ایسی بولتی تصویر بہت کم دیکھی ہے۔
ایک بے بس و لا چارعورت ‘خدا کی زمین پراپنے وجود سے انجان بیٹھی ہے۔اس کے جسم کا ایک ٹکڑا‘ ڈیڑھ سالہ لاشے کی صورت‘اس کے سامنے پڑاہے۔اس کی نظریں اس بے جان مسجودِ ملائک پر جمی ہیں۔وہ اپنی گردن سے بہتے اس لہو سے بھی بے خبر ہے ‘جو کچھ دیر پہلے اس بچے کے رگ و پے میں بھی دوڑ رہا تھا۔اس کے خاموش ہونٹوں کاشور‘شش جہات میں سناٹابن کر گونج رہا ہے۔ یہ نسیم ہے۔وہی نسیم جس کا جسدِ خاکی اس کے بیٹے اور خوابوں کے ساتھ‘ اب زمین کے حوالے ہوچکا۔
نسیم بہن بھائیوں کی معیت میں وہاڑی سے چلی اورراولپنڈی جا پہنچی۔اس کی ہجرت کاسبب وہی بھوک تھی جس کو مٹانے کے لیے انسان بے گھر ہوتے اور در در کی خاک چھانتے ہیں۔وہی بھوک‘انسان جس سے بھاگتا ہے مگر وہ اس کے تعاقب میں رہتی ہے۔نسیم کا مسئلہ مگر صرف بھوک نہیں تھا‘کچھ خواب بھی تھے۔بھوک نے اسے بھکارن بنادیا مگر اس کے خواب بلندرہے۔کام و دہن کے مطالبات سب سے تکلیف دہ ہیں۔وہ اس تکلیف سے نکلتی اوراس کی بھوک کچھ لمحوں کے لیے سو جاتی تواس کے خواب جاگ اٹھتے۔ایک آزمائش سے دوسری آزمائش۔ نسیم کی زندگی ایسی ہی تھی۔
کم سنی میں شادی ہو گئی۔ بھوک کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ بیٹیاں بہت جلد باپ کے کندھوں کا بوجھ بن جاتی ہیں۔ گھر کا آنگن ان کے لیے تنگ پڑنے لگتا ہے۔ ان کا ننھا سا وجود والدین کو پہاڑ دکھائی دیتا ہے۔ بچیاں جس عمر میں اپنی گڑیا کی شادی رچاتی ہیں‘ خود انہیں ڈولی میں بٹھا دیا جاتا ہے۔ ڈولی کی بات تو محاورتاً کہہ دی ورنہ نسیم جیسیوں کے نصیب میں ڈولی کہاں؟ ایک قید سے نکلیں اور دوسرے قید خانے میں ڈال دی گئیں۔ نہ کوئی خواب اور نہ کوئی تعبیر۔ ساحر نے سچ کہا تھا: بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی۔ عورت کاوجود‘ اس کی شخصیت‘ اس کے خدوخال‘ اس کے خواب... یہ سب تہذیب اور ادب کی بحثیں ہیں۔ فلم اور ڈرامے کا موضوع۔ افسانے اور نظم کا عنوان۔ بھوک عورت کو عورت کہاں رہنے دیتی ہے۔ وہ تہذیب اور آرٹ کا موضوع اسی وقت بنتی ہے جب مرجاتی ہے۔ ساری عمر اپنے لاشے کو اٹھائے دربدر پھرتی رہتی ہے‘ نسیم کی طرح۔ ادب اور آرٹ کا پیٹ بھر جاتا ہے‘ اس کا وجود خاک ہو جاتا ہے۔
بھوک نے نسیم کو راولپنڈی کے نواحی قصبے چک بیلی خان کے بازار میں لا کھڑا کیا۔ میرے گاؤں چک امرال سے چند میل دور۔ شاید یہی مکانی قربت ہے جس نے نسیم کو میرے قریب لا کھڑا کیا ہے۔ ندامت کا ایک احساس دامن گیر ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے‘ کوئی میرے دروازے پر کھڑے کھڑے مار ڈالا گیا اور مجھے پتا ہی نہ چلا۔
مرے باہر فصیلیں تھیں غبارِ خاک و باراں کی
ملی مجھ کو ترے غم کی خبر‘ آہستہ آہستہ
نسیم بھیک مانگتی تھی مگر ساتھ خواب بھی دیکھتی تھی۔ قدرت نے ایک بیٹا دیا مگر روٹی کی طرح‘ برسوں کے انتظار کے بعد۔ بیٹا پیدا ہوا تو اس کے خوابوں کو پر لگ گئے۔ نام رکھا‘ یوسف۔ کہیں سے سن رکھا تھا کہ یوسف حسن و جمال کا استعارہ ہے۔ کہتی تھی‘ میرا بیٹا دنیا میں سب سے خوبصورت ہے۔ کبھی کبھی اسے محسوس ہوتا‘ یوسف جیسا نام اس کے حسن کے بیان کیلئے کافی نہیں۔ کسی نے اسے بتایا کہ تاریخ میں کوئی شہزادہ گلفام بھی ہو گزرا ہے‘ جس کے حسن کا چرچا تھا۔ وہ کم علم کیا جانے کہ کوئی جتنا بھی حسین ہو‘ یوسف جیسا تو نہیں ہو سکتا۔ ممتا نے جب اسے چین نہ لینے دیا تو نسیم نے اپنے بیٹے کو نیا نام دیا: یوسف گلفام۔
وہ چک بیلی خان کے بازار میں ہاتھ پھیلائے کھڑی ہوتی ۔اس کی آنکھوں میں خواب تیرتے رہتے۔وہ نہیں جانتی تھی کہ کس نے اس کے کشکول میں کیا ڈالا ہے۔وہ اپنے پہلو سے لپٹے یوسف...یوسف گلفام کو دیکھتی رہتی جو قدرت نے اس کی گود میں ڈال دیا تھا۔ایک کھوٹے سکے کی طرح‘جسے وہ کھرابنانا چاہتی تھی۔کوئی لقمہ ٔ تر نصیب ہوتا تو پہلے یوسف کو کھلاتی۔وہ آنے والے دنوں میں اسے ایک بابو کے روپ میں دیکھ رہی تھی۔کیا معلوم کتنے گزرنے والوں کے چہروں اور لباس میں‘اسے اپنے بیٹے کا مستقبل نظر آتا تھا۔صاف ستھرا لباس اورجوتے پہنے‘ کلائی پر گھڑی باندھے‘اپنے دفتر کی جانب رواں دواں۔ کہتی تھی : میرا بیٹا بھی سکول جائے گا۔یہ بھی پڑھے گا۔یہ بھیک نہیں مانگے گا۔اس کی بہن شاید اس سے زیادہ زمانہ شناس تھی۔وہ اسے سمجھاتی کہ یہ خواب ہم جیسوں کی آنکھوں کے لیے نہیں بنے۔سپنے بھی کبھی اجنبی بستیوں میں جا نکلتے ہیں۔کبھی ان آنکھوں میں جابسیرا کرتے ہیں جو ان کی فطری قیام گاہ نہیں ہوتیں۔نسیم کی بہن اُس کو بتاتی کہ یہ کوئی اجنبی خواب ہے جو غلطی سے اس طرف آ نکلا ہے۔اس کو جھٹک ڈالو۔یہ تمہارا نہیں‘کسی اورکا ہے۔ اس نے اپنی بہن کی بات نہیں مانی۔اس مہمان کو گھر کا مکین بنا لیا۔اس کی سیوا کرنے لگی۔
24 جولائی کو نسیم ہاتھ میں کشکول‘گود میں یوسف اور آنکھوں میں خواب لیے‘چک بیلی خان کے بازار میں کھڑی تھی۔ قریب ہی کہیں‘ اس کی بہن اور بھائی بھی تماشائے اہلِ کرم دیکھ رہے تھے۔ اس کا جاننے والا ایک موٹر سائیکل سوار اس کے قریب رکا اور اسے گھر پہنچانے کی پیشکش کی۔ایسے لوگوں کاگھرکہاں‘یوں سمجھیے کی جہاں وہ رہتی تھی۔نسیم نے بات مان لی اور اس کے ساتھ چل پڑی۔تھوڑی دیر کے بعد لوگوں کو اس کی حالت کی خبر ہوئی۔وہی حالت جو تصویر میں مجسم ہو گئی تھی۔یوسف یہ خبر ملنے تک‘ سو د وزیاں سے بے نیاز ہو چکا تھا۔تین دن بعد ماں بھی بیٹے سے جا ملی۔اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ آنکھیں مر جانے سے کیا خواب بھی مر جاتے ہیں؟میں نہیں جانتا۔میدانِ حشر میں نسیم سے ملاقات ہوئی تو پوچھوں گا۔
نسیم کی کہانی ختم ہوئی۔ مقامی اخبارات میں شائع ہوئی۔ ایک بین الاقوامی خبررساں ادارے نے اسے اپنی ویب سائٹ پر مشتہر کیا۔نسیم کی کہانی اس کی زندگی کی طرح مختصر رہی۔چند دن بعد یہ ایک قصہ پارینہ ہوگی۔ نسیم کا بیٹا‘ اس کے خواب‘اس کی آبرو اور اس کی جان‘سب کچھ لٹ گئے۔ کیا اسے انصاف ملے گا؟اس کا باپ کوئی سفارت کار‘ کوئی افسر نہیں تھا۔کیا نور مقیم کی طرح ‘اس کے حق میں بھی جلوس نکلیں گے؟ کیا اسے بھی عورت شمار کیا جائے گا؟ یہاں انصاف اسے ملتا ہے جس کا کوئی مدعی ہو۔ نسیم کے خون کا مدعی کون ہے؟خاندان؟کون سا خاندان؟جو بھیک مانگ کر پیٹ بھرتے ہوں‘ وہ وکیل کی فیس کہاں سے بھریں گے؟ ریاست؟ پاکستان کوابھی 'ریاست مدینہ‘ بننا ہے‘اسے کسی عمر‘ ثالث کا انتظار ہے ۔ہمارا نظامِ انصاف؟وہ توبن مانگے انصاف نہیں دیتا۔تو پھرآج کوئی ہے جو نسیم کے لیے انصاف طلب کرے‘اس کا مقدمہ لڑے؟کوئی وکیل؟ کوئی این جی او؟ حقوقِ نسواں کا کوئی علم بردار؟
ان سوالوں کے جواب میرے پاس نہیں ہیں۔ شاید کسی کے پاس نہیں۔ ایک بات لیکن میں جانتا ہوں‘ زمین پر جس کا مدعی کوئی نہیں ہوتا‘ اسکا دعویٰ آسمان پر درج ہو جاتاہے۔ ملزموں کی فہرست میں چند نام یقینی ہیں‘ جیسے حکمران جو اس ظلم سے بے نیاز رہے‘جیسے شہری جو اپنے مفاد کے قید خانوں میں بند رہے اور جنہوں نے مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونے سے انکار کیا۔ جن کیساتھ زمین والے انصاف نہیں کرتے‘ آسمان والا ان سے انصاف کرتا ہے۔ وہ کب کرتا ہے‘ اس دنیا میں یا اُس دنیا میں‘ یہ فیصلہ اسی کا ہے۔
اے زمین والو! اٹھو اور انصاف کے داعی بنو‘ اس سے پہلے کہ عرصۂ آزمائش تمام ہو اور آسمان والا خود انصاف کرے۔ نسیم کیلئے انصاف! یوسف گلفام کیلئے انصاف! خلقِ خدا کیلئے انصاف!