آوازیں ہیں اور چلتی پھرتی تصویریں۔ تاریخ اور ادارے سب اُن کی گرفت میں ہیں۔ عوام الجھن میں ہیں۔ انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ کیا یہ قوم کبھی سچ اور جھوٹ میں تمیز کر پائے گی؟
بات ثاقب نثار صاحب سے شروع ہوئی اور مریم نواز صاحبہ سے ہوتے ہوئے، عام ووٹر تک آپہنچی۔ عمران خان صاحب بھی شکوہ کررہے ہیں کہ ان کی کردار کشی ہوئی۔ یہ لڑائی ٹی وی سکرین پر لڑی جارہی ہے۔ کوئی عدالت کا رخ نہیں کرتا۔ زبانِ حال سے یا زبانِ قال سے، ہر کوئی ایک ہی بات کہہ رہا ہے 'میں کوئی پاگل ہوں جو عدالت میں جاؤں؟‘ بصد احترام سوال ہے: جو عدالت کا رخ کر تے ہیں، کیا ہوش و خرد سے بیگانہ ہوتے ہیں؟
آج سب کے خلاف مبینہ شہادتیں موجود ہیں۔ منصب اور الزام کے لحاظ سے، گو ان کی سنگینی میں فرق ہے لیکن ہر گواہی یہی ہے کہ اخلاقی ضابطے پامال ہوئے ہیں اور قانونی بھی۔ یہ صرف عدالت ہے جو پرکھ سکتی ہے کہ قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے یا نہیں۔ عدالت کا فیصلہ اس کی اخلاقی حیثیت بھی متعین کر دے گا۔ یہ اب عوام پر ہے کہ وہ اخلاق کے باب میں کس حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
جناب ثاقب نثار اس مسند پر تشریف فرما تھے جو انصاف کی سب کی بڑی علامت ہے۔ کوئی ریاست اس کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ اِس کرسی پر شک و شبہ کی دھول ہو جو کرسی نشین کی خلعت پر داغ بن کر دکھائی دینے لگے۔ ایک مہذب معاشرے کیلئے یہ بات قابلِ قبول نہیںکہ ایک جماعت جو ووٹ کی عزت کا علم اٹھائے ہو، اس کے عہدیدار دو دو ہزار میں ووٹ خرید رہے ہوں۔ ریاست و سیاست کا احترام متقاضی ہے کہ یہ قصے ٹی وی سکرین تک محدود نہ رہیں۔ اس قوم میں سے کوئی ایک دیوانہ تو ہو جو انہیں عدالت تک لے جائے۔
سب سے اچھا تو یہ ہے کہ عدالت ازخود نوٹس لے۔ یہ ایک فرد نہیں، ایک منصب بلکہ ایک ادارے کی توقیر کا سوال ہے۔ الیکشن کمیشن کا شکریہ کہ اس نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا۔ اسی طرح نون لیگ اگر ووٹ کے تقدس پر فی الحقیقت یقین رکھتی ہے تو اس وڈیو پر اپنا ردِ عمل دے جس میں ووٹ خریدے جا رہے ہیں۔ اس کے ذمہ داروں کا تعین کرے اور ان سے اعلانِ لاتعلقی کرے۔ کیا اس معاشرے میں سب عقل مند ہیں، کوئی پاگل نہیں؟
معاشرہ، مشرق کا ہو یا مغرب کا، انسانوں ہی سے مرتب ہوتا ہے۔ انسان خیر اور شر کا مجموعہ ہے۔ کہیں صاحبانِ خیر غالب ہوتے ہیں اور کہیں صاحبانِ شر۔ معاشرے اور ریاست کے ذمہ دار، اس بات کا اہتمام کرتے ہیں سماجی اور ریاستی سطح پر خیر غالب رہے۔ کوئی شر اگر فرد یا چاردیواری تک محدود ہے تو اسے برداشت کیا جاتا ہے۔ یہی شر اگر چاردیواری کو پھلانگ کرسڑک پر آجائے اور اشتہار بن جائے تو پھر معاشرہ اور ریاست، اپنے اپنے دائرے میں، حرکت میں آتے ہیں اور اپنے نظامِ اقدار کا دفاع کرتے ہیں۔
معاشرے اور ریاست کے ردِ عمل میں فرق ہوتا ہے۔ معاشرے کے پاس قوتِ نافذہ نہیں ہوتی۔ اس کے ردِ عمل کا ظہور عام طور پر رویوں کی سطح پر ہوتا ہے۔ بیٹے سے کوئی غلطی ہوجائے اوراس کا چرچا گلی بازار میں ہونے لگے تو باپ گھر سے نکلنا چھوڑ دیتا ہے۔ ہمسایے بیگانے بن جاتے ہیں۔ یوں اس بیٹے کیلئے محلے میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جو معاشرے اپنی اقدار کے بارے میں حساس ہوں وہاں یہی ہوتا ہے۔
