پیپلزپارٹی اس ملک کے لیے ایک بار پھر اثاثہ بن سکتی ہے۔ چند سطحی فائدوں میں الجھی، پیپلزپارٹی کی قیادت کو کیا اس کا اندازہ ہے؟
پیپلزپارٹی نے پاکستان کی سیاست کو ایک رومان سے روشناس کرایا۔ سیاسی زندگی میں ہم نے دو ہی رومان دیکھے: اسلامی انقلاب اور سوشلزم۔ اسلامی انقلاب نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے فکری شکوہ سے ظہور کیا اور جماعت اسلامی کے سائبان تلے اپنا بچپن گزارا۔ سوشلزم اگرچہ بھٹو صاحب کی دریافت نہ تھا مگر ان کی بھاری بھرکم شخصیت ہی نے اسے ایک عوامی رومان میں بدلا اوراس نے پیپلزپارٹی کی چھتری تلے نشوونما پائی۔
یہ دونوں شخصیات اگرچہ اس درجے کی تھیں کہ ان سے شخصی رومان وابستہ کیا جا سکتا‘ اور بہت سوں نے کیا بھی جنہوں نے انہیں معیار حق مان لیا، مگر اکثریت کے لیے یہ فکری اور نظری رومان تھا۔ یہ نظریاتی سیاست کا دور تھا جو تمام ہوا؛ تاہم پیپلزپارٹی کا یہ کردار تاریخ میں ثبت ہے کہ اس نے پاکستان میں رومانوی سیاست کوآگے بڑھایا۔ بھٹو صاحب کی پھانسی اور بینظیر صاحبہ کے قتل نے اس رومان کوامر کردیا۔ عمران خان بھی ایک رومان ہیں مگر سرتا پا شخصی۔ اس میں کہیں کسی نظریے یا فکری پختگی کاگزر نہیں۔
یہی پیپلزپارٹی، آج سیاست میں حقیقت پسندی کا سب سے بڑااستعارہ ہے۔ ایسی حقیقت پسندی کہ معلوم ہوتا ہے ہم ایک نئی پارٹی دیکھ رہے ہیں۔ تاریخ سے اسے بس اتنی ہی نسبت ہے کہ ایک لیڈر کے نام کے ساتھ بھٹوکا لاحقہ لگا ہوا ہے۔ مسلم لیگ اگر ایسا کرتی توکسی کو حیرت نہ ہوتی کہ اس کا خمیر ہی حقیقت پسندی سے اٹھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ رومانوی سیاست سے یہ اظہارِ لاتعلقی، پیپلزپارٹی کے لیے پیغامِ حیات ہے یا زہرِ قاتل؟
پی ڈی ایم کا سب سے زیادہ فائدہ پیپلزپارٹی کو پہنچا۔ یہ پارٹی عملاً سندھ تک محدود ہوچکی ہے۔ یہ اگر قومی سے صوبائی جماعت بنی تو یہ ترقی نہیں، تنزل ہے۔ بطور جماعت اس کی سب سے پہلی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ قومی افق پرایک بارپھر دکھائی دے۔ ایک طویل عرصے کے بعد پی ڈی ایم نے اسے یہ موقع فراہم کیا۔ اسے پیپلزپارٹی کانیا طلوع کہا جاسکتا ہے۔
پیپلزپارٹی کویہ موقع اُس وقت ملا جب اس نے ملتان میں پی ڈی ایم کے جلسے کی میزبانی کی۔ پنجاب حکومت نے بعض روایتی انتظامی اقدامات سے اس جلسے کوروکنے کی کوشش کی توگویا پیپلزپارٹی کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنی سیاسی تربیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اسے ایک ایسے واقعے (event) میں بدل دے جو پنجاب میں اس کے سیاسی وجود کا اظہار بن جائے۔ وہ اسے 'واقعہ‘ بنانے میں کامیاب رہی۔ ایک مدت کے بعد لوگوں نے پنجاب کے افق پر پیپلزپارٹی کو دیکھا۔
دوسرا واقعہ یوسف رضا گیلانی صاحب کا بطور سینیٹر انتخاب ہے۔ اگر پی ڈی ایم نہ ہوتی تو آصف زرداری صاحب کی 'فنی مہارت‘ اس کامیابی کے لیے کافی نہ تھی۔ اس سے مخالف کی محدود عددی برتری کم یا ختم کی جا سکتی ہے مگر معاملہ اگرزیادہ کا ہوتو یہ مہارت کام نہیں آتی۔ اس میں کوئی شبہ ہی نہیں کہ یہ کامیابی پی ڈی ایم کی مرہونِ منت ہے۔
ان دو واقعات نے ایک طویل عرصے کے بعد پیپلزپارٹی پنجاب میں زندگی کی لہر دوڑا دی۔ پارٹی کی قیادت اگر دوررس سوچ رکھتی تواس کے سامنے یہ سوال ہونا چاہیے تھاکہ ان ابھرتے امکانات کے استعمال سے کیسے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں احیائے جماعت کے امکانات کو بڑھایا جا سکتا ہے؟ پارٹی کی قیادت مگر سازباز سے اوپر اٹھ کر نہ دیکھ سکی۔ اس نے اپنی قوت کوبڑھانے کے بجائے، یہ سوچنا شروع کردیا کہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر، کیسے نون لیگ کوپنجاب میں کمزورکیا جا سکتا ہے؟ اس نے خیال کیاکہ اس طرح مقتدرہ کے دل میں اسے مزید جگہ مل جائے گی۔
ایک دوسرا امکان بھی پیپلزپارٹی کی راہ تک رہا تھا۔ پاکستان کا لبرل طبقہ جو صحافت اور ابلاغ کی دنیا میں موثر ہے، اصلاً پیپلزپارٹی کا حامی ہے۔ اس کی فطری جماعت پیپلزپارٹی ہے۔ زرداری صاحب کی رومان سے عاری سیاست نے اس طبقے کو پارٹی سے دور کر دیا تھا۔ نوازشریف کی نئی سیاست نے، جو ماضی کے مقابلے میں لبرل ہونے کے ساتھ، اینٹی اسٹیبلشمنٹ بھی ہے، اس طبقے کو نون لیگ کے قریب کردیا تھا۔ میں نے ایک طویل عرصے کے بعد، اس طبقے میں پیپلزپارٹی کے لیے گرمجوشی کا احیا دیکھا۔
پیپلزپارٹی کی قیادت اگر سیاسی حرکیات پرنظر رکھتی تو آگے بڑھ کران امکانات کو سمیٹنے کی کوشش کرتی اور پارٹی کو دوبارہ ایک قومی جماعت بنانے کی سعی کرتی۔ یہ اسی صورت میں ممکن تھاکہ پارٹی کی سیاست میں ایک بارپھر رومان کو زندہ کیا جاتا۔ یہ بھٹوکے رومان اور زرداری کی حقیقت پسندی کے امتزاج کے ساتھ آگے بڑھتی۔ زرداری صاحب توشاید یہ نہ سوچ پاتے مگرکیا کوئی اور ایسا نہیں تھا جواس پہلو سے غور کرتا۔
کم ازکم تین افراد ایسے ہیں جو اس حوالے سے سوچ سکتے تھے۔ اعتزاز احسن، قمر زمان کائرہ اور چوہدری منظور احمد۔ اعتزاز صاحب کا معاملہ تھوڑا الگ ہے‘ کائرہ صاحب اور چوہدری منظور البتہ سیاسی حرکیات اور پیپلزپارٹی سے وابستہ رومان کی عوامی پذیرائی کو سمجھتے ہیں۔ ایک رومان خود ان کے اندر بھی زندہ ہے۔ مجھے اندازہ نہیں کہ انہوں نے پارٹی کواس جانب کتنا متوجہ کیا ہو گا۔ بظاہر تواس کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔
زرداری صاحب نے کوئی ابہام باقی نہیں رکھاکہ انہوں نے اقتدار کی سیاست کرنی ہے اوراس میں کامیابی کی واحد صورت زمینی حقائق کے ساتھ تطبیق پیدا کرنی ہے۔ وہ اس بات کو نظر انداز کررہے ہیں کہ اس صورت میں بھی امکانات کم ہیں کہ آپ پر اقتدار کی دیوی پوری طرح مہربان ہو مگر پھر آپ کو عمربھر مقتدر قوتوں کی بی ٹیم کی شناخت کے ساتھ جینا پڑے گا۔ ایسے دھبے کسی بڑی قربانی ہی سے دھل سکتے ہیں۔ نون لیگ کی شناخت بھی یہی رہی ہے۔ یہاں تک کہ نوازشریف نے مزاحمت کی راہ اپنائی اور بڑی قربانی سے اس الزام کو دھونے کی کوشش کی۔ فی الحال یہ اعزاز ق لیگ اور تحریک انصاف کے لیے خاص ہوگیا۔
پیپلزپارٹی کا عام کارکن بھی اس شناخت کو قبول نہیں کرسکتا۔ وہ ماضی میں جس طرح پارٹی سے لاتعلق ہوا تھا، اب بھی اُسی طرح روٹھا رہے گا۔ لبرل طبقے کی بیزاری بھی برقرار رہے گی۔ اس حقیقت پسندانہ سیاست سے سندھ حکومت تو شاید بچ جائے یا کسی کی خوشنودی کے لیے پی ڈی ایم کی تحریک کو نقصان پہنچایا جا سکے، اس سے بڑھ کر پیپلز پارٹی کو کچھ نہیں مل سکتا۔ قومی سطح پر پیپلزپارٹی کے احیا کے امکانات کو نظرانداز کرکے، ان فوائد کا سمیٹنا ،کیا پیپلزپارٹی کے لیے ایک اچھا سودا ہے؟
پیپلز پارٹی ایک قومی جماعت ہے اور قومی جماعتیں ملک کیلئے اثاثہ ہوتی ہیں۔ یہ قومی‘ سیاسی جماعتیں ہیں جو ملک کو متحد رکھنے کی واحد ضمانت ہیں۔ طاقت اور جبر سے ملک متحد رہ سکتے تو مشرقی پاکستان ہم سے کبھی جُدا نہ ہوتا۔ پاکستان کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پیپلزپارٹی ملک گیر جماعت بنے۔ اِس کے لیے اسے رومان سے مکمل دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔
بحالیٔ جمہوریت کی تحریک سے وابستگی میں پیپلزپارٹی کا فائدہ ہے اورملک کا بھی۔ محض حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھا جائے تواب تک اس اتحاد کا سب سے زیادہ فائدہ پیپلزپارٹی کو پہنچا ہے۔ اسے جلد ہی کوئی فیصلہ کرنا ہوگا کہ اسے کس شناخت کے ساتھ آگے بڑھناہے: جمہوریت پسند پارٹی یا بی ٹیم؟