اسلامی یونیورسٹی‘ اسلام آباد سے اچھی خبریں نہیں آ رہیں۔ ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب کی برطرفی نے تو حیران کر دیا۔ یونیورسٹی کے مستقبل کا سوال اب گمبھیر ہوتا جا رہا ہے۔
اسلامی یونیورسٹی سے ہماری بہت سی عزیز توقعات وابستہ رہی ہیں۔ یہ خیال تھا کہ ندوۃ العلما جیسا کوئی ادارہ وجود میں آرہا ہے جہاں اسلام کی آفاقی تعلیمات کی روشنی میں نیا علم تخلیق ہو گا۔ یہاں سے ایسے مفسر اٹھیں گے جو قرآ ن مجید کی روشنی میں علم کی تشکیلِ جدید کریں گے۔ محدث پیدا ہوں گے جو علمِ حدیث کے نئے افق دریافت کریں گے۔ فقہ کا علم آگے بڑھے گا۔ ہم اپنی صفوں میں‘ ایک بار پھر کوئی شبلی دیکھیں گے۔
اس ادارے سے ایسی شخصیات وابستہ ہوئیں جو اس خیال کو حقیقت بنا سکتی تھیں۔ عالمِ اسلام سے نامور لوگ یہاں آئے۔ ہمارے اپنے گوہرِ تابدار جو دنیا بھر میں علم کی روشنی پھیلا رہے تھے‘ انہوں نے بھی یہاں کا رخ کیا۔ متقدمین میں ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری تھے۔ متاخرین میں ڈاکٹر ممتاز احمد‘ ڈاکٹر محموداحمد غازی اور ڈاکٹر محمد خالد مسعود کا تعلق بھی اسی یونیورسٹی سے رہاہے۔ ایسے لوگ جہاں جمع ہو جائیں‘ وہاں ہر علمی خیال حقیقت بن سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ خیال‘ خیال ہی رہا۔ یہ کہنا تو شاید درست نہ ہو کہ یہ ایک سعیٔ لاحاصل تھی‘ مگر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ بڑے خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوئے۔
اس کے اسباب یقیناً ایک سے زیادہ ہیں مگر سب سے بڑا سبب اس ماحول کی عدم فراہمی ہے جو علم کی تخلیق کیلئے ناگزیر ہے۔ علم محض ماضی کی بازیافت کا نام نہیں۔ یہ بھی علم ہے لیکن اسے تخلیقی علم نہیں کہا جا سکتا۔ کھدائی سے آثارِ قدیمہ دریافت ہوتے ہیں‘ جہانِ تازہ وجود میں نہیں آتے۔ ان آثار کی بڑی قدرومنزلت ہے۔ یہ عبرت کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ یہ اعتماد بھی پیدا کرتے ہیں کہ سینکڑوں یا ہزاروں سال پہلے اگر ایک دنیا آباد کی جا سکتی تھی تو آج ایک نئے دور کی بنیاد کیوں نہیں رکھی جا سکتی؟ یہ آثار مہمیز کا کام کرتے ہیں‘ سفر مگر چلنے ہی سے طے ہوتا ہے۔
علم کی تخلیق بند ماحول میں نہیں ہو سکتی۔ یہ خوف کی فضا میں بھی نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے آزادیٔ رائے کا احترام پہلی شرط ہے۔ اہلِ علم کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی ناگزیر ہے۔ بڑی علمی شخصیات طالب علموں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں کہ وہ قدیم نظریات کو چیلنج کریں۔ اس سے پہلے مگر انہیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ علم کی دنیا میں چیلنج کرنے کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ چیلنج کرنے کے لیے کن ہتھیاروں سے لیس ہونا ضروری ہے۔ ایک دیوانے کی بڑ اور ایک سکالر کی تحقیق میں کیا فرق ہوتا ہے؟ آزاد ماحول کے بغیر یہ سب ممکن نہیں۔
بند ماحول میں جہاں علم تخلیق نہیں ہوسکتا‘ وہاں بہت سے اخلاقی مسائل بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس سے ایک طرف آمرانہ رجحانات پیدا ہوتے ہیں اور دوسری طرف دوغلی شخصیات۔ آپ اصل خیالات کا کبھی اظہارنہیں کرتے کیونکہ ان سے آپ کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے۔ آپ وہ بات کہتے ہیں جو اربابِ حل و عقد کیلئے قابلِ قبول ہو۔ کوئی اختلاف کی جسارت کر گزرے تو اس کیلئے عرصۂ حیات تنگ کردیا جاتا ہے۔ یوں اعلیٰ تعلیم کے ادارے بہتے دریا کے بجائے ایک جوہڑ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
آج پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں کی عمومی فضا یہی ہے۔ اسلامی یونیورسٹی کا بھی کوئی استثنا نہیں۔ ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب نے اپنی پریس کانفرنس میں جو نقشہ کھینچا ہے‘ اس نے مجھ سمیت ہر اس آدمی کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے جو یونیورسٹی سے خیر خواہی کا تعلق رکھتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا اپنا معاملہ بھی اس گمبھیر صورتِ حال کی ایک مثال ہے۔
