"KNC" (space) message & send to 7575

سیاسی اختلاف یا دشمنی؟

یہ سیاست نہیں دشمنی ہے۔
جاتی امرا میں نواز شریف صاحب کے گھر کو گرانے کی خواہش سیاست نہیں ہو سکتی۔ بات گھروں تک پہنچ جائے تو اسے دشمنی سمجھا جاتا ہے۔ سیاست کی راہ پر دشمنی کے کانٹے بکھر جائیں تو سب کے پاؤں سے لہو بہتا ہے۔ اس لیے کہ ہر سیاست دان کے گھر تک کوئی نہ کوئی راستہ ضرور جاتا ہے۔ بنی گالہ کے راستے پر پڑے کانٹے نئی قانون سازی سے ہٹا دیے گئے لیکن یہ دوبارہ بھی بکھر سکتے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ سب گھروں کے راستے کھلے رہیں۔
میرے مرحوم دوست خلیل ملک نے مجھ سے جنرل پرویز مشرف کے دور کا ایک واقعہ روایت کیا تھا۔ مشرف صاحب بھی شریف خاندان کے گھروں تک پہنچ گئے تھے۔ ماڈل ٹاؤن کے گھر ان کے دور میں سرکاری قبضے میں لے لیے گئے تھے۔ چوہدری شجاعت حسین ان دنوں پرویز مشرف صاحب کے ساتھ تھے۔ اس خاندان کا رکھ رکھاؤ معروف ہے۔ تعلقات کے باب میں وہ روایت کے آدمی ہیں۔ یہ واقعہ بھی اس کی تائید کرتا ہے۔
شریف خاندان کے سب مرد جیل میں تھے۔ گھر میں صرف خواتین تھیں۔ ایک دن پولیس نے ان کے گھر میںگھس کر خواتین کو گرفتار کرنا چاہا۔ خواتین نے پریشانی میں مجید نظامی مرحوم کو فون کیا۔ نظامی صاحب نے چوہدری شجاعت سے بات کی۔ راوی کا بیان ہے کہ تھوڑی دیر کے بعد چوہدری صاحب کئی گاڑیوں کے ساتھ میاں صاحب کے گھر پہنچ گئے۔ وہ شدید غصے میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی موجودگی میں کوئی ان خواتین کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ چوہدری صاحب اس گھر کے پہرے دار بن گئے تھے۔
خلیل ملک اور مجید نظامی اب اس دنیا میں نہیں‘ چوہدری صاحب موجود ہیں جو اس واقعے کی تائید یا تردید کر سکتے ہیں۔ مجھے اسے ماننے میں کوئی تردد نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ہماری روایت یہی ہے۔ لوگ سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی نہیں بناتے تھے۔ خواتین اور گھر کی عزت سانجھی سمجھی جاتی تھی۔ جنرل ضیا الحق مرحوم کے بارے میں بھی یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ جب ان کے سامنے بے نظیر بھٹو کی کردار کشی کا منصوبہ رکھا گیا تو انہوں نے اسے سختی سے مسترد کر دیا تھا۔
جن لوگوں نے سیاسی مخالفین کی شخصی توہین کی یا چادر اور چار دیواری کی عزت کو نظر انداز کیا، وہ اپنی عزت میں کوئی اضافہ نہ کر سکے۔ بھٹو جیسا بڑا آدمی جب اس سیاست کا مرتکب ہوا تو ان کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ ان کے زوال میں ان کے فاشسٹ رویے نے بنیادی کردارادا کیا۔ یہ اسلوبِ سیاست ان کی خوبیوں کو کھا گیا۔ سوال یہ ہے کہ بھٹو جیسا آدمی اگر اس کی تاب نہ لا سکا تو کوئی دوسرا حکمران کیسے بچ سکتا ہے؟
نواز شریف صاحب کے خلاف سلگتی آتشِ انتقام کو بجھانے کے سو راستے ہیں۔ ان کو کامیابی کے ساتھ استعمال کیا جا رہا ہے۔ شہزاد اکبر صاحب جیسے زرخیز ذہن مزید راستے بھی تلاش کر سکتے ہیں۔ اب اس آگ کو لیکن کسی دائرے میں قید ہو جانا چاہیے۔ چادر اور چار دیواری کو اس سے محفوظ رکھنا چاہیے۔ انسان دائمی ہے نہ اس کا اقتدار۔ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے، اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
ملک تیزی سے انتشار کی طرف بڑھ رہا ہے۔ تحریکِ لبیک پر پابندی کے مضمرات ابھی سامنے آنے ہیں۔ کسی متوقع صورت حال سے نمٹنے کے لیے حکومت کو حلیفوں کی ضرورت ہے۔ مذہبی انتہا پسندی ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر حکومت چاہے تو قوم کو اکٹھا کر سکتی ہے‘ سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کر سکتی ہے۔ اس طرح کی تحریکیں جب عوامی جذبات میں سرایت کر جائیں تو محض پابندی کافی نہیں ہوتی۔ قانون کے ساتھ حکومت کو سماجی محاذ پر بھی لڑنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے اسے دوسری سیاسی جماعتوں کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔
