ڈاکٹر عبدالقدیرخان پاکستان کی تاریخ کے ایک منفرد کردار ہیں۔ مقبول بھی اور متنازع بھی۔مقبول عوام میں‘متنازع حکام میں۔
ہماری تاریخ کے دو کردارایسے ہیں جنہوں نے عوامی خواب کو تعبیر میں بدلا۔ایک قائد اعظم۔جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے پاکستان کا خواب دیکھا اور قائداعظم نے اسے واقعہ بنا دیا۔دوسرے ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔ایک خواب پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کادیکھا گیا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اسے تعبیردے دی۔یہ پاکستان کا قیام ہو یا ایٹمی پروگرام‘اتنے بڑے واقعات‘کسی فردِواحد کے بس میں نہیں ہوتے۔کوئی شبہ نہیں کہ یہ بہت سے رجالِ کار کی شب وروز کی محنت کا حاصل ہوتے ہیں۔تاہم ان کا انتساب کسی ایک فرد کے نام ہو تا ہے جو اس واقعے میں مرکزی کردار ادا کر تا ہے۔
ایٹمی پروگرام کا سہرا ڈاکٹر صاحب کے سر باندھا گیا‘اگرچہ یہ بھی ایک ٹیم کا کام تھا۔وہ عوام کے سامنے اس کی علامت بن گئے۔انہوں نے بھی اپنے شب وروز اس کی نذر کر دیے۔لوگوں نے انہیں مسیحاجاناجس نے پاکستان کو ان کے خیال میں دفاعی طور پر ناقابلِ تسخیر بنا دیا۔بعداز مرگ بھی ڈاکٹر صاحب عوام کے دل میں بستے ہیں۔یہ محبت پاکستان کی تاریخ میں کم لوگوں کے حصے میں آئی۔ ڈاکٹر صاحب یقینا اس باب میں منفرد تھے۔
اس کے ساتھ عجیب واقعہ یہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب حکمران طبقے میں مقبول نہ ہو سکے۔حکمران‘عسکری ہو ں یا عوامی‘ ان کی ڈاکٹر صاحب کے بارے میں اور ڈاکٹر صاحب کی ان کے بارے میں رائے زیادہ اچھی نہیں رہی۔ایک کھنچاؤ‘بعض اوقات تلخی اور بالعموم بے اعتنائی۔ یہی نہیں‘ ایٹمی توانائی کمیشن اور ڈاکٹر صاحب کے مابین بھی ایک مستقل تناؤ رہا۔ڈاکٹر ثمر مبارک مندان سے اور وہ ثمر مبارک مند سے خوش نہیں رہے۔ایک شکایت‘کبھی زیر لب‘کبھی سرِ عام کی جا تی رہی۔
نواز شریف صاحب نے جب ایٹمی دھماکے کر نے کا فیصلہ کیا تو حیران کن طور پر ڈاکٹر صاحب کہیں شریکِ مشاورت نہ تھے۔یہاں تک کہ جس ٹیم کو چاغی میں دھماکوں کی ذمہ داری سونپی گئی‘ڈاکٹر صاحب ان میں بھی شریک نہ تھے۔یہی نہیں‘وہ اس تقریب میں بھی مدعو نہیں تھی جو چاغی میں ہوئی۔ محترم نذیر ناجی صاحب اُن دنوں وزیراعظم صاحب کے تقریر نگار تھے اور مشاورت کے اس عمل میں بھی شریک تھے۔انہوں نے ان واقعات کی تفصیلات‘اپنے کالموں میں لکھ دی تھیں۔اس میں وزیراعظم اور ہاؤس اور ڈاکٹر صاحب کے تعلقات کی پوری تصویر سامنے آ جا تی ہے۔
بے نظیر بھٹو صاحبہ بھی ڈاکٹر صاحب سے خوش نہیں تھیں۔ڈاکٹر صاحب کے بارے میں ان کا رویہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ یہی حال عمران خان صاحب کا ہے۔عدم التفات تادمِ مرگ۔سب سے بڑھ کر توپرویز مشرف صاحب کا معاملہ رہا۔وہ اتنا ظاہر وباہر ہے کہ اس پر کچھ لکھنا تحصیلِ حاصل ہے۔ مشرف صاحب نے اپنی کتاب میں بھی بہت کچھ لکھ دیا ہے۔اس کے سچ یا جھوٹ ہونے کی تمام تر ذمہ داری مشرف صاحب کے سر ہے۔وہ ریاست کے اہم ترین مناصب پر فائز رہے۔ اس معاملے میں ان کی بات کی اہمیت ہو سکتی ہے‘سب جانتے ہیں۔جنرل (ر) اسد درانی ان سے کم تر عہدوں پر رہے۔ان کی کتاب شائع ہوئی تو وہ طلب کر لیے گئے۔مشرف صاحب کے لکھے پر کوئی اعتراض کہیں سے سامنے نہیں آیا۔
یہ معاملہ یک طرفہ نہیں تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو بھی جب موقع ملا‘انہوں نے اربابِ اقتدار کے بارے میں اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔اس میں اگرچہ تضاد ہے مثلاً نواز شریف صاحب کے بارے میں ان کے توصیفی کلمات ملتے ہیں اور ناقدانہ خطوط بھی۔دیگر کرداروں کے بارے میں بھی ڈاکٹر صاحب کے خیالات معلوم ہیں۔ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا ایک پروگرام یوٹیوب پر موجود ہے جس میں انہوں نے ڈاکٹر صاحب کا ایک خط دکھایا ہے جو ان کے نام لکھا گیا۔اس سے بھی جانا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب پاکستان کے حکمرانوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے۔
سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب اور ارباب ِ اقتدار کے مابین یہ تلخی کیوں آئی؟اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے میں کسی نے کوئی کوتاہی نہیں کی۔چاہے اس کا تعلق کسی ریاستی ادارے سے ہو یا کسی سیاسی جماعت سے۔اس کے باوصف ایسا کیوں تھا کہ ڈاکٹر صاحب اور حکمرانوں کے مابین باہمی اعتماد اور احترام کا رشتہ استوار نہ ہو سکا؟ کیا حکمران ان کی عوامی مقبولیت سے ڈرتے اوران سے حسد کرتے تھے یا اس کی وجہ کچھ اور تھی؟
مشرف صاحب کے علاوہ دیگر حکمران عوام کے ایک بڑے حصے میں مقبول رہے۔ ان کے چاہنے والے وہی ہیں جو ڈاکٹر صاحب سے محبت کرتے ہیں۔ایک دل میں یہ دونوں محبتیں بیک وقت موجود ہیں۔ لیکن یہ دونوں محبوب‘دوسرے کو اپنے دل میں جگہ نہ دے سکے۔ ایک سرد مہری کی فضا تا دمِ مرگ قائم رہی۔تعزیت کے چند رسمی جملوں کے سوا‘ڈاکٹر صاحب کے لیے اہلِ سیاست کے پاس کچھ نہ تھا۔
ایک بات اور بھی ہے۔سیاسی حکمرانوں نے جو کہا زبانِ حال سے کہا‘زبانِ قال سے کچھ نہیں کہاگیا۔کسی سیاست دان نے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں عوام کے سامنے کوئی ایسی بات نہیں کہی جو آداب کے منافی ہو۔یہ کام صرف مشرف صاحب نے کیا۔دوسری طرف ڈاکٹر صاحب نے اپنی رائے کے اظہار میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔وہ کہتے بھی رہے اور لکھتے بھی رہے۔یہ سب تاریخ کا حصہ بن چکا۔
میں تعلقات کی اس سرد مہری کو سمجھ نہیں سکا۔اسے حسد بھی قرار دیا جا سکتا ہے مگر ڈاکٹر صاحب سیاسی طور پر کبھی متحرک نہیں رہے۔بعض ناکام سیاست دانوں نے ان کی مقبولیت سے فائدہ اٹھانا چاہا لیکن انہیں اس میں زیادہ کامیابی نہیں ہوئی۔ڈاکٹر صاحب کو یہ گلہ تھا کہ ان کو صدر بنانے کاوعدہ کیا گیا مگر یہ وفا نہ ہوا۔لگتا یہی ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحب کے ہاں کوئی سیاسی خواہش تھی بھی تو اتنی ہی کہ انہیں تکریم کا کوئی منصب مل جائے۔حقیقی اقتدار کے وہ متمنی نہیں تھے۔اس پسِ منظر کے ساتھ‘اہلِ سیاست ان سے حسد کیوں کریں گے؟
میرا خیال تو یہ ہے کہ اگر کسی سیاست دان نے ڈاکٹر صاحب کو عزت دی تو اس عمل نے اسے سیاسی طور پر فائدہ پہنچایا۔وہ ایک ایسے رہنما کے طور پر سامنے آیا جو قومی ہیروز کاقدردان ہے۔سیاست دان یہ بات سمجھتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ فنکاروں‘ علمااور دیگر شعبوں کے ممتاز افراد کو ایوارڈ وغیرہ دیے جاتے ہیں تاکہ عوام میں اربابِ حکومت کی عزت بڑھے۔یہ جانتے ہوئے بھی ڈاکٹر صاحب کے بارے میں یہ رویہ کیوں؟مکرر عرض ہے کہ یہ کسی ایک حکمران کا سوال نہیں ہے‘اس معاملے میں سب ایک پیج پر ہیں۔یہ کیوں ہے؟
میں اس وقت صرف سوال اٹھا سکتا ہوں۔اس کا کوئی جواب میرے پاس نہیں ہے۔اس کا درست جواب وہی دے سکتا ہے جو کچھ ایسے واقعات سے واقف ہے‘جو میری نگاہوں سے اوجھل ہیں اور ناگفتہ بہ ہیں، یا پھر وہ جو انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کو سمجھتا ہو۔میں نے تو وہ عقدہ آپ کے سامنے رکھ دیا جو میں سلجھا نہ سکا۔ واقعہ یہ ہے کہ امور ِجہاں بانی اُس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں جتنا دکھائی دیتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب اپنا سفرِ حیات مکمل کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچ گئے۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔دوسرے بھی قطار میں لگے ہیں۔دیکھیے کب کسی کو دستِ اجل اُچک لے۔