فلسطین کی نس نس سے لہو پھوٹ رہا ہے۔ زمین کے چہرے پر ایسے زخم چشمِ فلک نے کم ہی دیکھے ہیں۔ وقت نے جیسے ایک جلاد بٹھا رکھاہے جواپنے تازیانے کو لہو رنگ رکھتاہے۔ جب رنگ پھیکا پڑنے لگے، یہ اسے فلسطین کی پیٹھ پربرسانے لگتا ہے۔ تاریخ کی مذہبی تعبیر کریں تویہ خداکے قانون کا ظہور ہے۔ مادی تعبیر کریں تویہ غیروں کی عیاری و مکاری اور اپنوں کی نادانی وبے حسی کے اشتراک سے جنم لینے والاالمیہ ہے۔
پہلے مذہبی تعبیر۔ عالم کے پروردگار نے انسانوں کی ہدایت کا جواہتمام فرمایا ہے، اس کے مطابق، خیروشر کا شعور عطا کرنے کے بعد، اللہ نے تذکیر کیلئے انسانوں کی طرف اپنے انبیا اور رسولوں کو مبعوث کیا۔ یہ انہی میں سے تھے اور انہیں خدا کی بندگی کی دعوت دیتے تھے۔ پہلے مرحلے میں ہرقوم کی طرف نبی بھیجا جاتا تھا۔ سیدنا ابراہیمؑ کے ساتھ تاریخِ انسانی کے دوسرے دور کا آغاز ہوا۔ حضرت ابراہیمؑ کو تمام انسانوں کیلئے امام بنانے کے بعد، نبوت و ہدایت کوان کی اولاد کیلئے خاص کردیا گیا۔
حضرت ابراہیمؑ کو اللہ نے دو بیٹے عطا فرمائے۔ سیدنا اسماعیلؑ کو آپ نے مکہ کی سرزمین پر آباد کیا جہاں انہوں نے خدا کا پہلا گھر تعمیرکیا۔ دوسرے بیٹے سیدنا اسحاقؑ کو کنعان یعنی فلسطین میں آباد کیا جہاں ان کی نسل، بنی اسرائیل میں امامت و نبوت کوجاری کیا گیا۔ یہاں خدا کا دوسرا گھر تعمیر ہوا۔ بنی اسرائیل نے جب خدا کے ساتھ اپنے عہدکو فراموش کردیا تو انہیں منصبِ امامت سے معزول کردیا گیا۔
بنی اسرائیل یعنی یہود کے جرائم ان گنت تھے جومنصبِ امامت سے ان کی معزولی کا باعث بنے۔ ایک سنگین جرم سیدنا مسیحؑ کو مصلوب کرنے کی کوشش تھی۔ معزولی کے ساتھ، ان پردوسری سزا یہ نافذ کی گئی کہ قیامت تک مسیحی ان پرغالب رہیں گے۔ (آلِ عمران3:55) اب یہودکی موت وحیات انہی کے ہاتھ میں ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے ذریتِ ابراہیم کے دوسری شاخ بنی اسماعیل کو امامت کے منصب پر فائزکردیا۔ سیدنا محمدﷺ کی بعثت اسی کا اعلان تھا۔ نبیﷺ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھاکہ آپ کو عرب کے ادیان پر غلبہ عطا ہوگا اور آپ کا انکار کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نافذ کر دیا جائے گا جس طرح آپ سے پہلے رسولوں کا انکار کرنے والی اقوام پر یہ عذاب نازل ہوتا رہا۔ (توبہ9:33)
عہدِ رسالت مآب میں دو نشانیوں سے یہ بات پوری طرح واضح کردی گئی تھی۔ ایک تحویلِ قبلہ اوردوسرا معراج کا واقعہ۔ مدینہ میں بیت المقدس کوقبلہ بنانا آزمائش کیلئے تھاکہ کون خدا کے حکموں کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتا ہے اور کون کسی عصبیت میں مبتلا رہتا ہے۔ اس کے بعد بیت اللہ کو قبلہ مقررکرنا یہود کیلئے بطورِ خاص پیغام بھی تھاکہ اب قیادت بنی اسماعیل کو منتقل ہوگئی ہے جن کے جدِ امجد حضرت اسماعیلؑ نے اپنے عظیم المرتبت باپ کے ساتھ مل کر خدا کے پہلے گھر کی تعمیر کی تھی اوراب تاقیامت یہی اہلِ ایمان کا مرکز ہوگا۔
واقعہ معراج سے یہ بتا دیا گیاکہ زمین پر موجود دونوں مقاماتِ مقدسہ کی تولیت اب بنی اسماعیل کو منتقل کی جارہی ہے۔ گویا یہود مذہبی حوالے سے خدا کے گھر پراب کوئی دعویٰ نہیں رکھتے۔ تاریخ کی اس مذہبی تعبیرکا ایک اوراہم پہلو بھی توجہ کا مستحق ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ کو جب منصبِ امامت پرفائز کیا گیا تو انہوں نے دعاکی کہ یہ اعزاز ان کی ذریت کو بھی عطا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایاکہ اس کا عہد ظالموں کیلئے نہیں ہے۔ گویا ذریتِ ابراہیم میں سے جولوگ خدا کے عہد سے پھرجائیں گے، وہ منصبِ امامت کے حق دار نہیں ہوں گے۔
