تلاش کرنا ہو گی الا یہ کہ وہ مولانا اور نواز شریف کو ایک بار پھر رام کر لے۔
مکرر عرض ہے کہ اس نظام میں نون لیگ کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ شہباز شریف صاحب کے لیے بھی نہیں۔ اقتدار ایک طرف رہا، مریم کا معاملہ تو یہاں تک آ پہنچا کہ 'جان بچی سو لاکھوں پائے‘۔ واقعہ یہ ہے کہ ڈارون کا نظریۂ حیاتیات میں سچ ثابت ہوا یا نہیں، سماجیات میں اس نے خود کو منوا لیا ہے۔ 'فطرت‘ کی بے رحم قوتوں سے جینے کا حق چھیننا آسان نہیں۔ کوئی آپ کی جان بخشی کے لیے تیار نہیں، الا یہ کہ آپ خود میں اپنے دفاع کی اہلیت پیدا کریں۔ اقتدار کے کھیل میں یہ اہلیت کیسے ثابت کی جائے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا نواز شریف صاحب اور مریم نواز کو فوری جواب چاہیے۔
مجھے آج سیاست وہاں کھڑی دکھائی دیتی ہے جہاں 1979ء میں تھی اور جس پر تبصرہ کرتے ہوئے ولی خان مرحوم نے کہا تھا کہ قبر ایک ہے اور آدمی دو۔ باقی تاریخ ہے جس سے سب واقف ہیں۔ میرے نزدیک یہ صرف عوامی قوت اور پذیرائی ہے جو اللہ تعالیٰ کے بعد، مریم کی بقا کی ضامن ہے۔ کوئی سوال اٹھا سکتا ہے کہ یہ قوت ذوالفقار علی بھٹو کو کیوں نہ بچا سکی۔ میرا جواب ہو گا کہ 2021ء اور 1979ء کے مابین بیالیس سال کا فرق ہے۔ ایک فرق پنجاب اور سندھ کا بھی ہے۔ اس باب میں تھوڑے کو بہت جانیں۔
نون لیگ کے پاس ایک راستہ ہے۔ وہ خود کو دو حصوں میں تقسیم کر لے۔ ایک مسلم لیگ وہ جو صرف اصولی سیاست کرے۔ یہ سیاسی جماعت سے زیادہ، تحریکِ پاکستان کی طرح ایک تحریک ہو۔ دوسری مسلم لیگ وہ جو پاور پالیٹکس کرے۔ پہلی مسلم لیگ نواز شریف صاحب کی راہنمائی میں منظم ہو جس کی عملی قیادت مریم نواز کے پاس ہو۔ دوسری مسلم لیگ وہ جس کی قیادت شاہد خاقان یا کسی دوسری شخصیت کے پاس ہو جو مقتدر حلقوں کو گوارا ہو۔ حمزہ شریف کے لیے بھی اس مسلم لیگ میں جگہ بن سکتی ہے مگر قیادت کی سطح پر نہیں۔
اصولی مسلم لیگ کا ایک ہی ہدف ہو: نوازشریف کا بیانیہ کس طرح عوامی بیانیہ بن جائے، جس طرح تقسیمِ ہند یا پاکستان کا بیانیہ عوامی سطح پر مقبول ہو گیا تھا۔ اس مسلم لیگ کا میدان سماج ہو نہ کہ ریاست۔ یہ اس طرح کام کرے جس طرح کوئی مصلح یا اصلاحی تحریک کام کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں مریم نواز کم از کم فی الوقت، وزیرِ اعظم نہیں بن سکتیں۔
دوسری مسلم لیگ پاور پالیٹکس کرے۔ اس کی حکمتِ عملی میں جوڑ توڑ، ساز باز، سیاسی اتحاد جیسے سب طریقے شامل ہوں جو زمینی حقائق کا مطالبہ ہیں۔ غیر سیاسی قوتوں کے سیاسی کردار کو تسلیم کرنا ہوگا۔ آج عملی سیاست اس کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ مسلم لیگ اگراقتدار کے کھیل میں شریک رہے گی تو جان کو تحفظ مل سکے گا۔ مریم نواز اس سے باہر رہ کر اس سماجی تبدیلی کی راہ ہموار کر سکیں گی، جس کے بغیر اس ملک میں جمہوریت نہیں آسکتی۔
نوازشریف صاحب اور ان کے حقیقی حریفوں نے سیاست کو وہاں پہنچا دیا ہے جہاں مفاہمت کی جگہ باقی نہیں رہی۔ مفاہمت کی صورت میں لازم ہے کہ ایک فریق کا سیاسی کردار ختم ہوجائے اور فی الحال کوئی اس پرتیار نہیں۔ اس لیے جسے اصولی سیاست کرنی ہے، وہ پاور پالیٹکس سے الگ ہوجائے۔ پاور پالیٹکس میں اصول کی بات تختہ دار تک توپہنچا سکتی ہے، ایوانِ اقتدار تک نہیں۔ تاریخ اس باب میں دوٹوک ہے۔ پی ڈی ایم یا اتحادوں کی سیاست میں نوازشریف یا مریم نواز کے لیے کچھ نہیں رکھا۔ یہ صرف زرداری صاحب کو سازگار ہے یا اس کے لیے جو سیاست میں میکیاولی کو اپنا امام مانتا ہے۔
جس کام کا آغاز 26 مارچ کو ہونا تھا، اس کی شروعات 15 مارچ کو ہو گئی۔ پی ڈی ایم کا قصہ ختم ہوا۔ اس پر مزید اصرار مردہ خراب کرنے کے مترادف ہو گا۔