مکرر عرض ہے کہ جدید مذہبی انتہا پسندی عالمِ اسلام کا نہیں، پاکستان کا مسئلہ ہے۔ اس کا حل بھی یہیں تلاش کرنا ہوگا۔
فرانس کے خلاف اگر کوئی مہم برپا ہوئی تو صرف پاکستان میں۔ جب بے ادبی کا واقعہ ہوا تھا تواس پر بہت سے مقامات پرایک ردِعمل ہوا۔ یہ ردِعمل واقعے تک محدود رہا۔ جیسے جیسے واقعہ یاد سے محو ہوتا گیا، ردِعمل بھی کم ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ مکمل خاموشی چھا گئی۔ یہ کسی مسلم ملک کیلئے خارجہ پالیسی کا مسئلہ نہیں بنا۔ یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد کا ہدف بھی پاکستان تھا۔ میں نہیں جان سکاکہ عمران خان صاحب مسلم سفرا سے کیا توقع باندھے ہوئے ہیں اور کیوں؟
2017ء میں یہی مئی کے دن تھے جب صدرٹرمپ ریاض میں رونق افروز ہوئے۔ پاکستان سمیت کم وبیش چالیس مسلم ممالک کے سربراہوں کومدعو کیا گیاکہ بادشاہ سلامت کا خطاب سنیں۔ چند مسلم رہنماؤں نے بھی تقریر فرمائی۔ اس موقع پرعالمی امن کو درپیش صرف دومسائل کا ذکر ہوا: مسلم انتہا پسندی اور ایران۔ سابق پاکستانی وزیراعظم نوازشریف نے ایران کی مذمت سے انکارکیا توانہیں خطاب کا موقع نہیں دیاگیا۔ سفارتی آداب سے بے نیاز دورے کے بعد وہ تقریرکا مسودہ ہاتھ میں لیے واپس لوٹ آئے۔ ایک تلخی نے جنم لیا جواتنی پھیلی کہ ان کے اقتدار کونگل گئی۔
یہ سنہری موقع تھا جب عالمی امن کو درپیش دیگر خطرات سے بھی دنیاکو آگاہ کیا جاسکتا تھا۔ انہیں بتایا جاتاکہ 'آزادیٔ رائے‘ کی جو تعریف مغرب میں مستعمل ہے، مسلم حساسیت کیلئے قابلِ قبول نہیں۔ صدرٹرمپ کوبالمشافہ پیغام دیا جاتاکہ مشرقِ وسطیٰ کے اضطراب کا بنیادی سبب ایک ناجائز مملکت کا قیام ہے جسے اسرائیل کانام دیاگیا ہے۔ ہم بادلِ نخواستہ اورتاریخ کا جبر سمجھ کراسے قبول کرلیتے ہیں مگر اس سے بات نہیں بنے گی۔ اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو ہمیشہ جوتی کی نوک پررکھا ہے۔ آج اس کا قبضہ ان سرحدوں سے متجاوز ہے جو اقدامِ متحدہ نے طے کی تھیں۔ صدرٹرمپ کا دورہ مسلمانوں کے جذبات اوراسرائیلی تجاوزات کے ذکر سے خالی رہا۔
پھر خان صاحب خود تجربہ کرچکے، جب وہ عالمِ اسلام کوایک نئے ایجنڈے پرجمع کرنے چلے تھے۔ بس ایک دفعہ ملائیشیا گئے‘ دوسری دفعہ معذرت کرنا پڑی۔ پاکستان ابھی تک روٹھے ہوئوں کومنا رہا ہے۔ اس کے بعد توہر طرح کی خوش فہمی دورہو جانی چاہیے تھی‘ مگروہ بضد ہیں کہ عالمِ اسلام کو توہینِ مذہب کے نام پر جمع کریں گے اور ساتھ 'جی ایس پی پلس‘ (GSP+) کا سٹیٹس بھی لیں گے۔
بھٹو صاحب کی مثال بھی خان صاحب کے سامنے ہونی چاہیے۔ انہوں نے کبھی عالمِ اسلام کومتحد کرنے کا بیڑا اٹھایا اورکبھی فخرِ ایشیا بنناچاہا۔ وہ اس خواہش کے ایسے اسیر ہوئے کہ ان کے پاؤں تلے سے زمین سرکتی گئی اورانہیں اندازہ نہ ہوسکا۔ عالمِ اسلام متحد ہوا‘ اور نہ ترقی پذیر دنیا۔ بھٹو صاحب کا اقتدارالبتہ ختم ہوگیا۔ ان کے وہی کارنامے باقی رہے جن کا تعلق اس سرزمین کے ساتھ تھا۔
آج ترقی پذیر ملکوں کا علم اور فن عالمگیر ہوسکتے ہیں، سیاست نہیں۔ قومی ریاستوں کے وجود میں آنے کے بعد، سیاست مقامی ہوگئی ہے۔ جن قوتوں نے نئے سیاسی بندوبست کی بنیاد رکھی، انہوں نے اپنے تسلط کیلئے ایک نیا نظام بنایا۔ ان کے پاس ویٹوکا حق ہے۔ وہ عالمی مالیاتی اداروں پراپنا تسلط قائم رکھے ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ علم کی تشکیل ان کے ہاتھ میں ہے۔ علم دورِحاضر میں فاتحِ عالم ہے اور سفارتکاری کا ایک بڑا ہتھیار بھی۔