ریاست کے پاس قوتِ نافذہ ہوتی ہے۔ کوئی شر اگر گھر کی چاردیواری سے نکلے تو قانون حرکت میں آتا ہے۔ پولیس، تھانہ کچہری، عدالت، پھر ملزم کو سب مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر معاشرہ اپنی سطح پر رد عمل نہ دے تو نظامِ اقدار کمزور ہو جاتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ اس کی حساسیت ختم ہوجاتی ہے۔ ریاست اگر ردِعمل نہ دے تو قانون شکنی چلن بن جاتی ہے اور پھر وہ وقت آتا ہے کہ ریاست کی رٹ باقی نہیں رہتی۔ اس لیے یہ معاشرہ ہویا ریاست، شرکے معاملے میں بے نیاز نہیں ہو سکتے اگر اس کی عام شہرت ہونے لگے۔
ترقی یافتہ دنیا میں معاشرہ اورریاست، دونوں روایات اور قانون کے بارے میں حساس ہوتے ہیں۔ وہاں شراتنا جری ہو جائے کہ سماج یا ریاست کے مدِمقابل آ کھڑاہو تو اسے منطقی انجام تک پہنچایا جاتا ہے۔ اگر کردار کشی ہوتو الزام لگانے والے کو اس کی قیمت دینا پڑتی ہے۔ اگر سچ ہوتو پھر ملزم سماج میں نکو بن جاتا ہے۔ منصب دار ہو تو منصب سے محروم کر دیاجاتا ہے۔ ہم ریاستی اور سماجی سطح پر ایسی حساسیت کا مظاہرہ نہ کرسکے۔ جس کے جی میں جوآئے، وہ کسی خوف کے بغیر کہہ ڈالتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اسے کسی فورم پر جواب دہ نہیں ہونا۔ دوسری طرف مجرم بھی جانتا ہے کہ کوئی اس کا احتساب کرنے والا نہیں۔
عمران خان صاحب کا اپنے دھرنے کے بارے میں آج بھی موقف یہی ہے کہ اگر چار حلقوں کی تحقیقات ہو جاتیں توانہیں دھرنا دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ آج وہ خود ایسے منصب پر ہیں کہ انصاف کیلئے اقدام کرسکتے ہیں۔ کل ہی انہوں نے ایک بار پھر واضح کیا کہ وہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ ان واقعات سے صرفِ نظر نہیں کریں گے اور یہ چاہیں گے کہ ان وڈیوز اور آڈیوز کی حقیقت عوام کو معلوم ہو اور کسی کویہ جرأت نہ ہوکہ دوسرے پر جھوٹا الزام لگائے یا انصاف کی مسند پر بیٹھنے والے کی خلعت پر کوئی داغ ہو۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ صاحب نے ایک بیانِ حلفی کا اس لیے نوٹس لیاکہ اس سے عدالت کی توقیر پر حرف آتا تھا۔ ہمیں اسی حساسیت کی ضرورت ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ عدالتِ عظمیٰ بھی ایسے ہر واقعے کو منطقی انجام تک پہنچائے گی جس کا تعلق اس اعلیٰ ترین عدالت کی تکریم اور عزت سے ہے۔ اگر ثاقب نثار صاحب کی ویڈیو کسی کی ذہنی اختراع ہے تواس کا بے نقاب ہونا بھی ضروری تاکہ عدالت پر عوام کا اعتماد مجروح نہ ہو۔
اداروں کی عزت کاانحصار دو عوامل پر ہے۔ ایک یہ کہ خود مناصب پر بیٹھے لوگ اس باب میں کتنے حساس ہیں۔ انہیں اس بات کا کتنا احساس ہے کہ ان کی زبان، قلم اور طرزِ عمل سے اس منصب کی عزت وابستہ ہے، وہ جس پر براجمان ہیں۔ دوسرا یہ کہ معاشرہ اور ریاست اس بات سے کتنے باخبر ہیں کہ ادارے، سماجی ہوں یا ریاستی، اگر اپنی عزت کھو دیں تو معاشرہ اور ریاست دونوں خطرات میں گھر جاتے ہیں۔
سماج اور ریاست کی حفاظت ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اس کیلئے ہم سب کو اپنے اپنے دائرے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اگر کوئی دوسرا اس بارے میں لاپروائی برتے تو اسے متوجہ کرنا ہے۔ یہ کام عام طور پر محراب و منبر اورمیڈیا کرتے ہیں۔ وہ سماج اور ریاست کے مختلف طبقات اور اداروں کو ان کی ذمہ داریوں کے بارے میں تذکیر کرتے ہیں۔ یہ کام بڑے پیمانے پر نہ ہو تو کچھ لوگ ضرور ایسے ہونے چاہئیں جو یہ فرض کفایہ ادا کریں۔ لازم ہے کہ سماج میں سب سیانے نہ ہوں کوئی 'پاگل‘ بھی ہو۔
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے