لاہور کے ایک مدرسے میں پیش آنے والا افسوسناک واقعہ‘ کیا ہماری تہذیب پر مغرب اور امریکہ کاحملہ ہے؟ کچھ لوگوں کا خیال تو یہی معلوم ہوتا ہے۔
17 جون کو وفاق المدارس کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا۔ اس بورڈ کے ساتھ وابستہ ملک بھر سے تیرہ سو علما جمع ہوئے۔ ان میں شیخ التفسیر تھے اور شیخ الحدیث بھی‘ مفتی بھی اور مناظر بھی۔ خیال یہی تھاکہ اس واقعے پر بورڈ کا متفقہ موقف سامنے آئے گا اور وفاق کم ازکم ایک قرارداد کی صورت میں اپنی اس تشویش کا اظہار ضرور کرے گا تاکہ معاشرے کو یہ پیغام ملے کہ ادارہ اسے ایک حساس واقعہ سمجھتا ہے۔ یہ توقع پوری نہیں ہو سکی۔
لوگ جب اپنے بچے مدارس کے سپرد کرتے ہیں تو یہ ان کے پاس امانت ہوتے ہیں۔ مدرسہ عام سکول یا کالج نہیں ہے۔ یہ ایک طرح سے ایک طالب علم کی پوری زندگی اور معاملات کا محافظ ہے‘ ایک کیڈٹ کالج کی طرح۔ وہ بچے کی تعلیم ‘رہائش اور کھانے ہی کے لیے مسئول نہیں‘ اس کے اخلاق‘ کردار اور عزت و ناموس کی حفاظت کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے۔ معاشرہ اگر وسائل کے ساتھ اپنے بچے بھی ان کے حوالے کرتا ہے تو اس بھروسے پرکہ ان وسائل کا صحیح استعمال کیا جا ئے گا اور اس کے ساتھ بچے کی معصومیت اور عزتِ نفس کا بھی لحاظ رکھا جائے گا۔
مدرسے اور معاشرے کے درمیان اعتماد کا یہ رشتہ کسی صورت مجروح نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ایک مدرسے کے مہتمم کی ذمہ داری ہے کہ اگر کہیں کوئی افسوسناک واقعہ ہو تو اس کی نیند حرام ہوجائے‘ اس کا سکون برباد ہو جائے۔ وہ اس وقت تک چین کی نیند نہ سوئے جب تک اس بات کو یقینی نہ بنالے کہ اس طرح کا واقعہ دہرایا نہیں جائے گا۔
یہ اسی وقت ہوگا جب مہتمم کو یہ معلوم ہوکہ وہ اس دنیا میں کسی کے سامنے جواب دہ ہے۔ ایک مسلمان کے لیے اگرچہ یہ احساس کافی ہونا چاہیے کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے اور وہ اس کے حضور میں مسئول ہے لیکن انسان کمزور ہے اور ہمیشہ حضوری کے اس احساس میں نہیں رہتا۔ اس لیے قانون اور ایک حاکم قوت کی ضرورت رہتی ہے جو اس کی کمزوری پر نظر رکھے۔ مدرسے کے معاملے میں یہ کام وفاق المدارس کا ہے۔ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وفاق نے اس معاملے میں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔
وفاق یا علما یہ دلیل نہیں دے سکتے کہ باقی مقامات پر بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ پہلی بات کہ اگر اسے درست مان لیا جائے تو بھی یہ ایسے حادثوں کے لیے جواز نہیں بن سکتا۔ ہر آدمی اور ہر ادارہ اپنے افعال کا ذمہ دار ہے۔ وہ یہ دلیل نہیں پیش کر سکتاکہ جب دوسرے یہ کام کررہے ہیں تو وہ کیوں نہ کرے؟ دوسرا یہ کہ جو دین کے نام پر معاشرے میں کھڑا ہے... وہ کوئی عالم ہو یا سیاستدان‘ کالم نگار ہو یا استاد... اس کی اخلاقی ذمہ داری دوسروں سے سوا ہے۔ مذہب تو نام ہی اخلاقی وجود کی تطہیر کا ہے۔ جو مذہب کا علمبردار ہے‘ اس کے لیے بدرجہ اتم لازم ہے کہ وہ اپنے اخلاقی وجود کے بارے میں سنجیدہ ہو اور اسے ہر لمحہ اپنی فکر لگی رہے۔ وہ دوسروں سے زیادہ اپنا محتسب ہو۔
ممکن ہے یہ کہا جائے کہ بند کمرے کے کسی اجلاس میں اس پر تشویش کا اظہار ہوا۔ ممکن ہے ایسا ہواہو لیکن جب ایک معاملہ عوام میں زیرِ بحث آجائے اور اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر ہو جائے تو پھر بند کمرے کا کوئی اجلاس اس کا مداوا نہیں کر سکتا۔ پھر لازم ہو جاتا ہے کہ آپ کا کوئی موقف ہو اور وہ عوام کے سامنے آئے۔ گناہ کی خبر چند افراد تک محدود ہوتو اس کی تشہیر مناسب نہیں لیکن جب سماج میں پھیل جائے تو اس سے صرفِ نظر اس گناہ کو سماجی قدر کے طور پر قبول کرنا ہے۔ لازم تھا کہ جب خبر پھیل گئی تھی تو وفاق کی مجلسِ عاملہ کا اجلاس بلا کر اس پر اپنا موقف دیا جاتا۔ کسی اہتمام کے بغیر ایک سنہری موقع وفاق کے ہاتھ آگیا تھاکہ عہدے داروں کے انتخابات کے لیے‘ اس کے ذمہ داران پہلے سے طے شدہ اجلاس میں جمع تھے۔ اس سے فائدہ اٹھا کر عوام کو اعتماد میں لیا جاسکتا تھا۔ افسوس کہ یہ توقع پوری نہیں ہوئی۔ مولانا فضل الرحمن اپنے خطاب میں ایران توران کی خبرلائے۔ مغرب اور امریکہ کی تہہ زمین سازشوں کا انکشاف کیا۔ اگر ذکر نہیںکیا تو لاہور کے اس واقعے کا۔ یہ باور کرنا ممکن نہیں کہ ان جیسا باخبر آدمی ایک ایسے واقعے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا جو اس وقت ہر اس آدمی کے علم میں ہے جو سوشل میڈیا سے کوئی مس رکھتا ہے۔ اس واقعے سے ان کی یہ بے اعتنائی بتاتی ہے کہ وہ اسے کتنا اہم سمجھتے ہیں اور خود احتسابی کے معاملے میں کتنے حساس ہیں۔
برادرم مولانا محمد حنیف جالندھری پندرہ سال سے وفاق کے ناظم اعلیٰ چلے آرہے ہیں۔ اب مزید پانچ سال کے لیے انہیں ایک بارپھر اس ذمہ داری کا اہل سمجھا گیاہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں عمرِ خضر دے اور ہم انہیں ہمیشہ اس منصب پر متمکن دیکھیں‘ انہوں نے بھی اس کی ضرورت نہیں محسوس کی حالانکہ وہ سب سے زیادہ اور براہ راست اس واقعے کے بارے میں مسئول ہیں۔ ان کو چاہیے تھا کہ وہ اس پر اپنی تشویش کا نہ صرف اعلانیہ اظہار کرتے بلکہ یہ بھی بتاتے کہ مدارس میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے وفاق نے کیا حکمتِ عملی اختیار کی ہے۔
میں اس حادثے کو عموم کا رنگ دینے کے حق میں نہیں۔ میں اسے ایک منفرد واقعہ کے طور پردیکھ رہاہوں۔ میں مدرسے سے وابستہ ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اجلے کردار کی شہرت رکھتے ہیں۔ بعض سے میں شخصی طور پر واقف ہوں۔ مولانا عبدالرؤف ملک کو کم و بیش تیس سال سے جانتا ہو۔ میں نے انہیں وسیع القلب اورایک صاف ستھرا انسان پایا ہے۔ کئی سال ہو گئے‘ مولانا زاہدالراشدی سے ایک تعلق قائم ہوئے۔ ان سے مل کرہمیشہ ایک پاکیزہ آدمی کا تاثر ملا۔ ذاتی تعلق رکھنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے جن کا تعلق مدرسے سے ہے‘ اس لیے میں اس واقعے کو عمومی رنگ دینے کے حق میں نہیں۔
تاہم اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ اس بار سوشل میڈیا نے اس پر مٹی ڈالنے کو ممکن نہیں رہنے دیا۔ اس کے بعد لازم ہو گیا ہے کہ وفاق المدارس اسے بنیاد بنا کر مدرسوں کی اخلاقی تطہیر کا ایک منظم منصوبہ بنائے۔ پہلے تجزیہ اور پھر روک تھام کے لیے حکمتِ عملی۔ اس میں مدرسے سے باہر کے لوگوں کوبھی شامل کرے جن میں ماہرینِ نفسیات ہوں اور سکالر بھی۔ وہ اس بات کو کھوج لگائیں کہ درس گاہوں میں ایسے واقعات کیوں ہوتے ہیں؟ ان کا کتنا تعلق ہماری تفہیمِ دین اور سماجی روایت سے ہے؟ وہ کون سے نفسیاتی عوامل ہیں جن کے زیرِ اثر عمر رسیدہ لوگ بھی خود پر قابو نہیں رکھ پاتے۔ جدید علمِ نفسیات میں اس پر بہت تحقیق ہو چکی۔
یہ واقعات صرف وفاق المدارس کا مسئلہ نہیں‘ مدارس کے تمام بورڈز کو اس معاملے میں حساسیت کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاہم چونکہ یہ وفاق کے حوالے سے موضوع بناہے‘ اس لیے اصلاحِ احوال کے لیے بھی وفاق ہی کو پہل کرنی چاہیے۔ مولانا صاحب کے خطاب سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ بھی جیسے امریکہ اور مغرب کی کوئی سازش ہے کیونکہ اس وقت جس نے مدرسے کی ناموس کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے‘ وہ یہی واقعہ ہے۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ سازش کا یہ بیانیہ اب زیادہ بکنے والا نہیں۔ معاشرہ ان باتوں سے آگے بڑھ چکا ہے۔