حکومت آج تک سیاسی قوتوں کی حمایت سے بے نیاز رہی ہے۔ اپوزیشن کی کمزوری اس کی طاقت بنی رہی ہے۔ اس کا خیال یہ ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے خلاف آخری درجے تک جا سکتی ہے اور اسے کسی قابلِ ذکر مزاحمت کا سامنا نہیں ہو گا۔ پی ایم ڈی کی ناکام سیاست، اس کے اعتماد کا اصل سبب ہے۔ یہ حکومتی تجزیے کی بڑی غلطی ہے۔ حکومت اپنی طاقت سے باقی رہتی ہے، اپوزیشن کی کمزوری سے نہیں۔ حکومت کی طاقت محض جبر نہیں ہوتا، اس کی اخلاقی ساکھ ہوتی ہے۔ سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائی، اس ساکھ کو بری طرح مجروح کرتی ہے۔
موجودہ حکومت کو اس بات سے زیادہ دلچسپی نہیں کہ وہ تاریخ میں کس عنوان سے یاد رکھی جائے گی؛ تاہم، اگر فکرِ فردا کے بجائے فکرِ امروز کے تناظر میں سوچا جائے تو بھی مخالفین کو اس طرح دیوار سے لگانا اس کے مفاد میں نہیں ہے۔ انسان ایک حد تک ہی دبائو برداشت کر سکتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ تصادم ناگزیر ہو جاتا ہے۔ موجودہ حکومت تو اس خدشے سے بھی بے نیاز لگتی ہے۔
ایک عام آدمی کے لیے حکومت، چاہے وہ کسی کی بھی ہو، اہم نہیں ہوتی۔ اس کے لیے اہمیت اس امن اور استحکام کو حاصل ہے جو اس کی روزمرہ زندگی کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر اس میں اضطراب ہے تو لازماً اس میں حکومت کے خلاف جذبات پیدا ہوتے ہیں کیونکہ عقلِ عام بھی سمجھتی ہے کہ امن کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہی نہیں، ظلم اور دبائو انسانی فطرت کو گوارا نہیں۔ عوام کی تائید اُسی کو حاصل ہوتی ہے جو اس کی نظر میں مظلوم ہوتا ہے اور حکومت کو کبھی مظلوم نہیں سمجھا جاتا۔
جاتی امرا کا معاملہ اب عدالت میں ہے۔ حکومت کو سمجھنا یہ ہے کہ یہ زمین یا جائیداد کا نہیں، ایک گھر کا معاملہ ہے۔ پھر اس وقت اِس قضیے کا ایک سیاسی پس منظر ہے۔ یہاں یہ مقدمہ صادق نہیں آتا کہ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔ خان صاحب کا یہ فرمان اگرچہ ان کے عمل سے مطابقت نہیں رکھتا لیکن اگر اس سے صرفِ نظر کیا جائے تو بھی یہاں اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ تمام مقدمات سیاسی ہیں۔ ان کا قانون کی بالا دستی سے کوئی تعلق نہیں۔ کیا عدالت نے کوئی ایسا حکم دیا تھا کہ شریف خاندان سے یہ زمین خالی کرائی جائے؟
جو ملک اس طرح مشکلات میں گھرا ہو، اس کی سیاسی قیادت اتفاقِ رائے کو ابھارتی ہے اور داخلی سطح پر اختلافات کو کم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس حکومت کا چلن زمانے سے نرالا ہے۔ اس نے ہر کسی کے ساتھ محاذ کھول رکھا ہے۔ خیال ہوتا ہے کہ اس قافلے میں کوئی ایک ایسا نہیں جسے سیاست یا ریاست کا کوئی فہم میسر ہو۔ سب نے سیاسی حرکیات سے لا تعلقی اختیار کر رکھی ہے۔
لگتا یہ ہے کہ خان صاحب اپنے ٹوٹے ہوئے خوابوں کی چبھن کا جواب ریاست کی قوت سے دینا چاہتے ہیں۔ اگر وہ سیاسی عمل کو سمجھتے تو اس کا سیاسی توڑ تلاش کرتے۔ یہ توڑ اچھی گورننس ہے۔ وہ عوام کا اپنی کارکردگی سے باور کراتے کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں ایک بہتر انتخاب ہیں۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ غصے کا معاملہ یہ ہے کہ وہ سوچنے کی صلاحیت سے محروم کر دیتا ہے۔ اس نوعیت کے فیصلے اسی بات کی نشانی ہیں۔ یوں سیاسی اختلاف کو دشمنی میں بدلا جا رہا ہے۔ اس کا انجام تاریخ اور دیوار، دونوں پر لکھا ہے اور وہ جارح کے لیے کسی صورت خو ش گوار نہیں ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں