آج کا افغانستان، طالبان کا افغانستان کہیں جسے، اپنی مادی بقا کے لیے دنیا سے مدد مانگ رہا ہے۔ طالبان کو اپنے اقتدار کے جواز کے لیے امریکہ اور دوسرے غیرمسلم ممالک کی سند چاہیے۔ کیا اسی کا نام آزادی ہے؟
افغانستان قحط کے دہانے پرکھڑا ہے۔ اقتصادیات کا کوئی وجود نہیں۔ دنیا اگرنہ چاہے تو خوراک مل سکتی ہے نہ شناخت۔ جب تک طالبان کی حکومت کو قبول نہیں کیا جاتا، افغانستان دنیا سے الگ تھلگ رہے گا۔ یہ قبولیت امریکہ کی مرضی کے بغیر نہیں مل سکتی۔ آزادی افغانستان سے آج بھی اتنے ہی فاصلے پر ہے، جتنی طالبان سے پہلے تھی۔
اس دنیا کا نظام ایسا ہی ہے۔ آزادی کی نیلم پری کسی سبب ہی سے ہاتھ آتی ہے۔ 'ٹرائیکا پلس‘ نے مطالبات کی ایک فہرست طالبان کو تھما دی ہے۔ اس کا محرک صرف امریکہ نہیں، روس، چین اور پاکستان بھی ہیں۔ سب نے مل کر طالبان سے کہا ہے کہ وہ عالمگیر سطح پر تسلیم شدہ بین الاقوامی قوانین اور بنیادی انسانی حقوق کا احترام کریں۔ سب افغان گروہوں کو شریکِ اقتدار کریں اور بچیوں کی تعلیم کو یقینی بنائیں۔ کوئی ملک اب جزیرہ بنا کر نہیں رہ سکتا۔ عالمی برادری سے اگر آپ سندِ جواز اور مالی مدد چاہتے ہیں تو پھر اس کے بنائے قوانین اور اس کی بنائی ہوئی قدروں کو بھی تسلیم کرنا ہوگا۔
یہاں لوگوں نے یہ تاثر دیاکہ افغانستان سے چند ہزار امریکی فوجیوں کے نکل جانے کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان عالمی تسلط سے نجات پاگیا۔ یہی نہیں، یہ بتایا گیاکہ یہ سب کچھ آسمانی تائید سے ہورہا ہے۔ اب آسمان سے نعمتیں برسیں گی اور خوشحالی کا راج ہوگا۔ اس مقدمے کے حق میں ایک دینی تعبیر تراشی گئی۔ اب برسرِزمین جوکچھ ہوا، ہمارے سامنے ہے۔
افغانستان کے لوگ آج پہلے سے بڑی آزمائش کا شکار ہیں۔ خوراک اور ادویات کا قحط ہے۔ افغانوں کی عزتِ نفس باقی ہے نہ جیب میں پیسے ہیں۔ بچیاں اور بچے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ایران نے افغان مہاجرین کو واپس بھیجنا شروع کردیا ہے۔ مہاجرین کی بین الاقوامی تنظیم کے مطابق، 21 تا 27 اکتوبر 28115 افراد کو افغانستان دھکیلا گیا۔ ان کے پاس واپس جانے کیلئے کرایہ بھی نہیں تھا۔ وہ کیمپوں میں تشدد کا نشانہ بنے۔ ان کی عزت باقی رہی نہ گھر نہ کوئی ٹھکانہ۔ ایک سال میں جنہیں زبردستی واپس بھیجا گیا اس تنظیم کے مطابق ان کی تعداد 1031757 ہے۔ اقوامِ متحدہ یا وہ عالمی این جی اوز کچھ مدد کر رہی ہیں جنہیں ہمیشہ مطعون کیا جاتاہے۔ پاکستان بھی مقدور بھرکوشش کررہا ہے۔ اس طرح کی مدد سے مگر چند دن توگزارے جا سکتے ہیں، زندگی نہیں۔
دوسری طرف، ایک بار پھر افغان مہاجرین پاکستان کا رخ کررہے ہیں۔ جو قدرے آسودہ حال ہیں، ان میں سے بہت سے آ چکے۔ اسلام آباد اور اس کے نواح میں گھروں کے کرائے بڑھ چکے۔ یہ وہی عمل ہے جو 1979-80ء میں ہوا تھا۔ تب تو ایک دنیا افغانوں کے پیچھے تھی۔ آج کوئی نہیں ہے۔ پاکستان ایک بار پھر اُسی صورتحال کا شکار ہوتا دکھائی دیتا ہے جس کے اثرات سے چالیس سال سے گزررہا ہے۔ یہ بحران افغانستان ہی کو نہیں، پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔
یہ افسوسناک صورتحال ان غلط تجزیوں کا حاصل ہے جو افغانستان کے باب میں کیے گئے۔ مزید ستم یہ ہواکہ اس کیلئے دینی استدلال بھی تراشا گیا۔ روایات کو حسبِ خواہش اس صورتحال پر منطبق کرتے ہوئے، یہ تاثر دیا گیاکہ یہ الٰہی فیصلہ ہے جس کا نفاذ ہو رہا ہے۔ دین اور عقل دونوں کو جذبات کی اس بھٹی میں جھونک دیا گیا۔ حاصل یہ ہے کہ آج طالبان انہی سے اپنے اقتدارکے جواز کی سند مانگ رہے ہیں جن سے آزادی کیلئے جنگ لڑی جا رہی تھی۔
یہ مقامِ عبرت ہے، ہم سب کیلئے۔ یہ حالات ہمیں موقع فراہم کر رہے ہیں کہ ہم اپنے فہمِ دین پر نظرثانی کریں اور اس دنیا کے بارے میں اللہ کی سنت کو سمجھیں۔ اس باب میں سب سے بڑی غلطی یہ کی گئی کہ رسولوں کے باب میں اللہ تعالیٰ نے اپنی جو سنت بیان کی، اس کا اطلاق غیر نبیوں پرکیا گیا۔ قرآن مجید کی آیات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر انہیں عصری واقعات پر منطبق کیا گیا۔ یہی رویہ روایات کے معاملے میں بھی اختیار کیا گیا۔ آج اگر حسبِ خواہش نتائج نہیں نکلے تو اس کی ذمہ داری اللہ کے دین پر نہیں، ان پر ہے جنہوں نے اس کو من پسند معانی پہنائے۔
اس بات کو بھی فراموش کیا گیاکہ آج کی دنیا ایک عالمگیر نظم کے تحت چل رہی ہے جس کا تعین بیسویں صدی میں کردیا گیا تھا‘ جب دنیا سے سلطنتوں کا دور ختم ہوا۔ یہ نیا سیاسی بندوبست کم و بیش ایک صدی سے قائم ہے۔ آج ہر ملک کی سیاسی اور معاشی بقا، اس نظام کے ساتھ وابستگی سے مشروط ہے۔ یہ ایران کے علما ہوں یا افغانستان کے طالبان، ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ اس نظم کو قبول کرکے رہیں۔ انہیں اسی نظام کے تحت اپنی آزادی اور خود مختاری کی حفاظت کرنی ہے‘ جیسے چین کر رہا ہے۔ چین آج ٹرائیکا کا حصہ ہوتے ہوئے، طالبان سے وہی مطالبہ کر رہا ہے جو امریکہ کا مطالبہ ہے۔
افغانستان کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ ایک نارمل ریاست کے طور پر عالمی نظام کا حصہ بنے۔ اسی نظام میں رہتے ہوئے، دوسرے ممالک کی طرح، ممکن حد تک اپنی آزادی کو یقینی بنائے۔ طالبان سب سے پہلے اپنے ملک کو سیاسی اور اقتصادی استحکام دیں۔ یہ استحکام عالمی برادری کے تعاون کے بغیر نہیں مل سکتا۔ یہ تعاون دوستانہ تعلقات کا متقاضی ہے۔ اس کیلئے بہت سی باتیں بادلِ نخواستہ بھی ماننا پڑتی ہیں۔
افغانستان آج جس المیے سے دوچار ہے، اس سے بچانا، طالبان کا سب سے بڑا فریضہ ہے۔ دینی بھی اور دنیاوی بھی۔ یہ اقتدار انہیں کسی نے نہیں سونپا، انہوں نے بزور بازو اس پر قبضہ کیا ہے۔ گویا انہوں نے خود لاکھوں لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کا ذمہ لیا ہے۔ اس کے بعد انہیں اندازہ ہونا چاہیے کہ ان کی دینی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ رسالت مآبﷺ کی سیرتِ مبارکہ میں اور خلافتِ راشدہ بھی ان کیلئے راہنمائی ہے۔
ہمیں بھی سمجھنا ہے کہ مذہب کے نام پر کیسے لوگوں کا جذباتی استحصال ہوتا ہے۔ اس دنیا میں بقا کے اپنے مطالبات ہیں۔ جب تک ہم انہیں پورا نہیں کریں گے، ہماری سلامتی خطرات میں گھری رہے گی۔ یہ مطالبات جس طرح امریکہ کو پورا کرنے ہیں، اسی طرح دوسرے ممالک کو بھی۔ اس میں کوئی استثنا نہیں۔ افغانستان کے لوگوں کا زندگی پر اتنا ہی حق ہے جتنا کسی اورکا۔ انہیں کبھی اشتراکیت کے نام پر عذاب سے دوچار ہونا پڑا اورکبھی اسلام کے نام پر۔
ریاست کا بنیادی کام عوام کے جان و مال کا تحفظ ہے۔ اگر یہ نہیں توپھر سیاسی نظریہ جو بھی ہو، عوام کے کسی کام کا نہیں۔ کسی فرد یا گروہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ لاکھوں لوگوں کو اپنی انا یا اپنے نظریے کا اسیر بنا کران کے جال و مال کو خطرات میں ڈال دے۔ اس کی ایک ہی استثنائی صورت ہے اور وہ یہ کہ لوگ اس نظریے کو قبول کرتے ہوئے، خود اس کیلئے اپنی جان اور مال کو خطرے میں ڈالنے پر آمادہ ہوں۔