آثار یہی ہیں کہ مسئلہ کشمیر 'حل‘ ہونے جا رہا ہے۔
اربابِ حل و عقد کی زبان سے نکلے الفاظ کی تشہیر کا انتظام کر دیا گیا ہے۔ پسِ دیوار ہونے والی سرگوشیاں، اب قابلِ سماعت آوازوں میں بدل چکیں۔ میڈیا ناطق ہے۔ اگر کچھ بین السطور تھا، تو اسے سوشل میڈیا پر کھول دیا گیا ہے۔ کوئی معقول وجہ نہیں کہ ان خبروں کی صداقت پر شک کیا جائے۔ چند ماہ سے بہت کچھ، روزنِ دیوار سے چھن چھن کر باہر آ رہا تھا کہ وزیرخارجہ کے بقول، سب کچھ ایجنسیوں کی سطح پر تھا۔ اب اس کا ابلاغِ عام کردیا گیا ہے۔
آج اس قیاس کا پورا جواز موجود ہے کہ بھارت نے 5 اگست2019ء کو جو فیصلے کیے، وہ تنہائی میں نہیں ہوئے۔ اس پر سرحد کے اِس پارمتعلقہ لوگوں کو اعتماد میں لیا گیا تھا۔ اس سے پہلے پاکستان نے اگر گلگت بلتستان کو اپنا صوبہ بنایا تو وہ بھی کوئی یکطرفہ فیصلہ نہ تھا۔ اس پر سرحد کے اُس پار متعلقہ حلقے رابطے میں تھے۔ کم ازکم پیپلز پارٹی کی سطح تک، اپوزیشن کو بھی اعتماد میں لیا گیا۔ نون لیگ کو اس لیے نہیں کہ مقتدر حلقے، مستقبل کی سیاست میں اسے کوئی کردار دینے کو تیار نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ غیب کی خبر کسی کو نہیں۔
ایک عام آدمی جو خارجہ پالیسی کی الجھنوں سے واقف نہیں، جو ایوان ہائے اقتدار کی پُرپیچ راہداریوں میں ہونے والی سرگوشیوں سے بے خبر ہے، جو کسی ارسطو سے واقف ہے نہ کسی میکیاولی سے، یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ اگر اِسی حل تک پہنچتا تھا تو ستر برس کا سفر کیوں کیا؟ اس رائیگانی کا کوئی حساب؟ ہمیں اس جسارت پرایسے بے خبرسائل کو معاف کردینا چاہیے کہ اقتدارکی باریکیوں کو سمجھنا ایک عام آدمی کا کام نہیں۔
عام آدمی یہ سوال بھی اٹھا سکتا ہے کہ تاریخ نے، اس سے بہتر اورزیادہ باوقار حل کیلئے بارہا ہمارے دروازے پر دستک دی۔ تب ہم نے اپنا دروازہ کیوں نہیں کھولا؟ بھارت کا وزیراعظم پاکستان کی خودمختار اور باوقار حیثیت کے اعتراف کیلئے خود چل کرلاہور آگیا تھا۔ ہم نے لیکن گھر آئی عزت کو دھتکاردیا۔ پھرہم خود آگرہ جا پہنچے لیکن اس وقت تاریخ اپنا دروازہ بند کرچکی تھی۔ عام آدمی اس پر سوال اٹھا سکتا ہے مگراسے اس کی سادگی پرمحمول کرتے ہوئے معاف کردینا چاہیے کہ اقتدار کے رموز سے ناآشنا ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ عام آدمی کے سوالات ہمیشہ تشنہ جواب رہتے ہیں۔ اسے اس نظامِ کائنات کے بارے میں اپنے سوالوں کے جواب ملے ہیں نہ نظامِ حکومت کے بارے میں۔ نظامِ کائنات کے باب میں وہ عقیدے کا سہارا لیتا ہے۔ اربابِ اقتدار کے بارے میں بھی اس کا خیال یہی ہے کہ وہ ظلِ سبحانی ہوتے ہیں۔ ظل اللہ فی الارض۔ زمین پر اللہ کا سایہ۔ وہ جوکرتے ہیں، درست ہی کرتے ہیں۔ شکر ہے کہ عام آدمی کے پاس یہ جواب موجود ہے‘ ورنہ جواب ناآشنا سوالوں کی گھٹن میں اس کی سانس تھم جاتی۔
میں بھی ایک عام آدمی ہوں۔ مجھے بھی مان لینا چاہیے کہ جو کچھ ہورہا ہے، درست ہورہا ہے۔ اقتداراگر ایسا سادہ معاملہ ہوتا تو مجھ جیسوں کو سونپ دیاجاتا۔ میں اگراس سے دور ہوں تو اس لیے کہ اس کی پیچیدگیوں کوسمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ جمہوریت میں بھی اقتدار مجھے نہیں ملتا۔ مجھے صرف یہ حق ملتا ہے کہ میں ایک ہی طبقے کے دویا تین افراد میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلوں۔
