ڈاکٹر صفدر محمود مرحوم کی تازہ تصنیف کتاب ''بصیرت‘‘ میرے سامنے رکھی ہے۔ یہ، میرے لیے، ایک ان دیکھی، دنیا کی کہانی ہے۔
ڈاکٹر صاحب تاریخ کے آدمی تھے۔ تاریخ واقعات کی دنیا ہے۔ علمِ تاریخ، عالمِ اسباب میں پیش آنے والے واقعات بیان کرتا اور منطق کے اصولوں کا اطلاق کرتے ہوئے، ان سے نتائج اخذ کرتا ہے۔ مثال کے طور پر 'پاکستان قائداعظم نے بنایا‘۔ یہ ایک نتیجہ فکر ہے جو واقعات سے ماخوذ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس باب میں قابلِ قدر کام کیا اور وہ ان کی پہچان بنا ہے۔
عمرکے آخری حصے میں مگروہ مادے اور طبیعات کی دنیا سے زیادہ مانوس نہیں رہے۔ ان پر روحانیت نے غلبہ پا لیا اور انہوں نے زندگی کو ایک مابعدالطبیعیاتی نظر سے دیکھنا شروع کیا۔ انہوں نے زندگی کی اس صوفیانہ تعبیر کو قبول کرلیا جس کے تحت دنیاکا یہ نظام چند رجال الغیب کے ہاتھوں میں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول: عقل کے غلام ان کو نہیں جان سکتے جن کا تعارف، ڈاکٹر صاحب ان الفاظ میں کراتے ہیں: ''ان پر اللہ پاک اپنے فضل و کرم سے پردے اٹھا دیتے ہیں اور انہیں وہ کچھ دکھا دیتے ہیں جو عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوتا ہے‘‘۔ (54)
ڈاکٹر صاحب کوئی کتابی یا سنی سنائی بات نہیں کرتے، شخصی واردات بیان کررہے ہیں: ''میں نے بارہا مشاہدہ اور تجربہ کیا ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ جنہیں دل کی آنکھ عطا فرماتے ہیں وہ بیٹھے بیٹھے سینکڑوں بلکہ ہزاروں میلوں تک دیکھ لیتے ہیں۔ قلبی نگاہ کے راستے میں کوئی پہاڑ یا رکاوٹ حائل نہیں ہوتی اور قلب کی نگاہ کے سامنے پوشیدہ حقائق قدرت کے راز اور مستقبل کے واقعات یوں کھلتے اور عیاں ہوتے جاتے ہیں جیسے ہم اپنے سامنے موجود مناظر کو دیکھتے ہیں۔ یہ میرا تجربہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ یومِ حساب مجھے اپنے اعمال کا حساب اور جواب دینا ہے۔ اس لیے مجھے کسی سے کوئی غرض نہیں۔ غرض ہے تو صرف عاقبت سے۔‘‘ (119)۔
ڈاکٹر صاحب نے پیش لفظ میں بتایا ہے کہ انہوں نے اس کتاب کا نام 'بصیرت‘ کیوں رکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اردو لغات میں بصیرت کے معنی 'دل کی بینائی‘ بھی بیان ہوئے ہیں: ''دل کی بینائی دل میں روشنی کی مرہونِ منت ہوتی ہے اور دل میں روشنی یا تو عبادات و مجاہدات سے جنم لیتی ہے یا پھر مرشد کی عطا ہوتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مجاہدات و عبادات طویل عرصہ استقامت کے بعد دل میں نور کی قندیل جلاتے ہیں لیکن مرشد کی نگاہ سے یہ منزلیں آسان اور فاصلے مختصر ہوجا تے ہیں۔ اگر مرشد کامل مل جائے تو‘ اور مرشد مہربان بھی ہو جائے تو قلب کی روشنی یا بصیرت مجاہدات و عبادات کے بغیر بھی مل جاتی یا پھر مقابلتاً کم عرصے میں نصیب ہو جاتی ہے۔‘‘ علامہ عبدالستار عاصم نے اسی لیے اس کتاب کو 'بصیرت‘ کے ساتھ شائع بھی کیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب حضرت علی ہجویری کے ساتھ غیرمعمولی عقیدت رکھتے ہیں ''میں اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش کی اپنی شہرہ آفاق کتاب 'کشف المحجوب‘ میں لکھی گئی ہر بات کو سو فیصد درست سمجھتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب لکھتے ہوئے جہاں انہیں بیشتر معلومات اس دور کی کتابوں اور معروف علمی ذرائع سے ملیں وہاں انہیں کچھ معلومات روحانی ذرائع سے بھی ملیں۔‘‘ (56)۔ ''میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ حضرت علی بن عثمان ہجویری‘ نبی کریمﷺ یا عاشقِ رسول حضرت اویس قرنیؓ کے حوالے سے کوئی غیر مصدقہ بات لکھیں گے اور اسے کشف المحجوب جیسی کتاب کا حصہ بنائیں گے... حضرت علی بن ہجویری نے یہ بھی لکھا ہے کہ جنگِ صفین میں حضرت اویس قرنی حضرت علیؓ کی جانب سے میدان میں اترے اور شہادت پاکر عشق کی آخری منزل بھی طے کر گئے‘‘۔ اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹرصاحب اس تنقیدی کام کو قابلِ توجہ نہیں سمجھتے جو کشف المحجوب میں بیان کردہ روایات کے باب میں ہوا ہے۔
