انتخابات میں کیا رکھا ہے؟ بلکہ سچ پوچھیے تو اب سیاست میں کیا رکھا ہے؟
ایک پسماندہ ملک میں، جہاں کروڑوں انسان خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرتے ہوں، وہاں اربوں روپے ایک لاحاصل مشق پر خرچ کرنے کا کیا جواز ہے؟ عوام کی رائے جاننے کے جب متبادل اور سستے ذرائع میسر ہوں جیسے سروے، تو انتخابات کی کیا ضرورت ہے؟ وقت آ گیا ہے کہ عوام الیکشن جیسے چونچلوں سے نکلیں اور قومی مفاد کے لیے یک سو ہو جائیں؟
یہ یکسوئی کیسے ملے گی؟ ویسے ہی جیسے سیاسی جماعتوں کو ملتی ہے۔ یہ نروان تھوڑا ہی ہے کہ برسوں کی ریاضت کا تقاضا کرے۔ یہ یکسوئی برسوں مسلم لیگ کو حاصل رہی ہے۔ شہباز شریف اب بھی اسے تلاش کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ کہاں سے ملتی ہے۔ یہ ق لیگ کو میسر رہی ہے۔ آج تحریک انصاف کو حاصل ہے اور بہت حد تک پیپلز پارٹی کو بھی۔ عوام کو ووٹ کے لیے قطار میں کھڑا ہونے اور جذباتی ہو کر جان گنوانے کی کیا ضرورت؟ وہ بھی یکسو ہو جائیں اور معاملات اُن پر چھوڑیں جن پر کامیاب سیاسی جماعتوں نے چھوڑ رکھا ہے۔ انہوں نے اپنا کردار طے کر لیا ہے: اقتدار میں شراکت کیلئے دریوزہ گری۔ عوام کو بھی اب اپنا کردار طے کر لینا چاہیے۔
برائے نام سہی، سیاست کی ایک اہم ضرورت سیاسی جماعتیں بھی ہیں۔ جب سیاست نہ رہی تو ان کی کیا حاجت؟ جنرل ضیاالحق مرحوم اس بات کو اپنی مومنانہ بصیرت سے بہت پہلے جان گئے تھے۔ انتخابات اور سیاسی جماعتیں، انہوں نے دونوں سے جان چھڑانا چاہی۔ پہلے مجلس شوریٰ بناکر اسلامی جمہوریت کا بنیادی تقاضا پورا کر دیا مگر لوگوں کو اطمینان نہیں ہوا۔ چاروناچار انہیں انتخابات کرانا پڑے۔ انتخابات تو انہوں نے کرا دیے مگر غیر جماعتی۔ میرے ممدوح مولانا وصی مظہر ندوی نے ان دنوں ایک کتاب لکھی اور دلائل دیے کہ اسلام میں سیاسی جماعتوں کا کوئی تصور نہیں۔ اب خود سیاسی جماعتوں نے زبانِ حال سے بتا دیا کہ سیاسی جماعتوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگرچند اقتدار پسند جمع ہو جائیں توان کے اجتماع کو آپ سیاسی جماعت قرار دے کر اپنے دل کو تسلی دے سکتے ہیں۔
اگر سیاسی جماعتیں نہ ہوں تو اختلاف کا کیا کریں جو فطری ہے؟ اس کا حل چین نے کامیابی کے ساتھ پیش کردیا ہے۔ خوش آئند ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تحریکِ انصاف کے رہنما عمران خان صاحب بھی اسی کومثالی سمجھتے ہیں۔ کیا حرج ہے اگر پاکستان میں بھی اسی ماڈل کو اپنا لیا جائے اور ایک قومی جماعت بنا دی جائے۔ بنا کیا دی جائے، بنی بنائی موجود ہے۔ جو بھی سیاست کرنا چاہتا ہے، وہ اس جماعت کاحصہ بن جائے جیسے چین میں لوگ کمیونسٹ پارٹی کا حصہ ہیں۔ پارٹی کے اندر اختلاف بھی ہوتا ہے اور سب کو اپنی رائے کے اظہار کی مکمل آزادی ہے۔ ماؤ وغیرہ کے دور میں جو پابندیاں تھیں، وہ اب نہیں ہیں۔ اب لوگ اختلاف کی وجہ سے غائب نہیں کیے جاتے۔ لوگ بھی زیادہ سمجھ دار ہو چکے۔ وہ جانتے ہیں کہ کہاں اختلاف کرنا ہے اور کتنا کرنا ہے؟
اگر پاکستان میں بھی یک جماعت نظام پر اتفاق ہو جائے تو کیا ہی اچھا ہو؟ فرض کیجیے کہ پاکستان میں ایک جماعت ہو، جس میں زرداری صاحب ہوں اور نواز شریف بھی‘ عمران خان ہوں اور مولانا فضل الرحمن بھی۔ سب اپنی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کریں۔ جسے پارٹی لیڈر مان لے، وہی پارٹی کا مالک اور اقتدار کا بھی۔ جو کرپشن کا مرتکب ہو، اسے لٹکا دیا جائے۔ اختلاف کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور ساتھ کرپشن کا بھی مکمل خاتمہ؟ کیا مسائل کا اس سے بہتر حل ممکن ہے؟
