تمام مذہبی گروہوں کو ہم نے انتہاپسندی کی راہ پر ڈال دیا۔
رات کے آخری پہر، ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح، میں بستر پر کروٹیں بدلتا رہا۔ کہیں سے نیندکی آہٹ سنائی نہ دی کہ دامنِ دل خالی ہو تو نیند بھی گریزاں رہتی ہے۔ بستر باعثِ آزار بننے لگا تو اٹھ بیٹھا۔ بلا ارادہ 'کلیاتِ اقبال‘ کو اٹھا لیا۔ ورق گردانی کرتے ہوئے، مصورِ پاکستان کی آواز سنائی دی:
بھٹکا ہوئی راہی میں، بھٹکا ہوا راہی تُو
منزل ہے کہاں تیری اے لالہ صحرائی
ابتدا جماعت اسلامی سے ہوئی۔ ہم نے آغازِ سفر کے ساتھ سوچ لیا تھا کہ مذہب اگر ہمارے 'سکیورٹی پیراڈائم‘ کا حصہ بن جائے تو 'قومی مفاد‘ کا تحفظ سہل ہو جائے گا۔ کشمیر میں آزادی کی تحریک ایک نئی حکمتِ عملی کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی۔ بھارتی مظالم اور غلامی کے تسلسل سے کشمیری نوجوانوں کے صبر کا پیمانہ چھلک اٹھاتھا۔ جماعت اسلامی پاکستان ہی میں نہیں ہے، بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں بھی متحرک ہے۔ سید علی گیلانی کو کون نہیں جانتا؟ یوں سمجھیں کہ وہ کشمیر کے مولانا مودودی ہیں۔ آزادی کی خواہش میں جلتا ایک شعلۂ جوالا۔
تفصیلات کیا عرض کروں کہ پھر گلی بازار میں حزب المجاہدین اور سید صلاح الدین کے نام گونجنے لگے۔ کیفیت وہ ہوگئی کہ 'اک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو‘۔ ان گناہگار آنکھوں نے پھر یہ منظر بھی دیکھاکہ راولپنڈی کے لیاقت باغ کے پاس، مری روڈ پر ایک گاڑی سے قاضی حسین احمد اورمست گل ایک ساتھ نمودار ہوئے اور فضا نعروں سے گونج اٹھی ''سبیلنا سبیلنا... الجہاد الجہاد‘‘۔ معلوم ہوا کہ مست گل 'چراہ شریف‘ کے ہیرو ہیں۔ بعد میں خبر آئی کہ موصوف منشیات کی سمگلنگ میں گرفتار ہوگئے۔ خیر اس کا یہاں کیا ذکر۔
پھر یوں ہوا کہ حزب المجاہدین اور سید صلاح الدین کے نام پس منظر میں جانے اور مولانا فضل الرحمن خلیل اور مولانا مسعود اظہر کے نام سنائی دینے لگے۔ معلوم ہوا کہ مکتبِ دیوبند کے فرزند ہیں۔ کشمیر کو آزاد کراناچاہتے ہیں۔ مولانا مسعود اظہر تو بھارت کی قید میں بھی رہے۔ ایک بھارتی جہاز اغوا کیا گیا۔ اسے افغانستان لے جایا گیا اور بدلے میں انہیں چھڑوایا۔ اب اہلِ دیوبند میں مجاہد پیدا ہونے لگے۔ سرفروشی ان کے خمیر میں تھی کہ انہوں نے اپنا چراغ فکرِ شیخ الہند سے روشن کیا تھا جو انگریزوں کے خلاف جہاد کی علامت تھے۔ قائدین کرام نے اس معرکے میں اپنا حصہ ڈالا اور دیوبندی نوجوانوں کے ہاتھ میں کلاشنکوف پکڑا کر خود غیبت میں چلے گئے۔
ان کانوں نے پھر حافظ محمد سعید کا نام سنا۔ پتا چلا کہ اہلِ حدیث مسلک سے تعلق ہے۔ ایک یونیورسٹی میں استاد ہیں مگر جذبہ جہاد سے سرشار۔ یہ بھی کشمیر کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ انکی قیادت میں ایک تنظیم بنائی گئی۔ پھر معلوم ہواکہ حافظ صاحب سے ہنودویہود کو چڑ تھی کہ جہاد کا نام لیتے ہیں۔ دنیا ہمارے پیچھے پڑگئی کہ انہیں گرفتار کیا جائے۔ فیٹف نام کی ایک معاشی تلوار ہمارے سر پر لٹکا دی کہ حافظ صاحب کہیں دکھائی نہ دیں۔ یوں وہ خود توگرفتار ہوگئے لیکن مسلکِ اہلِ حدیث میں جہاد کی روح پھونک گئے۔
اس کے ساتھ ساتھ 1979ء سے افغانستان میں بھی جہاد جاری تھا۔ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت اہلِ حدیث، ماشا اللہ سب نے اس جہاد میں ریاست کے دست و بازو کا کردار ادا کیا۔ میں اس وقت نوجوان تھا۔ میں جنرل حمید گل اور قاضی حسین احمد کو دیکھتا تو خیال کرتا کہ محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد بھی ایسے ہی ہوں گے۔ جلال آباد کی 'فتح‘ پر جب میں ‘فتحِ مبین‘ کے جلوس میں شریک تھا تو بتا نہیں سکتا کہ میرے ولولوں کا کیا عالم تھا۔ یوں سمجھیں کہ اُس دن میرے خون میں لٹر دو لٹر کا توضرور اضافہ ہوا ہوگا۔