وہ جمہوریت کہ جس میں، میں اس طبقے کے حقِ اقتدار ہی کو چیلنج کرسکوں، ابھی مجھ سے کوسوں دورہے۔ ابھی وہ مرحلہ نہیں آیاکہ میرے شعور پراتنا اعتماد کیا جائے۔ بہت سے ملکوں میں آچکا مگر میں ان سے ابھی سوسال پیچھے ہوں۔ میں تو آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ مجھے کسی مسیحا کوتلاش کرنا چاہیے۔ ایک فردِ واحد‘ جو تلوار پکڑے، گھوڑے پر سوار آئے اورصفِ دشمناں کوالٹ پلٹ دے۔ اس کے ایک حکم سے انصاف کے چشمے بہنے لگیں اور میں اس سے سیراب ہو جاؤں۔
میرے بڑوں کا بھی میرے شعور کے بارے میں یہی فیصلہ ہے۔ اسی لیے وہ مجھے مسئلہ کشمیر جیسے پیچیدہ مسائل سے دوررکھتے ہیں۔ ایسے مسائل پارلیمان میں زیرِ بحث نہیں آتے۔ انہیں بیک ڈور ڈپلومیسی سے حل کیاجاتا ہے۔ ہمارے حکمران میاں محمد بخش کو ماننے والے ہیں جن کی نصیحت یہ تھی کہ خواص کی باتیں عوام سے نہیں کی جاتیں۔ یہ تو ایسے ہی کہ جیسے کھیر پکا کر کتوں کے سامنے رکھ دی جائے۔ کتوں کو کھیر اور بندر کو ادرک کے ذائقے کا شعور کہاں؟ ویسے میاں محمد بخش نے اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کہہ رکھا ہے مگر اس سے ان کو زیادہ دلچسپی نہیں۔
قیادت کی اچھی بات یہ ہے کہ فیصلہ ہو جائے تو ہمیں بتادیتے ہیں۔ وہ بھی اس تکنیک سے کہ ہمارے ذہن اوردل پرزیادہ بوجھ نہ پڑے۔ بھٹو صاحب نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرلیا تھاکہ اس کے بغیر کوئی راستہ ہی نہیں تھا‘ عوام کومگر کیسے سمجھایا جاتا؟ وہ تو اپنے وجودکو دولخت دیکھ رہے تھے۔ بھٹو صاحب نے ایک ترکیب سوچی۔ انہوں نے شیخ مجیب الرحمن کو اسلامی سربراہی کانفرنس میں بلالیا۔ جاوید ہاشمی صاحب نے احتجاج کرنا چاہا تو جماعت اسلامی ہی نے انہیں روک دیا جو بنگلہ دیش نامنظور کی تحریک چلارہی تھی۔ ہاشمی صاحب حسب روایت اپنے حصے کے ڈنڈے کھاکر، اطمینان کے ساتھ گھرلوٹ گئے۔
ممکن ہے اب بھی کچھ لوگ یہ شوق کمائیں لیکن انہیں ایک تبدیلی کا اب ادراک ہوجانا چاہیے۔ یہ پہلی بار ہے کہ مسئلہ کشمیر پر سب ایک پیج پرہیں۔ اس بار میڈیا کوکسی وزیرخارجہ نے بریفنگ نہیں دی۔ انہیں وہاں سے خبر ملی ہے جہاں سے آنے والی خبر کبھی غیرمصدقہ نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اب احتجاج کرنے والوں کوکہیں سے کوئی حمایت نہیں ملنے والی۔ جاوید ہاشمی صاحب کے طریقے پر چلنے والوں کو اس بار متنبہ رہنا ہوگا۔
جو ہوا سو ہوا۔ اب ہمیں آگے کی طرف دیکھنا ہے۔ زمین پرپیدا ہونے والے مسائل زمینی حقائق کے تابع ہوتے ہیں۔ ہمیں مسئلہ کشمیرکے کسی ایسے حل کی جانب بڑھنا ہے جس میں ممکن حد تک ہمارے مفادات کا تحفظ ہوسکے اور بالخصوص اہلِ کشمیر کیلئے خیرکا پیغام ہو۔ اس ضمن میں چند اقدامات ناگزیر ہیں:
1۔ پارلیمان کو فوری طور پر اعتماد میں لیا جائے کہ اب تک کیا پیشرفت ہوئی ہے اور اس کی منزل کیا ہے؟
2۔ آزاد کشمیرکی حکومت اور قیادت کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔ یہ بات باعثِ تشویش ہے کہ اس معاملے پر دوتین سال سے بیک ڈور ڈپلومیسی جاری ہے اور کشمیری قیادت اس سے بے خبر ہے۔
3۔ دریاؤں کے پانی کے بارے میں واضح یقین دہانی لی جائے کہ بھارت پاکستان کے حصے کا پانی روکے گا نہ یکطرفہ طور پر ڈیم تعمیر کرے گا۔
4۔ اہلِ کشمیر کے مابین سماجی ربط کو سہل بنایا جائے گا۔
5۔ پاکستان میں اس مسئلے پر کھلی بحث کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ قوم باخبر ہو اور فیصلے میں شراکت دار۔
ماضی کے حوالے میں عام آدمی کے سوالات لائقِ التفات نہ سہی، مستقبل کے بارے میں اس کی تشویش کو مخاطب بنانا ضروری ہے۔ ریاستوں کے معاملات جتنے بھی پیچیدہ کیوں نہ ہوں، ریاستیں عوامی اعتماد کے بغیر قائم نہیں رہ سکتیں۔ معاملات جس کے ہاتھ میں ہوں، لازم ہے کہ یہ حقیقت اس کی نظروں سے کبھی اوجھل نہ ہو۔ عام آدمی کتنا جاہل کیوں نہ ہو، ریاست کا مستقبل اس کے ہاتھ میں ہے۔