قدرت حقائق کو زمین پر بکھیر دیتی ہیں۔بہت کم ہیں جو غور کرتے اور درست نتائج تک پہنچتے ہیں۔
ڈسکہ‘نوشہرہ‘کراچی اور اب خوشاب۔یہ محض ضمنی انتخابات کے نتائج نہیں‘تاریخ کے اسباق ہیں۔یہ درس گاہیں ہیں جہاں کتابِ سیاست کے ابواب پڑھائے جا رہے ہیں۔اس کتاب میں صاف لکھا ہے کہ سیاست ہاتھ کی صفائی کا نام نہیں۔یہ زمین کے سینے میں پیوست صداقتوں کے اعتراف کا نام ہے۔نظر بندی سے کچھ دیر کے لیے تو آنکھوں کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے مگر مستقل نہیں۔جیسے ہی دھندچھٹتی ہے‘لوگ زمینی سچائیوں کو بچشم ِ سر دیکھنے لگتے ہیں۔ چھ سال ایڑی چوٹی کازور لگایا گیا کہ سیاسی حقائق کو مصنوعی طور پر تبدیل کر دیا جائے۔نون لیگ پر ہر دروازہ بند کر نے کی کوشش کی گئی۔ پیپلزپارٹی کومتروک باور کرایا گیا۔نوازشریف کا نام مٹانے کے لیے ایسی ہمہ جہت مہم اٹھائی گئی کہ ہماری تاریخ میں اس طرح کی کوئی مثال موجود نہیں۔جدید ابلاغی ہتھکنڈوں سے نئی لغت مرتب کی گئی جس میں کرپشن اور نون لیگ کومترادف الفاظ لکھا گیا۔اس کا نتیجہ کیا نکلا؟
ڈسکہ سے خوشاب تک پھیلے حقائق گواہی دے رہے ہیں کہ قومی سیاست آج بھی وہیں کھڑی ہے‘ جہاں 2013 ء میں تھی۔فیصلے‘ جیل کی دیوار‘کردار کشی کی مہم‘کوئی چیز کارآمد نہ ہو سکی۔تجزیے اسباب تو تلاش کر سکتے ہیں مگر زمینی حقیقت کو بدلنے پر قادر نہیں کہ سیاست جامد ہو چکی۔ اس نے 2013ء سے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا ہے۔
یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا۔1977ء میں بھی سیاست کو اسی طرح مصنوعی طریقے سے بدلنے کی کوشش کی گئی۔گیارہ سال ایک تجربہ گاہ میں نئے سیاسی حقائق ایجاد کیے گئے۔ سیاست مگر 1977 ء سے آگے بڑھنے پر آمادہ نہ ہوئی۔ ضیاالحق دنیا سے رخصت ہوئے تو پہلے ہی انتخابات کے نتیجے میں پیپلزپارٹی برسرِ اقتدار آگئی۔گویا سیاست وہیں کھڑی تھی جہاں1977 ء میں تھی۔ تاریخ نے یہ عمل 1999 ء میں ایک بار پھر دہرایا۔اس سال پرویزمشرف نے جنرل ضیاالحق کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے‘پھرسے اسی تجربہ گاہ کو آباد کیا۔نئے آلات نصب ہوئے۔جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ کیا گیا۔یہ سب اہتمام اس لیے تھا کہ سیاست کی کاسمیٹک سرجری کی جائے۔اس کے خدو خال تبدیل کر دیے جائیں۔اس کا انجام کیا ہوا؟
آٹھ سال بعد مشرف رخصت ہوئے تو ہماری سیاست کم وبیش وہیں کھڑی تھی جہاں 1999 ء میں تھی۔پنجاب میں نون لیگ حکمران تھی اورمرکز میں شریکِ اقتدارجنرل صاحب دھیرے دھیرے غیر متعلق ہو گئے۔ 2008ء ایک بار پھر‘پنجاب شہباز شریف کو وزیراعلیٰ کے منصب پر دیکھ رہا تھا اورمرکز میں اس جماعت کے وزیر حلف اٹھا رہے تھے۔ سیاست نے ایک بار پھر تبدیل ہونے سے انکار کر دیا۔
2021ء میں ہیٹ ٹریک ہو گئی۔خان صاحب 2018ء میں ایک بال پر دو دو وکٹیں اڑاناچاہتے تھے۔مزے کی بات یہ ہے کہ امپائر نے بھی ایک گیند پردو وکٹیں اڑانے کا فیصلہ سنا دیا۔اعلان کردیا گیا کہ زرداری اور نوازشریف کی سیاست ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی۔گویا 2014ء سے شروع ہونے والا معرکہ2018ء میں محب ِ وطن قوتوں کی فتح پر منتج ہوااور اعدائے وطن کو ہزیمت اٹھانا پڑی۔
2021ء میں ملک کے چاروں گوشوں سے آوازیں اٹھنے لگیں کہ اس بار بھی کچھ نہیں بدلا۔دونوں وکٹیں سلامت ہیں اور کھلاڑی رنز پہ رنز بنائے جا رہے ہیں۔البتہ آپ کے اوورز ختم ہو رہے ہیں۔اس میچ میں ایک بائولر پانچ سے زیادہ اوور کرنے کا مجاز نہیں۔سرِ دست عمران خان سے بڑا بائولرسلیکٹرز کے پاس نہیں ہے‘اس لیے ٹیم میں تبدیلی بھی نہیں کی جا سکتی۔