اس مہم جوئی سے 'سکیورٹی پیراڈائم‘ کتنا کامیاب ہوا، یہ میں نہیں جانتا لیکن ایک خلش دل میں موجود رہی جو ایک سوال میں ڈھل گئی۔ سب مذہبی مسالک اور جماعتیں جہاد اور سرفروشی کے جذبے سے مملو ہو چکے‘ ہمارے بریلوی بھائی اس سعادت سے کیوں محروم ہیں؟ سنی تحریک نے بڑے خلوص سے کوشش کی مگر بات بنی نہیں۔ خدا کے ہاں مگر دیر ہے اندھیر نہیں۔ ایک دن اچانک پردہ غیب سے علامہ خادم حسین رضوی نمودار ہوگئے۔
محترم رضوی صاحب نے اگلے پچھلے سب گلے دھو ڈالے۔ انہوں نے بریلوی مسلمانوں میں مذہب کی وہ آتش دوڑا دی کہ عالمِ کفر پرلرزہ طاری ہوگیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ساتھ ہی یہ لرزہ پاکستان پر بھی طاری ہوا لیکن ایک بڑے مقصد کے لیے چھوٹی موٹی قربانی دینا ہی پڑتی ہے۔ تحریکِ لبیک کے طوفان کے سامنے نوازشریف کی حکومت اور سیاست تنکوں کی طرح بکھر گئے کہ انہوں نے اس کی راہ روکنے کی کوشش کی۔ رضوی صاحب اپنے مقصد کے لیے مجاہدانہ وار لڑتے ہوئے اللہ کو پیارے ہوگئے اور تحریک کا علم ان کے جواں سال بیٹے نے اٹھا لیا۔ یوں تمام مذہبی گروہوں اور مسالک کو انقلابی بنانے کا عمل، جسے انگریزی میں ریڈیکلائز (redicalize) کرنا کہتے ہیں، اپنے انجام کو پہنچا۔
فتوحات کا یہ سلسلہ یہاں تک پہنچا تو خود 'سکیورٹی پیراڈائم‘ نے ہاتھ جوڑ دیے۔ اس نے رخصت کی درخواست کی کہ میں اب مزید استعمال کے قابل نہیں رہا۔ میرا تو انگ انگ زخموں سے چُور ہو چکا۔ ملتمس ہواکہ ہم اس کا پیچھا چھوڑیں اورکوئی نیا پیراڈائم اختیار کریں۔ آخر قومی مفاد کی حفاظت کا کوئی اور راستہ بھی ہو گا۔ ہم نے اس کی بات سن لی۔ اب ہم نے تحریکِ لبیک کو بھی خلافِ قانون قرار دے دیا۔ شیخ رشید صاحب، پہلے ان کے وکیل تھے۔ اب ان کے خلاف مدعی بن گئے۔ امید ہے کہ اب سکیورٹی کے اس مذہبی پیراڈائم کو اپنے علاج کے لیے وقت مل جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کہاں جانا ہے؟ کوئی مذہبی گروہ تو بچا نہیں جو انقلابی نہ بنا ہو۔ اگر کوئی چھوٹا موٹا گروہ بچ گیا تھا تواسے ریڈیکلائز کرنے میں برادر مسلم ممالک ہماری مدد کو آئے۔ آج پورے اطمینان سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں کوئی ایسا مذہبی گروہ باقی نہیں‘ جو انقلابی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد ہماری منزل کیاہے؟ ہمیں کسی نئے پیراڈائم کی ضرورت ہے یا ہم اسی کی صحتیابی کا انتظار کریں جو کونے میں زخموں سے چُور پڑا ہے؟
اس سوال نے میری نیند اڑا رکھی ہے۔ 'کلیاتِ اقبال‘ اٹھائی تو اقبال بھی سوال کرتے دکھائی دیے۔ پھر مجھے خیال ہواکہ اقبال 'شکوہ‘ کے بعد 'جواب شکوہ‘ بھی لکھتے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا توجواب بھی دیا ہوگا۔ یادداشت نے تائید کی۔ میں نے ''جاوید نامہ‘‘ اٹھا لیا۔ ایک شعر پر نظریں رک گئیں۔ اقبال جمال الدین افغانی کی زبان میں ہمیں نصیحت کررہے تھے:
منزل و مقصودِ قرآں دیگرے
رسم و آئینِ مسلماں دیگرے
گویا اس بھٹکے ہوئے راہی کو 'آئینِ دیگرے‘ کی ضرورت ہے۔ سادہ لفظوں میں ایک نئے 'سکیورٹی پیراڈائم‘ کی۔ یہ نیا پیراڈائم کیا ہو؟ یہ جو بھی ہو،اس کا آغاز اپنے احتساب سے ہوگا۔ جنرل قمر باجوہ کے الفاظ میں 'اپنے گھر کی صفائی‘۔ علامہ اقبال نے سو سال پہلے جب 'مسجدِقرطبہ‘ کے عنوان سے اردو نظم کا تاج محل تعمیر کیا تو ہمیں اسی جانب متوجہ کیا تھا:
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
گھر کی صفائی کا عمل دماغ سے شروع ہونا چاہیے کہ پیراڈائم یہیں تشکیل پاتے ہیں۔