عالمگیریت نے ان عالمی قوتوں کیلئے بھی ایک چیلنج کھڑا کردیا ہے جنہوں نے بیسویں صدی میں ایک نئے عالمی نظام کی بساط بچھائی تھی۔ یہ اگرچہ ان کے ہاتھ میں ایک ہتھیار ہے لیکن اس کے ساتھ ایک چیلنج بھی ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے جس سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ مسابقت کا یہ اصول کارفرما نہ ہوتا تودنیا شاید سلطنت سے قومی ریاست کے دور میں داخل نہ ہوتی۔ ایک صدی سے یہ نظام قائم ہے۔ دکھائی دے رہا ہے کہ یہ آنے والے دنوں میں پھرکروٹ لے گا‘ لیکن اِس وقت قومی ریاستوں ہی کا دور ہے اورترقی پذیر ممالک اس نظام سے آزاد نہیں ہو سکے جوبیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں وجود میں آیا۔
پاکستان جیسے ملکوں کیلئے، اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ سب سے پہلے اپنی تعمیر کریں۔ اپنے مسائل کو مقامی سطح پر حل کریں۔ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں۔ 'انٹرنیشنلزم‘ کی ان کے ہاں کوئی گنجائش نہیں۔ علامہ اقبال نے اُسی وقت اس حقیقت کا ادراک کرلیا تھا جب یہ نئی دنیا وجود میں آرہی تھی۔ ان کا پیغام اس وقت یہی تھاکہ مسلم ریاستیں ساری توجہ اپنی انفرادی تعمیرپر مرتکز رکھیں۔ دوسرے مرحلے میں وہ اقوامِ متحدہ کی طرز پرکوئی عالمی فورم قائم کرسکتی ہیں۔
قانونِ فطرت کے تحت ہر قوم کیلئے یہ گنجائش موجود ہے کہ وہ عالمگیر قوت بن سکے مگر اس سے پہلے اسے اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانا ہوگا۔ دورِ حاضر میں اس کی مثال چین ہے۔ چین نے پہلے مرحلے میں ساری قوت اپنی تعمیر پرصرف کی۔ اب وہ دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکا جب اس کا شمارعالمی قوتوں میں ہونے لگا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ عالمی قوت ہونا کوئی دعویٰ نہیں، ایک امرِواقعہ کا بیان ہے۔ یہ کرکے دکھانے کاکام ہے۔ جب ہوجاتا ہے تو دنیا خود مان لیتی ہے۔آفتاب آمد دلیلِ آفتاب ۔
آج کی مذہبی انتہا پسندی پاکستان کا مقامی مسئلہ ہے۔ اس سے نمٹنے کیلئے کہیں سے کوئی مدد نہیں مل سکتی۔ یہ دنیا کیلئے براہ راست کوئی خطرہ نہیں، اس لیے دنیا ہماری مدد نہیں کرے گی۔ القاعدہ جیسوں تنظیموں نے جس انتہاپسندی کو جنم دیاتھا وہ ہرریاستی نظام کیلئے خطرہ بن گئی۔ اس لیے اس کا ردِعمل بھی عالمگیر تھا۔ اس دفعہ صورتحال یہ نہیں ہے۔ یہ مسئلہ مسلمانوں کا اجتماعی مسئلہ نہیں بن سکا۔
پاکستان کی سیاسی قیادت کواس کا ادراک کرنا ہے کہ یہ معاملہ مسلم ممالک کے سفرا کی کسی مجلس میں حل ہونے والا نہیں ہے۔ عمران خان صاحب کو سمجھنا ہوگا کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم بنائے گئے ہیں‘ انہیں اسے مقامی تناظر میں سمجھنا اورحل کرنا ہے۔ اس کیلئے انہیں عالمِ اسلام سے نہیں اس ملک میں بسنے والوں سے مکالمہ کرنا ہوگا۔ میں قیاس کرسکتا ہوں کہ مسلم سفرا نے ان سے ملاقات کے بعد، اس بارے میں کیا تبصرے کیے ہوں گے۔
امتِ مسلمہ، سیاسی اعتبار سے ایک رومان ہے۔ اپنی حقیقت میں یہ ایک روحانی تصور ہے۔ خلافتِ راشدہ کے بعد مسلم تاریخ میں بھی اقتدار ایک خاندانی مسئلہ رہا۔ اسی لیے خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوئی‘ لہٰذا آج کے دورمیں یہ گمان کرناکہ کسی مذہبی مسئلے پر عالمی اتحاد وجود میں آسکتا ہے، حقائق کا منہ چڑانا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں آگ کا ایک الاؤ روشن ہے جس کا ایندھن مسلمان ہیں اور تیل بھی۔ اگرامت مسلمہ کوئی سیاسی تصور ہوتا توکیا یہ ممکن تھا؟
پاکستان کے مسائل پاکستان ہی میں حل ہوں گے۔ سیاسی قیادت کوعوام میں بھی اسی کا شعور پیداکرنا ہوگا۔ خان صاحب نے اسے عالمگیر مسئلہ بناکر اپنے عوام کو مطمئن کرنے کی جو کوشش کی ہے، وہ نتیجہ خیز نہیں ہوگی۔ کراچی کے ضمنی انتخابات کے نتائج بھی بتا رہے ہیں کہ یہ مقامی مسئلہ ہے۔ اس کا حل قومی مکالمے کے سوا کچھ اورنہیں۔ اس لیے مسلم ممالک کے سفیروں پر محنت کرنے کے بجائے، خان صاحب کو چاہیے کہ قومی سیاسی جماعتوں کواعتماد میں لیں اوران کی مدد سے کوئی حکمتِ عملی بنائیں۔