ڈاکٹر صاحب میرے ممدوح پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب کی ایک کرامت کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ ''میرا ان سے 1998ء میں پہلی اور آخری بار رابطہ ہوا۔ پھر ان تک رسائی ممکن نہ رہی۔ ملاقات کو تقریباً پچپن سال گزر چکے ہیں۔ تب فون پر بات ہورہی تھی تو کہا: ''ڈاکٹر صاحب آپ کے بائیں کان میں کچھ خرابی ہے‘ اس کا علاج کرائیں‘ بعد میں تنگ کرے گا۔ میں اندھا اور عقل کا غلام تھا، ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دی۔ تین سال بعد دفتر میں بیٹھا تھا تو ایک دم بایاں کان بہنے لگا۔ مسئلہ بگڑتا چلا گیا تو یاد آیا کہ ایک صاحبِ نگاہ نے تین برس قبل وارننگ دی تھی۔ دنیاوی علم کے خزانے اللہ پاک کے عطاکردہ روحانی علم کے سامنے مچھر کے ایک پرکے برابر ہوتے ہیں۔ جب روحانی آنکھ سے پردے اٹھا دیے جاتے ہیں تو وہ لمحوں میں ہزاروں لاکھوں میلوں کا سفر کرتی اور پتھر کی تہہ تک پہنچ جاتی ہے۔‘‘ (83) پروفیسر صاحب اپنی کرامات خود بیان نہیں کرتے۔ ڈاکٹر صاحب جیسے ثقہ راوی روایت بیان نہ کرتے تو ہم کیسے جان پاتے؟
یہ کسبی معاملہ ہے یا خصوصی عطا؟ ڈاکٹر صاحب اس کا بھی جواب دیتے ہیں: ''یہ میرے رب کی عطا ہے۔ وہ پیغمبروں نبیوں کو عطا کرتا ہے اور اپنے پیارے بندوں کو بھی عطا کرتا ہے۔ نبیوں‘ پیغمبروں کے مقامات تک کوئی نہیں پہنچ سکتا‘ لیکن انسان دینے والے کی حد بھی متعین نہیں کر سکتا۔ وہ قادرِ مطلق ہے۔ اس کی عطا کو علم کے پیمانوں سے ناپا اور تولا نہیں جا سکتا‘‘۔
اپنی بات کی تائید میں وہ بار بار کشف المحجوب کو پیش کرتے ہیں: ''نبی کریمﷺ نبی آخرالزمان ہیں۔ کشف المحجوب میں درج شدہ ایسے سینکڑوں واقعات یا روایات حضور کے وصال کے صدیوں بعد کے ہیں کیونکہ میرے رب اور میرے نبی کا فرمان ہے کہ دنیا کبھی بھی اللہ کے دوستوں سے خالی نہیں ہو گی۔ کبھی ان سے پردہ ہٹا دیا جاتا اور کبھی یہ پردے میں رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی یقیناً قربِ الٰہی سے فیض یافتہ ہستیاں موجود ہیں اور ابد تک موجود رہیں گی۔ صاحبانِ علم ودانش کو ایسے واقعات تشکیک میں مبتلا کر دیتے ہیں کہ بھلامردہ لکڑی سے آواز کیسے آ سکتی ہے؟ مچھلیاں پانی سے موتی منہ میں لیے کیونکر نمودار ہو سکتی ہیں؟ کوئی انسان پانی پہ کیسے چل سکتا ہے۔ ایسے معجزے تو صرف نبیوں کو عطا ہوئے۔ افسوس خدا کی خدائی سے انکار رب کی عطا پر شک، حدیث قدسی کو سمجھنے سے عاری؟ (58)
مجھ جیسے لوگ اپنے عہد کے رجال الغیب سے بے خبر کیوں رہتے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب اس کی وجہ بتاتے ہیں: ''اللہ پاک مجذوب کو اپنی سلطنت کا بے تاج بادشاہ بناکر اتنا اختیار عطا کر دیتا ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے وہ قریب آتا اور جسے نہیں چاہتا، وہ پوری کوشش کے باوجود قریب کی طرف قدم نہیں اٹھا سکتا... اس بے ضرر، مسکین، بظاہر غربت و افلاس کے لباس میں ملبوس شخص کو اللہ پاک اتنا رعب اور دبدبہ عطا فرما دیتے ہیں کہ انسان تو انسان، میں نے بے زبانوں کو بھی ان کے حکم کی تعمیل کرتے دیکھا ہے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب کے ساتھ سرفراز شاہ صاحب کی کرامات بھی بیان کی ہیں۔ میں ان کا مگر ذکر نہیں کروں گاکہ آپ خود بھی کچھ پڑھیں۔