اسی اصول پریہود سے یہ کہا گیاکہ اگر اب بھی وہ اُس عہد کوپورا کریں گے تو انہیں سرفرازی مل سکتی ہے۔ اس عہد کوپورا کرنے کا مطلب سیدنا مسیحؑ اور سیدنا محمدﷺ پر ایمان لانا ہے۔ بنی اسماعیل کیلئے بھی یہی حکم ہے کہ وہ اپنا عہد پورا کریں۔ جب انہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ بیت اللہ کو توحید کا مرکز بنائے رکھیں اوردنیا میں شہادتِ حق کی ذمہ داری ادا کرتے رہیں تو ساتھ ہی فرما دیا کہ ان کے ساتھ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ انہیں دنیا میں حکمرانی عطا کرے گا (سورہ نور24:55)۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ عہد پورا کردیا۔
طویل عرصہ بنی اسماعیل اس منصب پر فائز رہے۔ پھر انہوں نے بھی وہی روش اپنا لی جو بنی اسرائیل نے اپنائی تھی۔ انہوں نے اگرچہ بیت اللہ کوتوحید کا مرکز بنائے رکھا مگر شہادتِ حق کی ذمہ داری ادانہ کی۔ اس کے نتیجے میں مسکنت وذلت ان کا مقدربن گئی۔ آج بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل‘ دونوں ایک طرح کے انجام کا شکار ہیں۔ اسرائیل کے یہودی اس وقت عالمِ خوف میں زندہ ہیں اور ان کا وجود صرف مسیحیوں کی پشت پناہی سے قائم ہے۔ گویا قرآن مجید کی پیشگوئی کے مطابق وہ حضرت مسیحؑ کے ماننے والوں کے رحم و کرم پر ہیں۔
فلسطینیوں کے خلاف ان کی جارحیت خوف کا اظہار ہے۔ دوسری طرف عرب سب کچھ ہوتے ہوئے بھی بے بس ہیں۔ تاریخ کی مذہبی تعبیر کے مطابق، بنی اسماعیل یعنی عرب اگر آج خدا کے دین کی شہادت کیلئے تیار ہوں اور اللہ کے ساتھ اپنا عہد نبھائیں تو تکوینی طور پر دنیا میں ان کا اقتدار قائم ہوجائے گا۔ بصورتِ دیگر وہ اپنے دفاع کیلئے بھی دوسروں کی طرف دیکھتے رہیں گے۔ اسلحہ امریکہ کا‘ لڑنے والے ہاتھ کسی اور کے۔
اب آئیے تاریخ کی مادی تعبیرکی طرف۔ راستے دوہی ہیں۔ ایک یہ کہ اس وقت دنیا جس بین الاقوامی سیاسی بندوبست پر قائم ہے اسے مان لیا جائے جیسے ساری دنیا تسلیم کیے ہوئے ہے۔ دوسرا یہ کہ اتنی طاقت حاصل کرلی جائے کہ اس نظام ہی کوبدل ڈالا جائے۔ دوسرا امکان توکہیں موجود نہیں‘ اس لیے پہلا امکان ہی باقی ہے۔ عالمی بندوبست اسرائیل کو ایک خودمختار ملک کے طورپر قبول کرتا ہے۔ اس کی سرحدوں کا 1948ء میں تعین کردیا گیا۔ اس بندوبست کے تحت یروشلم ایک آزاد شہر ہے۔ آج ممکن صورت یہ ہے کہ سارا عالمِ اسلام اس بندوبست کی روشنی میں مسئلہ فلسطین کے حل کا مطالبہ کرے۔ اس بندوبست کے مطابق اسرائیل کاان علاقوں پرکوئی حق نہیں جن پر اس نے 1967ء اور 1973ء کی جنگوں اور اس کے بعد قبضہ کیا ہے۔ اسی طرح یروشلم پراس کا قبضہ بھی غیرقانونی ہے۔
آج دنیا سے یہ منوانا آسان نہیں تاہم یہ وہ اصولی مقدمہ ہے جس کی بنیادپر پُرامن سیاسی جدوجہد کی جاسکتی ہے۔ ممکن ہے اس کی قبولیت میں دیرہو لیکن اس کے علاوہ جو حل پیش کیے جا رہے ہیں وہ دراصل نہتے اور معصوم بچوں کو بھیڑیے کے کچھار میں پھینکنا ہے۔ نادان دوست اس وقت یہی کام کررہے ہیں۔ ان کی بے تدبیری، ہرتھوڑے عرصے کے بعد اسرائیل کویہ جواز فراہم کرتی ہے کہ وہ فلسطین کو ایک قربان گاہ میں تبدیل کردے جہاں فلسطینی بھینٹ چڑھائے جائیں اوران کا لہو رزقِ خاک بن جائے۔
افسوس، فلسطینی اغیار کی مکاری اوراپنوں کی نادانی کا کشتہ بن چکے۔ مزید ستم یہ کہ فلسطین کو آج شام اور عراق کی طرح، عرب و عجم کے مابین جاری تاریخی کشمکش کا نیا میدان بنایا جارہا ہے۔ فلسطینیوں کے حصے میں صرف لاشیں ہیں۔