ڈاکٹر مشتاق احمد گریڈ بیس میں قانون کے استاد ہیں۔ انہیں ملازمت سے بر طرف کر دیا گیا۔ ملازمت سے برطرفی سنگین ترین سزا ہے جو کسی ملازم کو دی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جرم بھی اتنا ہی سنگین ہو۔ یونیورسٹی نے جو پریس ریلیز جاری کی‘ اس کے مطابق ان پر کوئی اخلاقی الزام ہے نہ مالی۔ چند معمولی نوعیت کے الزامات ہیں‘ جیسے بلا وجہ غیر حاضری یا چارج شیٹ کا جواب نہ دینا۔ ان کے بارے میں بھی ڈاکٹر صاحب کا موقف یہ ہے کہ جسے غیر حاضری کہا جا رہا ہے‘ وہ اس دوران میں چار کورسز پڑھاتے رہے ہیں اور شعبہ قانون کے چیئرمین نے انہیں یہ تدریسی ذمہ داری سونپی۔ اب یہ بات ایسی نہیں کہ اس کی تصدیق نہ کی جا سکے۔ اگر وہ پڑھاتے رہے ہیں تو کوئی پڑھنے والے بھی ہوں گے۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے اساتذہ گواہ ہوں گے۔ کیا اس کی حقیقت کو جاننا یونیورسٹی انتظامیہ کے لیے مشکل تھا؟
عقلِ عام یہ کہتی ہے کہ اگر ان الزامات کو درست مان لیا جائے تو بھی وہ سنگین سزا نہیں دی جا سکتی‘ انہیں جس کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ میرے لیے یہ بات بھی باعثِ تشویش ہے کہ یونیورسٹی میں کوئی ایسا فورم موجود نہیں کہ وہ ایک معاملہ کو اپنی چاردیواری میں حل کر سکے۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنی بات کہنے کے لیے عدالت سے رجوع کرنا پڑا اور میڈیا سے۔ یہ بات یونیورسٹی انتظامیہ کے لیے پریشانی کا سبب ہونی چاہیے۔
ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب سے‘ علومِ اسلامی کے ایک طالب علم کے طور پر میں ایک عرصے سے واقف ہوں۔ جہاد اور دہشت گردی کے موضو ع پر انہوں نے ایک اہم تحقیقی کتاب لکھی ہے۔ میرے علم کی حد تک اردو زبان میں اس طرح کی کوئی کتاب موجود نہیں جس میں مسلمانوں کی صدیوں پر محیط علمی روایت کے پس منظر میں اس عصری معاملے کو اتنی صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہو۔ وہ فقہ کے ساتھ جدید قانون کے بھی ماہر ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے بین الاقوامی قانون کے حوالے سے مسئلہ فلسطین کا مطالعہ کیا‘ جو اس موضوع پر مختصر ہونے کے باوجود ایک اہم اضافہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب سوشل میڈیا پر بھی علمی مباحث میں شریک رہتے ہیں اور یوں معاشرتی سطح پر بھی ایک کردار ادا کر رہے ہیں۔
ایسے لوگ اعلیٰ تعلیم کے اداروں کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں۔ جامعات کا وقار اور ساکھ‘ دونوں انتظامیہ سے نہیں‘ اساتذہ اور اہلِ علم سے متعین ہوتے ہیں۔ لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے کس علمی حیثیت کے مالک ہیں۔ جامعات کی انتظامیہ میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ ایسے افراد کو الگ کرنے میں عجلت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے‘ انہیں ساتھ رکھنے کی کوشش کرے۔ اسلامی یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز میں ڈاکٹر قبلہ ایاز جیسے لوگ تھے‘ جن کی موجودگی سے فائدہ اٹھا کر ایسے قضیوں کو حل کیا جا سکتا تھا۔
یہ اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب ایک ادارے کا ماحول بند نہ ہو۔ آزادیٔ رائے کو گوارا کیا جاتا ہو اور اختلاف کو مخالفت نہ سمجھا جاتاہو۔ مکالمے کی فضا ہو‘ قانون کی حکمرانی ہو‘ اجتماعی بصیرت کوموقع دیا جاتا ہوکہ وہ اپنا کردار ادا کرے‘ اور ادارے شخصی انا کے اسیر نہ بنیں۔ میرا مشورہ یہ ہو گا کہ ڈاکٹر صاحب کی برطرفی کا حکم واپس لیا جائے اور ان تمام الزامات کے لیے آزادانہ تحقیقات کا اہتمام کیا جائے جو یونیورسٹی کی ساکھ کو متاثر کر رہے ہیں۔ بصورتِ دیگر یہ معاملہ ادارے کے مستقبل کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہوگا۔
اس وقت بھی یہ مسائل سینیٹ تک پہنچ چکے ہیں۔ میڈیا میں ان پر بات ہونے لگی ہے۔ یہ عدالت میں بھی زیرِ بحث ہیں۔ ایک خیرخواہ کے طور پر مجھے دکھ ہوگا اگر یونیورسٹی کے گندے کپڑے چوراہوں میں دھلیں گے۔ اس سے وہ اچھے کام بھی دھندلا جائیں گے جو یونیورسٹی سے وابستہ ادارے سرانجام دے رہے ہیں۔