طالبان کی 'فتح‘ سے وابستہ خدشات‘واقعہ بننے جا رہے ہیں۔اس عمل کا آغاز ہو چکا۔
ایک معاصر میں تین اقساط پر مشتمل ایک طویل تجزیہ شائع ہوا ہے۔اس میں ایران کے علمااور افغانستان کے طالبان کو‘تبدیلی کے کامیاب ماڈل قرار دیتے ہوئے‘ پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ ان میں سے کسی ایک ماڈل کو اپنالیں۔ایک معروف کالم نگار کے اس تجزیے کااختتام ان جملوں پر ہو تا ہے: '' اب پاکستان کی مذہبی‘ سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہ گیا۔دو ماڈل موجود ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کر کے‘نفاذِشریعت کی تحریک شروع کی جا سکتی ہے۔لیکن اگر پھر بھی سراج الحق نے مہنگائی کے خلاف ہی تحریک شروع کرنی ہے اور مولانا فضل الرحمن نے پی ڈی ایم کو ہی بچانا ہے تو پھر ہم اُس روزِ محشرکا انتظار کریں گے جب پاکستان کی تمام مذہبی‘سیاسی جماعتوںکے سربراہ‘ ایک عام آدمی کی طرح اپنی اپنی فردِ جرم کا جواب دیں گے۔‘‘
ایرانی علما کا ماڈل کیا ہے؟شہروں اور بالخصوص دارالحکومت میں عوام کا ایک سیلِ رواں‘ ریاست کے نظام کو اس طرح مفلوج کردے کہ حکمرانِ وقت‘ اقتدار چھوڑنے اور فرار ہونے پر مجبور ہو جائے۔اس سے اقتدار خود بخود اس عوامی تحریک کے قائدین کو منتقل ہو جائے گا۔ طالبان ماڈل کیا ہے: ہتھیار بردار افراد کا ایک جتھا ترتیب دیا جائے۔یہ حکمران طبقات کے خلاف مسلح جد وجہد کرے۔جو مزاحم ہو‘اس کو بندق سے جواب دیا جائے۔ جیسے جیسے موقع ملے‘ ملک کے مختلف حصوں پر قبضہ کر لیا جائے۔ یہاں تک کہ آپ دارالحکومت کے دروازے تک جا پہنچیں۔حکمران طبقہ خود ہی بھاگنے یا دست بردار ہونے پر مجبور ہو جائے گا۔ اس تجزیے میں یہ بات غیر اہم ہے کہ اقتدار تک پہنچنے کا عمل کسی اخلاق یا اصول کے تابع ہونا چاہیے۔
مشورہ یہ دیا جا رہا ہے کہ پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں‘ان دونوں میں سے کسی ایک ماڈل کو اختیار کر لیں۔کسی ملین مارچ کے ذریعے شہروں پر قبضہ یا پھر مسلح جدو جہد۔یہ تجزیہ اگرچہ تارِ عنکبوت سے بنا‘خواہشات کاوہ جالا ہے‘جوحقیقت کی فضا میں تادیر قائم نہیں رہ سکتالیکن اس کا جائزہ لینا اس لیے ضروری ہے کہ اس طرح کے نسخے اس ملک میں‘پہلے بھی بیچے جاتے رہے ہیں اور بدقسمتی سے اس کے خریدار بھی موجود ہیں۔انہی نسخہ فروشوں اور خریداروں کی وجہ سے پاکستان چار دہائیوں تک فساد کا گھر بنا رہا۔ آج بھی اس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں؛تاہم اس میں فتنہ برپا کرنے کی صلاحیت پہلے کی طرح موجود ہے۔ یہ نسخہ مکڑی کا جالا کیسے ہے؟ پاکستان میں ایران جیسا انقلاب اس لیے نہیں آ سکتا کہ یہاں کوئی بادشاہت نہیں ہے۔یہاں تبدیلی کے راستے خاردار ہی سہی‘ مگر موجود ہیں۔ پابندیوں کے باوجود ابھی تک بہت سی آزادیاں باقی ہیں جن کی وجہ سے تبدیلی کے امکانات ختم نہیں ہوئے۔گزشتہ دس سالوں میں تین جماعتیں اقتدار تک پہنچ چکی ہیں۔ ایران میں یہ ممکن نہیں تھا۔ ایران پر تیسرے خاندان کی بادشاہت کا قبضہ تھا۔صدیوں کے اس جبرکا لاوا ایک دن تو پھٹنا تھا۔ پھر ایران میں ایک مسلکی وحدت ہے‘جس کے بعض سیاسی مضمرات ہیں جو سنی اکثریتی ملک میں ممکن نہیں۔گویاپاکستان میں وہ اسباب سرے سے موجود ہی نہیں جو ایران جیسے کسی انقلاب کی بنیاد بن سکیں۔
یہاں طالبان جیسے ماڈل کے لیے بھی کوئی گنجائش نہیں۔پاکستان کوئی قبائلی معاشرہ نہیں جہاں مسلح جدو جہد کو تبدیلی کے ایک طریقے کے طورپر قبول کر لیا جائے۔ ہمارے سیاسی کلچر میں ابھی غیر ریاستی بندوق کو فیصلہ سازی کا حق نہیں مل سکا۔ یہاں ریاست موجود ہے۔ریاست کے داخلی نظام کی حفاظت کے لیے سکیورٹی ادارے نہ صرف چوکس ہیں بلکہ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی جیسے مسلح گروہوں کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں ان ماڈلز کی بنیاد پر تبدیلی کی خواہش کو فراست کی مفلسی ہی قرار دیاجا سکتا ہے۔
میں پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں کا ناقد ہوں لیکن واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت کے ساتھ انہوں نے جس غیر مشروط وابستگی کامظاہرہ کیا ہے‘اس نے پاکستان کو مصر اور الجزائر بننے سے محفوظ رکھا ہے۔ان کی وجہ سے ملک خانہ جنگی سے بچا رہا۔انہوں نے ریاست کے بدترین مظالم کو گوارا کیا مگر جمہوری اقدار سے وابستگی سے دست بردار نہیں ہوئے۔
1950ء اور1960ء کی دہائیوں میں جماعت اسلامی ابتلا کا شکار رہی۔ ملک پر آمریت کا راج تھا اور جماعت اسلامی نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ ایوب خان کے عہد میں جماعت کے اجتماع پر گولیاں چلیں۔ مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔جماعت اسلامی پر پابندی لگی۔ اس سب کچھ کے باوجود‘ جماعت نے آئین اور قانون کے دائرے سے باہر قدم نہیں رکھا۔جماعت اسلامی نے قانونی جنگ لڑی اور عدالتوں ہی نے مولانا مودودی کی سزا ختم کی ا ور جماعت اسلامی پر پابندی کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔دوسری طرف‘اسی دور میں‘ مصرکی اسلامی تحریک الاخوان المسلمون بھی ابتلا سے گزر رہی تھی۔امام حسن البنا کی مظلومانہ شہادت ہوئی۔سید قطب کو پھانسی دی گئی اورہر طرح کا ریاستی ظلم روا رکھا گیا۔اس سے لوگوں کا پیمانہ صبر لبریز ہوا۔ مسلح جماعتیں وجود میں آئیں۔ نتیجے کے طور پر مصر خانہ جنگی اور طویل آمریت کے حوالے ہوگیا۔مصر میں غیر جمہوری طرزِ عمل نے اسلام پسندوں کو نقصان پہنچایا اور ملک کو بھی۔ جماعت اسلامی کی طرح جمعیت علمائے اسلام نے بھی ہمیشہ جمہوری جدوجہد کی۔ مولانا فضل الرحمن نہ ہوتے تونجی جہاد کا فلسفہ مسلک دیوبند کو بہا لے جاتا۔ انہوں نے نوجوانوں کو بندوق کے بجائے ووٹ سے تبدیلی پر ابھاراا ور اس کے لیے اپنی جان کو کئی بار خطرے میں ڈالا۔یہ الگ بات ہے کہ عاقبت ناا ندیشوں نے ان کی اس قومی خدمت کا مذاق اڑایا اورانہیں سیاسی عمل سے دیس نکالا دے کر‘ دیوار سے لگانے کی کوشش کی۔ مولانا شاہ احمد نورانی بھی تادمِ مرگ جمہوریت سے وابستہ رہے۔
پاکستان میں ووٹ کی عزت مجروح ہوئی لیکن اس کے باوجود‘ابھی پُرامن تبدیلی کے راستے بند نہیں ہوئے۔آج بھی حکومت اور اپوزیشن کی کمیٹی بن چکی جو انتخابی اصلاحات پر مکالمہ کر رہی ہے۔یہی جمہوریت کا حسن ہے کہ وہ بحرانوں سے نکلنے کا پُرامن راستہ دکھاتی ہے۔ہمیں اس پر اصرار کر نا چاہیے کہ یہاں ووٹ سے تبدیلی کے عمل کو مضبوط بنایاجائے۔ووٹ کو عزت ملے تاکہ لوگ متبادل ماڈلز کے طرف نہ دیکھیں جن کے نسخے اب بازار میں برائے فروخت پیش کیے جا رہے ہیں۔فیصلہ سازحلقے بھی اگر یہ چاہتے ہیں کہ یہاں ایران اور افغانستان کے ماڈلز کی مارکیٹ آباد نہ ہو تو وہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنائیں۔تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے نمائندہ لوگوں کو اعتماد میں لے کر ایسا نظام وضع کریں جس پر بحیثیت ِ مجموعی عوام کو اعتمادہو۔پاکستان کسی نئی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ایران اور افغانستان کے تناظر میں‘ ان ماڈلز کے حسن و قبح پر بات ہو سکتی ہے لیکن پاکستان کے لیے صرف جمہوریت ہی تبدیلی کا واحد راستہ ہے۔ دوسرے ہر ماڈل کی منزل خانہ جنگی ہے۔ پاکستان جیسے مسلکی‘ علاقائی‘ لسانی اور ثقافتی تنوع رکھنے والے ملک کے لیے جمہوریت ہی سازگار ہے۔ طالبان کی کامیابی کے ساتھ یہ خدشہ موجود تھا کہ لوگ اب پاکستان میں بھی اسی کو اپنانے کی بات کریں گے۔ یہ خدشہ اب واقعہ بنتا جا رہا ہے۔ لازم ہے کہ انقلاب اور مسلح جدوجہد کے ماڈلز کو مسترد کر دیا جائے اور عوام کو تبدیلی کے جمہوری طریقے پر یکسو کیا جائے۔ ہمیں فساد سے جمہوریت ہی بچا سکتی ہے۔