جمہوریت کی دنیا میں ایک ہی صورت تو نہیں ہے۔ ہم مغرب ہی کی نقالی کیوں کریں؟ آخر ویسٹ منسٹر جمہوریت (Westminister Democracy) ہی کیوں؟ چین میں بھی توجمہوریت ہے۔ اس سے پہلے سوویت یونین میں بھی تھی۔ سعودی عرب اور ایران میں بھی جمہوریت ہے۔ آخر وہاں بھی کروڑوں لوگ بستے ہیں۔ ترقی بھی کررہے ہیں۔ چین تو ترقی کی مثال بن چکا۔ اس لیے ہمیں دیر نہیں کرنی چاہیے اور فوراً اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
عملاً ہم اصلاح کر چکے۔ سیاست اور اقتدار کا مرکز اب ایک ہے۔ چوروں اور لٹیروں کا ناطقہ بند ہو چکا۔ اب تو وہ برطانیہ کے ریستورانوں میں بھی محفوظ نہیں رہے، پاکستان میں کیسے رہیں گے؟ اتنا مکمل بندوبست بتا رہا ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے عرصۂ حیات تنگ ہو چکا۔ سوال یہ ہے کہ جو آزادی کے ساتھ، ایک غیر ملک میں بھی، ریستوران میں نہیں بیٹھ سکتے، کیا وہ آزادی سے ایوانِ اقتدار میں جا سکیں گے؟ کون جانے دے گا؟
عوام اس تبدیلی کے ساتھ ہم آہنگ ہو رہے ہیں۔ وہ انتخابی نتائج پر جب کوئی ردِعمل نہیں دیتے تو اس خاموشی کو نیم رضا سمجھنا چاہیے۔ مکمل ہم آہنگی کیلئے ضروری ہے کہ انتخابات جیسے چونچلوں سے بھی عوام کو نجات دلادی جائے۔ مجھے یقین ہے، وہ اس پر سکھ کا سانس لیں گے اور ہنسی خوشی کاروبارِ حیات میں جُت جائیں گے۔ بالکل ایسے ہی جیسے چین میں ہے۔ عوام صبح شام مصروف اور سیاست کے بکھیڑوں سے بے نیاز۔ نہ کسی نواز شریف کا غم نہ کسی عمران خان کا رومان۔
عوام سیاست یا ووٹ کیلئے قطار میں کھڑا ہونے کے بجائے کئی تعمیری کام کر سکتے ہیں۔ روٹی روزی سے فرصت ملے تو، مثال کے طور پر، درخت لگا سکتے ہیں۔ آج درخت لگائیں گے تو کل اُنکے بچے انکا پھل کھائیں گے۔ کیسا نیک کام ہے یہ! مزید وقت مل جائے تو اینٹیں بنا سکتے ہیں۔ شغل کا شغل، تعمیر کی تعمیر! اسکے بعد بھی اگر کسی کے پاس وقت بچ جائے تو تحقیقات کرانی چاہیے کہ اسکے پاس اتنا وقت آیا کہاں سے؟
عوام دوست حلقوں نے عوام کو کب سے ان کی سیاسی ذمہ داریوں سے آزاد کر رکھا ہے‘ مگر انہیں یقین نہیں ہورہا۔ پھر قطار میں جاکھڑے ہوتے ہیں کہ ہم نے ووٹ دینا ہے۔ کچھ زیادہ جذباتی ہوکر جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ دو انسانی جانیں آزاد کشمیر کے انتخابات کی نذر ہوگئیں۔ اس ملک کے عوام مجھے افتخار عارف صاحب سے متاثر لگتے ہیں۔ ساری عمر وہ قرض اتارتے رہتے ہیں جو ان پر واجب بھی نہیں ہوتے۔
لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ عوام کو دوٹوک بات سمجھائی جائے۔ بے حجابی کے اس موسم میں باقی حجاب بھی اٹھا دینے چاہئیں۔ ایک نکاتی پروگرام: 'اقتداروسیاست کی ہم مرکزیت‘۔ آج بظاہر تین یا چار جماعتیں ہیں لیکن اصلاً وہ ایک ہی جماعت کے گروپس ہیں۔ ان میں اقتدار و سیاست کی مرکزیت کے باب میں مکمل یکسوئی ہے۔ جو یکسو نہیں، اس کا کوئی سیاسی کردار نہیں۔ میرا کہنا یہ ہے کہ یہ یکسوئی اب عوام کو بھی میسر آ جانی چاہیے۔ عوام کو چاہیے کہ سیاست کی مشقت سے آزاد ہو کراس ایک نکاتی ایجنڈے کیلئے یکسو ہو جائیں اور ذاتی زندگی کا مزا لیں۔ ٹی وی، خاص طور پرکھیلوں کے چینل دیکھیں۔ پانچ دن کام، دو دن آرام۔ امریکہ جیسے جمہوری ملک میں بھی عوام یہی کرتے ہیں۔ کیا ہم ان سے زیادہ جمہوری ہیں؟ ہماری ریاست عوام کی یہ مدد کر سکتی ہے کہ وہ انہیں انتخابات کی مشقت سے نجات دلا دے۔ مجھے یقین ہے کہ اس پر کوئی احتجاج نہیں ہو گا۔ اگر پہلے نہیں ہوا تو اب کیوں ہو گا؟ باقی حجاب اٹھ چکے تو اس آخری کو بھی اٹھا دینا چاہیے۔
اگر سیاست عام آدمی کے لیے ایسی ہی بے معنی ہے تو سیاست پر کالم کیوں؟ یہ سوال میں اپنے آپ سے کررہا ہوں کہ میں بھی ایک عام آدمی ہوں۔ سچ پوچھیے تو یہ سوال بہت دن سے میرا پیچھا کررہا ہے۔ خیال ہوتا ہے کہ اب جواب کا وقت آگیا۔ آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج نے جواب کو آسان بنا دیا ہے۔ کیا معلوم اگلا کالم شجر کاری کے فضائل پر ہو؟