تین ناکام تجربوں سے ایک ہی بات ثابت ہوتی ہے:سیاست کی اپنی حرکیات ہیں۔انہیں مصنوعی طور پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔سیاسی تبدیلی کے لیے ان حقائق کو بدلنا ضروری ہے‘سیاست جن پر کھڑی ہو تی ہے۔ 2017ء میں جو سیاسی‘معاشی اور سماجی حقائق تھے‘لازم تھا کہ انہیں تبدیل کر دیا جاتا۔اگر آج شرح ترقی 5.8 فی صد سے زیادہ ہوتی‘مہنگائی کی شرح اوربے روزگاری کم ہوتی‘کرپشن پہلے سے کم دکھائی دیتی‘سماجی امن ہوتا‘پاکستان سیاسی استحکام پر راستے پر گامزن ہوتا توڈسکہ اور خوشاب کے انتخابی نتائج کچھ اور ہوتے۔
آج اگر پنجاب میں بہتر گورننس ہوتی تو لوگ شہباز شریف کی یادیں طاقِ نسیاں پر رکھ دیتے۔پنجاب اور کے پی سے سندھ تک پہنچنے والی خبریں خوشگوار ہوتیں تو سندھ کے عوام تحریکِ انصاف کو خوش آمدید کہہ رہے ہوتے۔ اگر انصاف کا بول بالا ہوتا تو احتساب کا عمل رائے عامہ پر اثر انداز ہوتا۔ اگر سیاسی حقائق اور حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی یا وہ عوام کی نظر میں پہلے سے زیادہ مخدوش ہوگئے ہیں تو پھر سیاست کیسے تبدیل ہو سکتی ہے؟ اسی لیے مجھ جیسے طالب علم برسوں سے یہ دُہائی دے رہے ہیں کہ سیاست کو اپنے فطری انداز میں آگے بڑھنے دیا جائے۔ مصنوعی طریقوں سے سیاست تبدیلی نہیں ہو تی۔ جبر کا معاملہ اور ہے۔ اس سے گیارہ سال تک اقتدار قائم رکھا جا سکتا ہے مگر سیاست کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ صرف پانچ سال سیاست قدرے فطری انداز میں آگے بڑھی تو اس سے سیاسی حقائق تبدیل ہونا شروع ہو گئے۔ 2008ء میں پیپلزپارٹی برسرِ اقتدار تھی ۔ پانچ سال بعد ملک کے تین صوبوں سے اس کا صفایا ہو چکا تھا۔
2018ء میں پیپلزپارٹی اور نون لیگ کو مصنوعی طریقے سے ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔اس کوشش نے دونوں کے زوال کوروک دیاجس طرح جنرل ضیاالحق اور مشرف کی مداخلتِ بے جا نے اپنے اپنے ادوار میں سیاسی عمل کو روک دیا تھا۔نوازشریف کی سیاسی عصبیت کے خاتمے کیلئے ضروری تھا کہ ان سے بڑی عصبیت پیدا کی جاتی۔ اگر فیصلے کسی سیاست دان کے خاتمے کی ضمانت بن سکتے تو آج ملک میں بھٹو کا نام لیوا کوئی نہ ہو تا۔
چوہتر سالوں میں ہم نے شاید ہی کوئی فیصلہ سیاسی حرکیات کو سامنے رکھ کر کیا ہوگا۔شخصی اور اداراتی مفادات کے زیرِ اثر فیصلے ہوئے۔ ہم نے تجربات کیے اور ہر بار سیاسی حقائق کو چڑانے کی کوشش کی۔اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔جس سیاسی حقیقت کو ہم نے سب سے زیادہ اور بار بار نظر انداز کیا‘وہ سیاست کا ایک فطری بہاؤ ہے۔جو بھی اس کے آگے بند باندھنے کی کوشش کرے گا‘ اس کے مقدر میں شکست ہے۔
سیاست اگر خواہشات کے تابع ہوتی تودنیا سے بادشاہت کبھی ختم نہ ہوتی۔برصغیر پر آج بھی بہادر شاہ ظفر کا کوئی پڑپوتا حکمران ہوتا۔یا پھر ہم تاجِ برطانیہ سے وفاداری کا عہد نبھا رہے ہوتے۔مغل قصۂ پارینہ بن گئے اور انگریزوں کو بھی رخصت ہونا پڑا۔حکومت ایک دن مغلوں کے ہاتھ سے نکل کر انگریزوں کے ہاتھ میں آگئی۔وقت نے ایک اور کروٹ لی اور یہ انگریزوں کے ہاتھ سے بھی نکل گئی۔ جب کاتبِ تقدیر نے قلم ہمارے ہاتھ میں تھمایا تو ہم نے چاہا کہ ہم قوانینِ فطرت سے بے نیاز ہو کر اپنی تاریخ لکھیں۔ہم نے تاریخ سے یہ نہیں سیکھا کہ ایسا کرنا کسی کے بس میں نہیں۔ہم نے یہ بات نہیں سمجھی کہ کامیاب تاریخ نگاروہی ہوتے ہیں جوپہلے وقت کی لوح پر لکھی عبارت پڑھتے ہیں اور پھر اس سے ہم آہنگ ہو کر اپنی تاریخ رقم کرتے ہیں۔آج بھی اس کے کوئی آثار نہیں کہ ڈسکہ‘ کراچی یا خوشاب کے انتخابات نے ہمیں یہ بات سمجھا دی ہے۔
یہ جانتے ہوئے بھی یہ خامہ فرسائی اس کے سوا کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ تاریخ کے صفحات پر اپنی گواہی ثبت کر دی جائے۔